پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری نے جمعے کو کہا ہے کہ صوبائی کابینہ نے مذہبی جماعت تحریک لبیک (ٹی ایل پی) پر پابندی لگانے کی منظوری دے دی ہے اور سفارش پر مبنی مراسلہ وفاقی حکومت کو ارسال کر دیا ہے۔
ٹی ایل پی نے 10 اکتوبر کو ’لبیک یا اقصیٰ‘ کے نام سے لاہور تا اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا تھا، جسے روکنے کی کوششوں پر ٹی ایل پی کارکنوں اور پولیس میں متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ 13 اکتوبر کو پنجاب کے شہر مریدکے میں مارچ کو منتشر کر دیا گیا، جہاں پولیس کی بڑی تعداد میں نفری اور رینجرز نے مل کر مارچ کے شرکا کو جی ٹی روڈ خالی کرنے پر مجبور کر دیا۔
پولیس کے مطابق مارچ میں شامل افراد کو منتشر کرنے کی کارروائی کے دوران ایک ایس ایچ او جان سے گئے اور 80 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے جبکہ ٹی ایل پی نے بھی اپنے کئی کارکنوں کی اموات، زخمی ہونے اور گرفتاریوں کا دعویٰ کیا۔
مرید کے واقعہ کا مقدمہ ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف درج کیا گیا، تاہم اس جماعت کے سربراہ سعد حسین رضوی، ان کے چھوٹے بھائی انس حسین رضوی اور دیگر مرکزی قائدین کے بارے میں اس وقت تک کوئی اطلاع نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ نہ صرف ان کی جماعت لاعملی کا اظہار کر رہی ہے بلکہ پولیس بھی ان کی گرفتاری کی تردید کرتی ہے۔
عظمٰی بخاری نے لاہور میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ’پنجاب کابینہ نے لبیک پر پابندی لگانے کیلئے منظوری دے دی ہے۔ کابینہ کی یہ منظوری وفاقی حکومت کو بھیجوا دی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے پاکستان میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ’انتہا پسندی‘ کی سیاست کی جارہی ہے اور ایک مذہبی جماعت نے غزہ کے معاملے پر تشدد احتجاج کا فیصلہ کیا۔
ممکنہ ہڑتال پر پنجاب میں 40 ہزار پولیس اہلکاروں کی تعیناتی
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جمعے کو ممکنہ ہڑتال کے پیش نظر پولیس نے تقریباً 40 ہزار اہلکار تعینات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو ’سڑکوں پر آنے کی اجازت‘ نہیں دی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی اور جماعت کے دیگر قائدین منظر سے غائب ہیں اور اس صورت حال میں کئی مذہبی جماعتوں نے جمعے کو احتجاج کی کال دے رکھی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے پنجاب پولیس نے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں۔
جمعرات کو رات دیر گئے پنجاب پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی زیر صدارت اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’کل (جمعے کو) کسی بھی شخص کو ہڑتال کی آڑ میں سڑکوں پر آنے، قانون ہاتھ میں لینے کی ہرگز اجازت نہیں، شہریوں کی جان و مال، املاک کا تحفظ، قانون کی پاسداری بہرصورت یقینی بنائی جائے گی۔‘
آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ 27 ہزار افسران و اہلکار سڑکوں پر ڈیوٹی کریں گے، جبکہ سپیشل برانچ کے 12 ہزار اہلکار ’شرپسندوں‘ کو گرفتار کریں گے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی زیر صدارت اجلاس، لا اینڈ آرڈر، سکیورٹی صورتحال کا جائزہ، کل کسی بھی شخص کو ہڑتال کی آڑ میں سڑکوں پر آنے، قانون ہاتھ میں لینے کی ہرگز اجازت نہیں، شہریوں کی جان و مال، املاک کا تحفظ، قانون کی پاسداری بہرصورت یقینی بنائی جائے گی۔ مارکیٹیں، کاروباری… pic.twitter.com/u4rxhozqYG
— Punjab Police Official (@OfficialDPRPP) October 16, 2025
بیان کے مطابق: ’تمام شرپسندوں کا ڈیٹا سیف سٹی، پٹرولنگ وہیکلز میں نصب کیمروں میں فیڈ کیا جا چکا ہے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات کے تحت پنجاب پولیس کو مطلوب درجنوں شرپسندوں کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس بیسڈ ٹیکنالوجی کی مدد سے گرفتار کیا جائے گا۔‘
مزید کہا گیا کہ ’شر پسندی پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوں گے‘ اور 10 سے 14 سال کی سزا ہو گی۔
پنجاب پولیس نے یقین دہائی کروائی ہے کہ جمعے کو مارکیٹیں، کاروباری مراکز، ٹرانسپورٹ اور شاہراہیں کھلی رہیں گی۔
جمعرات کو ہی اسلام آباد میں بھی ایک اجلاس، جس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر مذہبی سردار محمد یوسف، وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اور وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے شرکت کی، ملک میں حالیہ امن و امان کی صورتحال کا جائرہ لیا گیا۔
وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حالیہ ہنگاموں میں سرکاری و نجی املاک کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگایا جائے گا اور عوام کی سکیورٹی اور تحفظ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔
اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’ملک میں کسی کو بھی بدامنی اور انتشار پھیلانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
ایک بیان میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے جمعے کو لاہور سمیت صوبہ بھر کی سکیورٹی بڑھانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’مساجد، امام بارگاہوں، مذارات، مارکیٹوں، حساس مقامات کی سکیورٹی یقینی بنائیں۔‘
انہوں نے ضلعی پولیس افسران سمیت سینیئر پولیس افسران سے کہا ہے کہ وہ فیلڈ میں موجود رہیں اور سکیورٹی انتظامات کا خود جائزہ لیں۔ ’دفعہ 144 کی پابندی پر عملدرآمد یقینی بنائیں، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔‘