ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ایک، دو کے علاوہ سارے پرفیوم آن لائن منگوائے گئے ہیں، باوجود اس کے کہ یہ ایک ایسی شے ہے جو ٹیسٹنگ کے بغیر خریدی نہیں جا سکتی۔
اسی کے ساتھ رکھے کئی طرح کے سیرمز کی بوتلیں، جو گلاس سکن کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، اب استعمال سے آدھی ہو چکی ہیں۔
ان کی دوبارہ باری کا کوئی چانس اس لیے نہیں کہ اس سے بہتر سیرم بنانے کا دعویٰ سامنے آ چکا ہے اور اب وہ آن لائن شاپنگ کارٹ میں موجود ہے۔
الماری میں ضرورت سے کہیں زیادہ کپڑے سلے رکھے ہیں، اس کے علاوہ بھی کئی زیر غور ہیں جو کسی بھی وقت تنخواہ آتے ہی گھر کے دروازے پر پہنچ جائیں گے۔
لپ سٹکس، لائنر، بلش آن، کریم جو رات دن کے لیے الگ اور ہاتھوں کے لیے علیحدہ ہیں، ان کے ساتھ ساتھ واش روم میں رکھے خوشبودار باڈی واشز کی بوتلیں بھی جسم کو اس طرح معطر نہیں کر پا رہیں جیسے ان کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
یہ تو ابھی میں نے کسرِنفسی سے کام لیا ہے۔ کچھ گھرانوں میں تو یہ صورت حال ہاتھوں سے نکلی جا رہی ہے۔
لیکن کچھ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اب آپ کی ساری دنیا یہ موبائل فون اور اس میں سمٹی وہ ایپس ہیں جن پر آپ 24 گھنٹے یہی کچھ دیکھ رہے ہیں، جو آپ کو مرعوب بھی کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ کنگال بھی۔
انسٹاگرام ایک الگ جادوئی دنیا ہے جس کی کشش کسی بھی جنس مخالف سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
یہ آپ کی خوابوں کی دنیا ہے، ایسی جس میں آپ دن رات جینا چاہتے ہیں تب ہی رات میں جو لوگ انسٹا پر انفلوئنسرز کے بھاشن دیکھ کر سوتے ہیں وہ خوابوں میں بھی خود کو ویسا ہی پاتے ہیں۔
اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ خوبصورتی سے مرعوب نہیں تو یقین جانیں وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
ہم سب ہی خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیں اور جب بھی کسی حسین عورت یا مرد کو دیکھیں تو دل میں کسک اٹھتی ہے، کیونکہ کہیں نہ کہیں ہمارے اندر کی احساس کمتری ہم پر حاوی ہو جاتی ہے۔
اس کی بے داغ جلد کا راز کیا ہے؟
رپورٹنگ کی غرض سے مجھے دو یوٹیوبرز انفلوئنسرز خواتین کا انٹرویو کرنا تھا۔ میں چونکہ انسٹا اور یوٹیوب پر ایسی انفلوئنسرز سے ناواقف تھی تو مجھے اپنی بہن کی مدد لینے پڑی۔
اس نے ایک طویل فہرست مجھے بھیجی کہ یہ خواتین آج کل سب کی پسندیدہ ہیں اور ان کے فالوورز ملین میں ہیں، آپ ان سے رابطہ کیجیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رابطہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ آپ کسی سیاست دان کو آسانی سے انٹرویو کے لیے قائل کر سکتے ہیں لیکن ان انفلوئنسر کو پکڑنا تقریباً ناممکن ہے۔
خیر مینیجرز کی منتیں ترلے کرنے کے بعد دو خواتین تک رسائی ممکن ہوئی۔ ان میں سے ایک میک اپ اور دوسری فیشن وی لاگر تھیں۔
