ایک کروڑ آبادی والے تہران سے انخلا کیسے ممکن ہے؟

مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ کچھ سڑکوں پر پٹرول کی قطاریں کئی کلومیٹر تک پھیل گئی ہیں اور ایندھن بھراونے کا انتظار تین گھنٹے سے زائد ہو چکا ہے۔

جیسے ہی ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ پانچویں دن میں داخل ہوئی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تہران کو ’فوری طور پر خالی کرنے‘ کی اچانک وارننگ نے ایرانی دارالحکومت تہران میں خوف، افراتفری اور غیر یقینی صورت حال پیدا کر دی۔

انڈپینڈنٹ فارسی کی ایک رپورٹ کے مطابق لاکھوں شہری ایک ایسے شہر سے فرار کی کوشش میں ہیں جو تباہی کے دہانے پر ہے، یا پھر غربت، بیماری، بے گھری اور بدانتظامی میں جکڑے ہوئے شہر میں محصور ہیں۔ تمام آثار اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر صورت حال یوں ہی رہی تو تہران مکمل انسانی المیے کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔

ایران پر اسرائیلی فوجی حملے کے پانچویں روز کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں خبردار کیا: ’تمام افراد فوری طور پر تہران خالی کر دیں۔‘

یہ پیغام سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوا اور اسے زیادہ تر لوگوں نے اس بات کی علامت قرار دیا کہ امریکہ باضابطہ طور پر اسرائیل کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جنگ میں کود رہا ہے۔ اس پیغام کی حساسیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب ٹرمپ نے جی 7 اجلاس ادھورا چھوڑ کر اعلان کیا کہ وہ ’اہم معاملات‘ کے لیے واشنگٹن واپس جا رہے ہیں۔

تاہم اس پیغام کے چند گھنٹے بعد امریکی چینل سی این این نے وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کے حوالے سے رپورٹ دی کہ امریکی صدر کے اس بیان کا مطلب دراصل ایران پر ’جلد از جلد مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی تاکید‘ ہے۔

انڈپینڈنٹ فارسی نے لکھا ہے کہ مگر تہران کے عوام کے لیے، جو جنگ اور بحران میں گھرے ہوئے ہیں، یہ وضاحت کسی طرح اطمینان بخش نہیں ہے، خاص طور پر اس لیے کہ اس پیغام سے صرف ایک روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے تل ابیب کے فضائی اڈے پر اپنی تقریر میں تہران کو خالی کرنے کی بات کی تھی، اور اس کے بعد تہران کے 30 لاکھ آبادی والے ضلع 3 کو خالی کرنے کی وارننگ جاری کی گئی تھی۔

صورت یہ ہے کہ صرف اس ایک علاقے سے انخلا بھی تہران کے شہریوں کے لیے تقریباً ناممکن ہے، چہ جائیکہ پورے دارالحکومت کو خالی کیا جا سکے۔

میدانی رپورٹس اور شہادتوں کے مطابق تہران سے نکلنے والے راستے پہلے ہی شدید ٹریفک کی وجہ سے مسدود ہو چکے ہیں، اور زیادہ تر لوگوں کے پاس نہ تو کہیں جانے کی جگہ ہے، نہ ہی مالی وسائل، اور نہ ہی سفر کے ذرائع موجود ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعض لوگ اپنے بیمار، ضعیف اور ہسپتال میں داخل بچوں کے باعث شہر چھوڑنے سے قاصر ہیں۔ جو چند لوگ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ ایندھن کی قلت، لمبی قطاروں اور قریبی شہروں کی جانب جانے والی سڑکوں پر شدید بھیڑ بھاڑ کا سامنا کر رہے ہیں۔

تہران اور اس کے خارجی راستے

صوبہ تہران ایران کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 90 لاکھ ہے۔ کچھ لوگ تہران شہر میں رہتے ہیں، کچھ قریبی شہروں جیسے رے، اسلام شہر، شہریار اور پردیس وغیرہ میں، اور ایک بڑی تعداد مضافات اور غیر رسمی بستیوں میں مقیم ہے۔

تہران شہر کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جو اب ہنگامی انخلا کے دہانے پر کھڑا ہے، مگر اس کا بنیادی ڈھانچہ اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔

انڈپینڈنٹ فارسی نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر انخلا کی وارننگ پر مکمل طور پر اور سنجیدگی سے عمل ہوتا ہے، تو مختلف علاقوں کے مکینوں کے پاس مختلف راستے ہوں گے، مگر ان میں سے کوئی بھی نہ محفوظ ہے نہ یقینی۔ 

