پنجاب کے دریائے راوی میں آنے والے حالیہ سیلاب نے سموسوں کی فروخت سے گزر بسر کرنے والے تھیم پارک کے رہائشی ممتاز حسین کو بے گھر کر دیا اور ان کا سارا سامان پانی کی نذر ہو گیا، لیکن اسی بے گھری میں انہیں روزگار کا نیا آسرا ملا ہے۔
آٹھ بچوں کے والد ممتاز ایک غیر سرکاری تنظیم ’آغازِ سحر‘ کی جانب سے ملتان روڈ پر بنائی گئی خیمہ بستی میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور امداد پر زندگی گزارنے کی بجائے انہوں نے اب سموسوں کا سٹال لگا لیا ہے۔
پنجاب میں بدترین سیلاب سے اب تک 39 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں اور چار ہزار سے زائد چھوٹے بڑے گاؤں اور شہری آبادیاں سیلابی ریلوں کی نظر ہو چکی ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں پانی کی موجودگی کے باعث بحالی کا کام بھی شروع نہیں ہو سکا۔
حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کے امدادی کیمپوں میں موجود سینکڑوں ہنر مند ایسے ہیں جودوبارہ اپنے کام شروع کرنا چاہتے ہیں، لیکن بیشتر کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں کہ وہ اپنا کام شروع کر سکیں۔
اسی صورت حال میں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والی تنظیم آغازِ سحر نے اپنے لگائے گئے کیمپوں میں موجود افراد کو سروے کے بعد چھوٹے کاروبار دوبارہ بحال کروانے کا کام شروع کر دیا ہے۔
اس تنظیم کی مدد سے اپنا سٹال لگانے والے ممتاز حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں 10 دن سے کیمپ میں بچوں کے ساتھ مقیم ہوں۔ سیلاب سے پہلے سموسے بیچ کر گھر کا خرچ چلا رہا تھا۔ اب کسی کی دی ہوئی امداد پر زندگی گزارنے پر ضمیر ملامت کرتا ہے، اس لیے میں نے انہیں (منتظمین سے) کہا کہ مجھے سموسوں کا کام دوبارہ شروع کرنا ہے، لہذا انہوں نے مجھے سلینڈر، تھال، گھی، میدہ اور مصالحے وغیرہ لے کر دیے۔ میں نے سموسے کیمپ میں ہی تیار کر کے سڑک کنارے سٹال پر بیچنا شروع کر دیے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ممتاز فی سموسہ 10 روپے میں فروخت کرکے 1500 سے 2000 روپے روزانہ کما لیتے ہیں، جو بقول ان کے ’خرچ کے لیے بہت ہیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’میری سات بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، جن میں سے چھ بیٹیوں کی شادی کر دی ہے۔ اب ایک بیٹا اور بیٹی، دو ہم میاں بیوی۔ چار افراد کے لیے تو کما ہی سکتا ہوں۔‘
ممتاز پُر امید ہیں کہ پانی خشک ہوتے ہی وہ کسی اور جگہ گھر کرائے پر لے لیں گے، کیونکہ بقول ان کے، ’میں زیادہ عرصہ اس طرح کسی پر بوجھ بن کر زندگی گزارنا مناسب نہیں سمجھتا۔‘
’آغازِ سحر‘ کے عہدیدار باسط بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہم صرف متاثرین کو رہائش ہی نہیں بلکہ انہیں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ہم نے سروے میں 20 ایسے متاثرین کا انتخاب کیا ہے، جو چھوٹے کاروبار سے روزی کماتے تھے۔ ہم انہیں 10 سے 50 ہزار تک کی امداد دے کر کام شروع کروا رہے ہیں۔‘
ممتاز حسین کی طرح کیمپ میں اہل خانہ سمیت مقیم ظہور احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میں الیکٹریشن کا کام کرتا ہوں، گھر سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔ اب بچے پالنے کے لیے دوبارہ اپنا کام شروع کرنے لگا ہوں۔ اس تنظیم کی جانب سے مجھے 15 ہزار دیے گئے ہیں، جن سے میں اپنے اوزار خرید کر دوبارہ الیکٹریشن کا کام شروع کر دوں گا۔‘
بقول ظہور: ’ کام شروع ہونے سے اپنے بچوں کا خرچ تو خود اٹھا سکوں گا۔‘