میں نے اپنی بہن سے ذکر کیا کہ رابطہ ہوگیا ہے تو وہ بے قرار ہو گئی اور مجھ سے کہا کہ جب آپ میک اپ وی لاگر، جس کی وہ فین تھی، کے پاس جائیں تو پلیز پوچھیے گا کہ اس کی چمک دار بے داغ جلد کا راز کیا ہے؟ کیونکہ جو جو مصنوعات وہ استعمال کرتی ہیں میں نے وہ سب منگوا لیے لیکن مجھے فائدہ نہیں ہو رہا۔
میری بہن کی فکر جائز تھی۔ اس کی یونیورسٹی اختتام پر تھی، گھر سے جو جیب خرچ مل رہا تھا وہ اس کو جمع کر کر کے مہنگی مصنوعات انفلوئنسر کے بتائے گئے ڈسکاؤنٹ کوڈ، جس پر بمشکل 50 روپے کم ہوجاتے تھے منگوا منگوا کر کنگال ہو رہی تھی اور ہلکان بھی کہ اگر وہ آج نوکری کر رہی ہوتی تو اسے یوں گھٹ گھٹ کر بیوٹی پراڈکٹس نہ منگوانے پڑتے۔
شوٹ کے روز ہم مطلوبہ پتے پر پہنچے۔ پہلا شوٹ فیشن وی لاگر کا تھا۔ اس نے ہمیں مرعوب کرنے کے لیے اپنا بیڈ روم دکھایا اور وارڈ روب جہاں کئی سو جوڑے رکھے تھے۔
ان میں سے بیشتر پر ٹیگ لگے تھے۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ نہیں، ان کی باری تو ایک ماہ بعد آئے گی۔
میں آپ کو فلاں ڈریس کے ساتھ وی لاگنگ کرتے دکھاتی ہوں تاکہ آپ کے شاٹس بن جائیں۔
میں نے پوچھا اتنے کپڑوں پر ٹیگ لگے ہیں، آپ کیا ایک ساتھ شاپنگ کر لیتی ہیں تو وہ ہنسی اور کہا ارے مجھے کچھ خریدنے کی کہاں نوبت آتی ہے۔
یہ تو پی آر پیکجز ہیں۔ یہ جب میں پہنوں گی تو ان کا نام لوں گی، مینشن کر دوں گی تو اس وی لاگ کے مجھے یہ ڈیزائنر پیسے دے دیں گے اور ویوز کے الگ سے پیسے آ جائیں گے۔
خاتون بہت عام سی شکل و صورت کی تھیں لیکن میک اپ کرنے کے بعد وہ کسی بھی سپر ماڈل کو ٹکر دے سکتی تھیں۔
اگلے دن میک اپ اینڈ بیوٹی وی لاگر کے گھر جانا ہوا۔ یہ کراچی کا ایک متوسط طبقے کا علاقہ تھا۔
گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنا سٹوڈیو، جہاں وہ میک اپ ٹیوٹوریل دیتی تھیں، دکھایا۔ یہ کمرہ ان کے چینل پر جس طرح کا وسیع و عریض نظر آتا تھا اتنا چھوٹا تھا کہ میں وہ اور کیمرامین کے کھڑے ہونے سے بھر گیا۔
سارا کمال لائٹنگ اور اس کمرے میں لگے شیشوں کا تھا۔ جس طرح کی ڈریسنگ ٹیبل اور اس میں درازیں بنائی گئی تھیں وہ جب جب ویڈیو میں ناظرین کھلتی دیکھتے تھے تو انہیں لگتا تھا کہ کھل جا سم سم کا خزانہ نظر آ گیا ہے۔
ہمارے آنے کی اطلاح تھی تو وہ تیار تھیں، لیکن ہمیں شوٹ کرنا تھا کہ وہ میک اپ کر کے دکھائیں اور ساتھ ساتھ ویڈیو بھی بنائیں جو ہم شوٹ کریں تو انہوں نے کہا کہ میں چہرہ دھو کر آتی ہوں لیکن آپ اس چہرے کو شوٹ نہیں کریں گے، جب میں کہوں تب کیجیے گا۔
تھوڑی دیر بعد وہ لڑکی آئی تو مجھے اپنی بہن کی معصومیت اور یونیورسٹی میں لنچ کی قربانی دے کر لی جانے والی بیوٹی پراڈکٹس پر رونا آنے لگا۔
چہرے پر تل، داغ، مہاسے، دانے کیا کچھ نہیں تھا اور تو اور ان کی جن نیلی آنکھوں پر مرد و خواتین فدا تھے وہ بھی لینسز تھے۔
خیر میرے سامنے لڑکی نے چار مختلف طرح کی ٹیوب نکالیں چہرے پر ایک کے بعد ایک لیپ لگایا اور کہا کہ اب آپ شوٹ کیجیے یہاں سے میں میک اپ شروع کروں گی۔
جو لپائی چہرے پر کی گئی وہ بے داغ جلد عوام کو اصل نظر آتی تھی۔ اس کے بعد کیے جانے والے میک اپ نے تو لڑکی ہی بدل ڈالی۔
شوٹ ختم ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ کتنی زیادہ بیوٹی پراڈکٹس استعمال کرتی ہیں؟ یہ تو مہنگا شوق ہے تو وہ بھی قہقہہ لگا کر بولیں یہ سب میک اپ پی آر پیکجز ہیں۔
میں ایک پروموشن کے دو سے تین لاکھ روپے وصول کرتی ہوں۔ مہینے میں کوئی ایسی سات سے 10 پروموشز ہوجاتی ہیں۔
باقی میرے پاس یوٹیوب کا سلور اور گولڈن بٹن تو ہے ہی، ڈالرز الگ آ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے اتنے گفٹس آتے ہیں کہ کیا بتاؤں۔
یہاں تک کہ فوڈ ڈیلوری تو اتنی ہے کہ گھر میں کچھ پکتا ہی نہیں کیونکہ سب یہی چاہتے ہیں کہ میں ایک شاؤٹ آؤٹ دے دوں تاکہ میرے فالوورز وہ خریدیں۔
اخلاقیات کا تقاضہ تھا تو میں اصل چہرے کی تصویر نہ بنا سکی لیکن جب حقیقت اپنی بہن کو بتائی تو اس کا دل اور بے داغ جلد کا خواب دونوں ہی ٹوٹ گئے۔
مہندی، ہلدی، بھاری جوڑے اور ہینڈسم شوہر
حال ہی میں ایک فیشن وی لاگر کی مہندی، ہلدی اور شادی کی تقاریب اور ریلز وائرل ہیں، جس میں وہ اپنے دو بچوں کے ہر ایونٹ میں میچنگ کپڑوں کے ساتھ نظر آ رہی ہیں۔
ان کا دولہا بہت ہی خوش شکل اور مالی طور پر مستحکم ہے۔ خواتین اس نئے جوڑے کے کپڑوں، بناؤ سنگھار، تقاریب کی سجاوٹ اور سب سے بڑھ کر اس بات پر واری صدقے جا رہی ہیں کہ ایک طلاق یافتہ دو بچوں کی ماں کو اتنا اچھا جیون ساتھی ملا کہ اس نے اسے دو بچوں سمیت قبول کیا اور اتنی دھوم دھام سے شادی کی، اس سے بڑا کیا ہی گرین فلیگ ہو گا۔
یقیناً آنے والے مہینوں میں کئی ایسی لڑکیوں کی شادی میں یہ فیشن، سجاوٹ، میک اوور، ڈیزائنر کپڑے فالو کیے جائیں گے۔
یہی نہیں پچھلے برس کی یوٹیوبر رجب بٹ کی شادی کی ویڈیو تو سب کو یاد ہوگی، جس میں لاکھوں نوٹ تو صرف ویلوں پر اڑا دیے گئے۔
اس شادی کی تقاریب، اس میں ملنے والی لاکھوں کی سلامیاں، بیش قیمت تحائف اور اخراجات کو جس طرح دکھایا گیا تو احساس ہوا کہ کیا واقعی اس ملک پر آئی ایم ایف کا قرضہ ہے؟
خیر ان جیسی ہزاروں شادیاں انسٹا اور یوٹیوب چینلز پر نظر آتی ہیں۔ کئی نوبیاہتا جوڑے اپنے ہنی مون تو ریل یا سٹوریز میں دکھاتے ہیں یا اپنے پارٹنر کو ایسے سرپرائزز دیتے ہیں جس سے کئی شادی شدہ جوڑوں میں ناراضگی طول پکڑ جائے۔
مہنگے ڈنر سے لے کر ہیرے کی انگوٹھی سے پروپوز کرنا ہو یا ڈیسٹینیشن ویڈنگ سے ڈریم ہنی مون کی انسٹا سٹوریز، ریلز یا وی لاگ، یہ سب عام لوگوں کی زندگیوں اور سوچ کو بدل چکے ہیں۔
یہ جانے اور سوچے بنا کہ جنہیں وہ دیکھ رہے ہیں، وہ پیسہ کمانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں اور ان کا ذریعہ آپ بھی ہیں۔
میں کالی ہوں گوری ہوجاؤں، میں موٹی ہوں پتلی ہوجاؤں، میری شادی ہو رہی ہے، لیکن سسرال جامع کلاتھ یا طارق روڈ سے عروسی جوڑا لائے گا تو میں کیسے ایک کلاسی دلہن لگوں گی؟
ہنی مون پر پاکستان نہیں کہیں باہر کے ملک تو جانا بنتا ہے، شوہر اچھا کماتا ہے لیکن وہ ہینڈسم نہیں، اگر ہینڈسم ہے تو رومینٹک نہیں، میری سکن کیئر روٹین اس لیے اچھی نہیں کہ پراڈکٹ مہنگے نہیں۔
اگر میرے پاس اتنے پیسے ہوں تو ہم شہر کے ہر مہنگے ریستوران میں کھانا کھائیں، سوٹ تو مہنگا لے لیا، کیا ہی اچھا ہو کہ بیگ اور جوتے بھی برینڈڈ مل جائیں۔
یہ چند خواہشات ہیں لیکن اس سے ملتی جلتی یا اس سے بھی کہیں اوپر کی خواہشات نے اب لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
خواتین ہوں یا مرد اب وہ ایک دوسرے کا تقابلی جائزہ کرنے لگے ہیں۔ فلاں کا شوہر بیوی کو تعطیلات پر یورپ لے گیا، یہ میرے نصیب میں کیوں نہیں۔
تم کچن میں کس حالت میں کھانا پکاتی ہو۔ ان عورتوں کو دیکھو پورے ہار سنگھار میک اپ کے ساتھ کیا عمدہ پکوان بناتی ہیں۔
اب ایک ہی گھر میں رہنے والے میاں بیوی ہوں یا بہن بھائی ایک ان دیکھے انجانی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں جس میں دوسرا خوشحال، خوش، خوبصورت، خوش قسمت اور مکمل نظر آتا ہے جبکہ اپنا آپ کمتر، بے وقعت، کم حیثیت اور ان چاہا دکھائی دیتا ہے۔
ہم سب سکرین پر نظر آنے والے بےداغ جلد کے مالک کو اللہ کی دین قرار دے رہے ہیں، لیکن نہیں جانتے کہ سامنے والا ہمارے جیسا ہی چہرہ رکھتا ہے۔
وہ ایک اور چیز بھی رکھتا ہے جو ہمارے پاس نہیں اور وہ ہے خوبصورتی سے فریب دینے کا فن۔
وہ اس ہنر سے مارکیٹ میں آنے والے کئی کاروبار کو وسعت بھی دے رہا ہے اور ساتھ ہی اپنے مواد سے بھی کما رہا ہے۔
لیکن ہم اپنے اردگرد کی نعمتوں، رشتوں اور ان لمحات کی خوبصورتی سے لاعلمی اور نظر اندازی کی اس حد تک جا پہنچے ہیں جہاں ہمیں نیند بھی اب انسٹا کی ریلز کو دیکھے بنا نہیں آتی۔
جو نیند نعمتوں کے شکر ادا کرنے پر آیا کرتی تھی، اب وہ دوسروں کی جھوٹی فریبی زندگی پر رشک کرتے اور حسد کرتے آتی ہے۔
ان سب میں یاد آیا کہ آئندہ جب بھی آپ کسی ریستوران میں کھانا کھانے جائیں تو تصویر کھینچے بغیر کھانا کھائیے گا۔
یقین جانیے کھانے کی لذت الگ ہی محسوس ہو گی۔ جب بھی پرفیوم خریدنے کا ارادہ ہو تو کئی خوشبووں کو جانچ کر اس کا انتخاب کیجیے گا، جو آپ کو فرحت کا احساس دے۔
کپڑا آن لائن نہیں، پہن کر پرکھ کر لیں، یقین مانیے آدھی خواہش تو سوٹ ٹرائی کرنے میں ہی ختم ہو جائے گی۔
رہی بات جلد کی تو جب آپ کا ہارمونل سسٹم نارمل کام کرے گا تو سکن خود بخود بے داغ ہوجائے گی۔
سب سے آخری بات جس طرح جسم کو ڈی ٹاکس کرنا ضروری ہے اسی طرح ذہن کو ڈی ٹاکس کرنے کے لیے کبھی کبھی سوشل میڈیا سے بریک لیں، اپنی زندگی پر نظر ڈالیں اور نعمتوں کا جائزہ لیں اس سے زندگی میں بہت مثبت تبدیلی آئے گی۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