بدھ کی صبح ایرانی حکام نے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے سمارٹ فونز سے میسجنگ ایپلیکیشن وٹس ایپ کو ہٹا دیں۔ حکام نے الزام لگایا کہ یہ ایپ صارفین کی معلومات جمع کر کے اسرائیل کو بھیجتی ہے، تاہم کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
وٹس ایپ نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے بیان میں وٹس ایپ کی مالک کمپنی میٹا نے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ ’یہ جھوٹی رپورٹیں ایک ایسے وقت میں ہماری سروس بند کرنے کا بہانہ بن سکتی ہیں جب لوگوں کس اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘
میٹا نے مزید کہا کہ وہ صارفین کے مقام یا ایک دوسرے کو بھیجے گئے ذاتی پیغامات کو ٹریک نہیں کرتی۔
ان الزامات کی آزادانہ طور پر تصدیق ممکن نہیں کیونکہ ایران نے اس حوالے سے کوئی عوامی شواہد پیش نہیں کیے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ اگرچہ وٹس ایپ میں مضبوط پرائیویسی اور سکیورٹی فیچرز ہیں، یہ مکمل طور پر ناقابلِ تسخیر نہیں۔ اور کم از کم ایک ملک ایسا ہے جو اس سے پہلے اس میں نقب لگا چکا ہے: اسرائیل۔
وٹس اپ کے تین ارب صارفین
وٹس ایپ ایک مفت میسجنگ ایپ ہے جس کی ملکیت میٹا کے پاس ہے۔ اس کے دنیا بھر میں تقریباً تین ارب صارفین ہیں اور اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کے ذریعے ٹیکسٹ میسجز، کالز اور میڈیا بھیجنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
وٹس ایپ میں اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن استعمال ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پیغام صرف بھیجنے والا اور موصول کرنے والا ہی پڑھ سکتا ہے، حتیٰ کہ وٹس ایپ بھی اس تک رسائی نہیں رکھتی۔
اعلیٰ سائبر صلاحیت
دنیا میں سائبر صلاحیت کے حوالے سے امریکہ سرفہرست ہے۔ اس اصطلاح سے مراد وہ مہارت، ٹیکنالوجیز اور وسائل ہیں جو ممالک کو ڈیجیٹل سسٹمز اور نیٹ ورکس کے دفاع، حملے یا استحصال کے قابل بناتے ہیں۔
سائبر صلاحیت میں اسرائیل کا شمار بھی دنیا کے سرفہرست ممالک برطانیہ، چین، روس، فرانس اور کینیڈا میں ہوتا ہے۔
اسرائیل کا سائبر آپریشنز کا ریکارڈ بھی موجود ہے، جس میں سب سے مشہور ’سٹکس نیٹ‘ (Stuxnet) وائرس ہے جس نے 15 سال پہلے ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا تھا۔
اسرائیل کے کئی سائبر یونٹ، خاص طور پر ’یونٹ 8200‘ دنیا بھر میں اپنی تکنیکی مہارت اور دفاعی و جارحانہ آپریشنز میں جدت کے لیے معروف ہے۔
دنیا کی 10 بڑی سائبر سکیورٹی کمپنیوں میں سے سات کے تحقیق و ترقی کے مراکز اسرائیل میں موجود ہیں، اور اسرائیلی سٹارٹ اپ کمپنیاں اکثر نئی سائبر سکیورٹی اور سائبر حملے کی ٹیکنالوجیز میں سبقت رکھتی ہیں۔
ایک تاریخی مثال
اسرائیلی کمپنیوں کا ماضی میں وٹس ایپ اکاؤنٹس ہیک کرنے سے بھی تعلق رہا ہے۔ اس میں سب سے نمایاں جاسوسی کا سافٹ ویئر پیگاسس سپائی ویئر ہے، جو اسرائیلی سائبر انٹیلی جنس کمپنی این ایس او گروپ نے تیار کیا۔
2019 میں اس سپائی ویئر نے وٹس ایپ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے1,400 صارفین کے فونز میں نقب لگائی، جن میں صحافی، کارکن اور سیاست دان شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ماہ ایک امریکی وفاقی عدالت نے این ایس او گروپ کو حکم دیا کہ وہ وٹس ایپ اور میٹا کو تقریباً 17 کروڑ امریکی ڈالر ہرجانہ ادا کرے۔
ایک اور اسرائیلی کمپنی پیراگون سلوشنز نے بھی حال ہی میں تقریباً 100 وٹس ایپ اکاؤنٹس کو نشانہ بنایا، اور جدید سپائی ویئر کے ذریعے ان کے ڈی انکرپٹڈ پیغامات تک رسائی حاصل کی۔
(اگرچہ موجودہ صورتِ حال میں ایران نے کوئی ثبوت نہیں دیا، تاہم اس کے ماضی کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے اسرائیل کے پاس یقیناً یہ صلاحیت اور عزم موجود ہے کہ وہ کسی کا وٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک کر سکے۔)
سپیئر فشنگ حملے
ایسے حملے اکثر ’سپیئر فشنگ‘ (Spearphishing) کے ذریعے ہوتے ہیں۔ یہ عام فشنگ حملوں سے مختلف ہے، جہاں ہزاروں افراد کو جعلی لنک بھیجا جاتا ہے۔
اس کے برعکس سپیئر فشنگ میں خاص طور پر منتخب افراد کو دھوکہ دہی پر مبنی پیغامات یا فائلز بھیجی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے کمپیوٹر یا فون میں غلطی سے سپائی ویئر انسٹال کر لیں۔ اس کے بعد حملہ آور متاثرہ ڈیوائس پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں، بشمول وٹس ایپ کے ڈی انکرپٹڈ پیغامات کے۔
ایسا فشنگ ای میل یا پیغام بظاہر کسی قریبی ساتھی یا معتبر ادارے کی جانب سے آ سکتا ہے، جس میں آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ فوری طور پر کوئی ڈاکیومنٹ دیکھیں یا پاس ورڈ ری سیٹ کریں۔ اس سے صارف کو جعلی لاگ ان پیج پر لے جایا جاتا ہے جس سے ان کے سسٹم میں میل ویئر ڈاؤن لوڈ ہو جاتا ہے۔
سپیئر فشنگ سے بچاؤ
ایسے حملوں سے بچنے کے لیے:
- غیر متوقع ای میل یا پیغام کو احتیاط سے جانچیں، خاص طور پر وہ جو ہنگامی نوعیت کا تاثر دیں
- مشکوک لنک یا نامعلوم اٹیچمنٹ پر کلک نہ کریں
- لنک پر ماؤس لے جا کر اصل ویب ایڈریس دیکھیں (کلک نہ کریں)
- دوہری تصدیق (2FA) فعال رکھیں، سافٹ ویئر باقاعدگی سے اپڈیٹ کرتے رہیں
- مشکوک درخواستوں کی تصدیق قابلِ اعتماد ذرائع سے کریں
- وقتاً فوقتاً سائبر سکیورٹی ٹریننگ حاصل کریں تاکہ ایسے حملوں کو پہچان سکیں
نوٹ: یہ تحریر دی کنورسیشن پر چھپی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ کری ایٹو کامنز کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے مصنف آسٹریلیا کی گرفتھ یونیورسٹی میں سائبرسکیورٹی پڑھاتے ہیں۔