شمالی اور شمال مشرقی تہران کے رہائشیوں کو چالوس، ہراز یا فیروزکوه کی مصروف شاہراہوں سے شمالی صوبوں خصوصاً مازندران جانا ہو گا، مگر یہ راستے اتنے لوگوں کے فوری انخلا کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور ان شہروں میں موجود انتظامی ڈھانچہ بھی لاکھوں افراد کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔

شہر کے مغربی علاقے کے لوگ زیادہ تر البرز صوبے کا رخ کریں گے، جو خود پہلے ہی میزائل اور ڈرون حملوں کی زد میں ہے اور وہاں عوامی بےچینی اور وسائل کی قلت پہلے سے موجود ہے۔ کرج اور اس کے مضافات پہلے ہی بنیادی ڈھانچے کی کمی اور انتظامی مسائل سے دوچار ہیں، اور اب انھیں تہران کے لاکھوں افراد کو سنبھالنے کا چیلنج درپیش ہے، جس کے لیے نہ وسائل ہیں نہ انتظام۔

جنوبی تہران میں راستے سمنان اور خراسان کی طرف کھل رہے ہیں، مگر تہران کے جنوب کے کئی علاقے خود انتہائی پسماندہ ہیں، اور وہاں کے کمزور طبقے کی منظم مدد کے بغیر نقل مکانی عملی طور پر ناممکن ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تہران کے خارجی راستے زیادہ سے زیادہ بتدریج اور منصوبہ بند انخلا کے لیے بنائے گئے ہیں، نہ کہ بیک وقت لاکھوں افراد کے فوجی حملے کے دوران نکلنے کے لیے۔

ہزاروں افراد تہران سے نکلنے کی کوشش میں

انڈپینڈنٹ فارسی نے لکھا ہے کہ تہران کو خالی کرنے کی وارننگ نے عوام میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔ رپورٹوں اور زمینی شہادتوں کے مطابق ہفتے کی صبح سے ہی تہران سے شمال، جنوب اور مغرب جانے والی سڑکیں شدید بھیڑ کا شکار ہو گئی ہیں۔ ہزاروں لوگ اپنی ذاتی گاڑیوں میں نکلے، مگر بیشتر گھنٹوں سڑکوں پر پھنسے رہے، نہ پانی، نہ سایہ، نہ بنیادی سہولیات، اور سخت گرمی میں بےیار و مددگار۔

ایندھن کی قلت بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق ہر گاڑی کا پٹرول کوٹا 15 لیٹر تک محدود کر دیا گیا ہے، اور اضافی پٹرول رکھنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں بیشتر گاڑیاں شہر سے نکلنے کے بعد راستے میں پٹرول ختم ہونے کے باعث کھڑی ہو گئی ہیں۔

رپورٹوں کے مطابق کئی سڑکوں پر پٹرول پمپوں کی قطاریں کئی کلومیٹر تک پھیل گئی ہیں اور ایندھن کے انتظار کا دورانیہ تین گھنٹے سے زیادہ ہو چکا ہے۔

ایک شہری، جس نے پیر کی سہ پہر تہران سے نکل کر شمالی شہر کا سفر کیا، نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا، ’اگر میری گاڑی میں کچھ اضافی پٹرول نہ ہوتا تو میں بھی سینکڑوں دوسرے لوگوں کی طرح راستے میں پھنس جاتا۔ چار گھنٹے کا راستہ 12 گھنٹے میں طے ہوا، اور راستے میں میں نے کئی مسافروں کو گرمی لگنے، بھوک اور پانی کی قلت سے دوچار دیکھا۔‘

غربت اور جنگ میں گھرے تہران کے عوام

ایک طرف تہران کو خالی کرنے کی وارننگ کا نفسیاتی دباؤ ہر گھنٹے بڑھتا جا رہا ہے، ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو نہ تو شہر چھوڑ سکتی ہے نہ کہیں جا سکتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا بظاہر آسان لگتا ہے مگر حقیقتاً یہ بیشتر شہریوں کے لیے ممکن ہی نہیں۔

کچھ لوگ مالی طور پر تہران چھوڑنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مسلسل مہنگائی، بیروزگاری اور بنیادی غربت نے ان کے پاس نہ سفر کے لیے پیسے چھوڑے ہیں، نہ کرائے کے لیے، نہ کھانے کے لیے، نہ دوسری جگہ رہائش کے لیے۔ وہ جنگ اور دھماکوں کے درمیان اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔

دوسری جانب ایک بڑی تعداد کے پاس جانے کو کوئی جگہ ہی نہیں۔ نہ رشتہ دار، نہ گاؤں میں مکان، نہ چند دن گزارنے کے لیے محفوظ چھت۔

کچھ لوگ نقل و حمل کے ذرائع سے بھی محروم ہیں۔ ان کے پاس اپنی گاڑیاں نہیں ہیں، اور موجودہ حالات میں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ محدود یا معطل ہے، اور ٹیکسیاں اور بسیں بھی نہایت مہنگی اور محدود ہیں، وہاں ان کے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔

سب سے زیادہ بےچینی ان افراد کو لاحق ہے جن کے ضعیف والدین، بیمار عزیز، یا خصوصی نگہداشت کے محتاج بچے ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ وہ انھیں چھوڑ کر شہر سے نہیں جا سکتے۔ انھوں نے جنگ کے بیچ رہنے کو اپنے پیاروں کو تنہا چھوڑنے پر ترجیح دی ہے۔

ایک شہری، جو تہران چھوڑ کر شمالی شہر پہنچا، نے بتایا، ’بہت سے لوگ جنگلوں کے کنارے خیمے لگا کر رہ رہے ہیں، نہ پانی، نہ بجلی، نہ کوئی سہولت۔‘

کچھ لوگوں نے اپنے دیہی گھروں یا رشتہ داروں کے ہاں پناہ لے لی ہے۔ جو خوش نصیب تھے یا پہلے سے تیار تھے، وہ اب نسبتاً محفوظ مقامات پر ہیں اور تہران کی خبروں کو تشویش سے دیکھ رہے ہیں۔

تہران سے آنے والے زمینی شواہد ایک ہی خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی کا ایرانی دارالحکومت تہران ایک غیر معمولی انسانی المیے کے دہانے پر ہے۔

---------

انٹرنیٹ سروس کی معطلی

ایرانی ذرائع ابلاغ نے ملک بھر میں انٹرنیٹ سروسز کی وسیع بندش کی اطلاع دی ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان فضائی حملے اور جوابی کارروائیاں جاری ہیں۔

ایرانی اخبار ’ہم میہن‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ کئی صوبوں میں انٹرنیٹ صارفین نے وسیع پیمانے پر نیٹ ورک بند ہونے کی شکایات درج کرائی ہیں۔

دیگر ایرانی میڈیا اداروں نے بھی اسی نوعیت کی اطلاعات جاری کی ہیں، تاہم اس بندش کی وجوہات ابھی تک واضح نہیں کی گئیں۔ حکام نے جمعے کے روز اسرائیل کی جانب سے ایرانی عسکری تنصیبات اور جوہری مراکز پر غیرمعمولی فضائی حملوں کے بعد انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

منگل کے روز ایران کے سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن ادارے نے عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر پیغام رسانی کی ایپ وٹس ایپ کو اپنے موبائل فونز سے حذف کر دیں۔ ایرانی حکام نے اس ایپ پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے موساد کے لیے معلومات جمع کرتی ہے۔

یہ ہدایت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ایران میں دوبارہ وٹس ایپ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس پابندی کا اطلاق ان اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد کیا گیا، جن میں ایرانی سرزمین پر متعدد اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

یاد رہے کہ دسمبر 2024 میں ایرانی حکام نے انٹرنیٹ پر عائد کچھ پابندیاں نرم کرتے ہوئے وٹس ایپ پر سے بھی پابندی ہٹا لی تھی، مگر حالیہ سکیورٹی صورت حال کے باعث یہ پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی گئی ہیں۔

دوسرا رخ

تاہم دوسری جانب تہران میں مقیم ایک پاکستان طالب علم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تہران کے شہریوں کی بڑے پیمانے پر شہر سے انخلا کی خبریں مبالغہ آمیز ہیں۔ انہوں نے کہا، ’تہران میں 30 سے 40 فیصد آبادی دیگر شہروں سے روزگار کے لیے آتی ہے۔ اسی طرح طلبہ کی بڑی تعداد بھی دوسرے شہروں سے تہران کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں جو چھٹیوں کی وجہ سے اپنے شہروں کو جا رہے ہیں۔

’تہران کی مقامی آبادی اب بھی تہران میں ہی موجود ہے اور کئی افراد کا کہنا ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں اپنے شہر کو ترک نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سچی بات تو یہ ہے کہ ان حملوں کے بعد بڑی تعداد میں حکومت مخالف لوگ بھی کھل کر اسرائیل کے خلاف ہو گئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا