انسٹاگرام کے تین منٹ اور پی سی او

انسٹاگرام کا نیا فیچر کام کرنا شروع ہو گیا ہے جس میں انہوں نے تین منٹ تک کی ریل کو ایکسپلور فیڈ میں شامل کرنے کا کہا تھا۔ پہلے ہمارے پاس 90 سیکنڈ ہوتے تھے یعنی ڈیڑھ منٹ لیکن اب وہ ٹائم دوگنا ہو گیا، تین منٹ!

انسٹاگرام کا ایک نیا فیچر کام کرنا شروع ہو چکا ہے جس میں انہوں نے تین منٹ تک کی ریل کو ایکسپلور فیڈ میں شامل کرنے کا کہا تھا۔

پہلے ہمارے پاس 90 سیکنڈ ہوتے تھے یعنی ڈیڑھ منٹ لیکن اب وہ ٹائم دوگنا ہو گیا، تین منٹ!

تین منٹ کا نوٹیفیکیشن کل جیسے ہی میرے پاس آیا تو مجھے پی سی او یاد آ گئے۔ یہ بھی عجیب دھندا ہے، جیسے ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے دین کے ساتھ سائنس کا رشتہ ثابت کرتے رہتے ہیں اسی طرح مجھ جیسے ماضی میں رہنے والے ہر جدید چیز کی تاریں کسی پرانی یاد سے ملا کر مٹھا مٹھا کرنٹ کھاتے رہتے ہیں ۔۔۔ دانت کے ہلکے درد میں جو لذت مسوڑھے پہ زبان پھیرنے میں آتی ہے، بس وہی ہوتا ہے مٹھا مٹھا کرنٹ!

پچھلے دنوں ایک دوست نے کسی کالم میں پی سی اوز کا ذکر سنا تو چونک گئیں، پوچھا، مجھے شرمندگی ہوئی کہ ساتھ وضاحت کیوں نہ دی، پی سی اوز ہمارے زمانے میں پبلک کال آفسز کو کہتے تھے۔ تب ایک ہی فون کمپنی ہوا کرتی تھی اور ملک بھر میں رابطے ناہموار رہنے کی مکمل ذمہ داری اسی کے چکنے گھڑے جیسے کندھوں پہ ہوتی تھی۔

چھوٹے شہروں میں زیادہ تر ایک ہی پی سی او ہوتا تھا۔ اب سوچیں ذرا کہ 1985 کا زمانہ ہے، نو لاکھ کی آبادی ہے شہر ملتان کی اور کُل ملا کے ایک پی سی او ہے ڈیرے اڈے میں ۔۔۔ ہوں گے، دو تین اور ہوں گے لیکن ساڑھے نو لاکھ لوگوں میں جن کے گھر فون نہیں لگا ہوا ان کو سارا آسرا اسی پی سی او کا ہے۔

آپ نے لاہور، کراچی، پشاور یا کہیں بھی فون کرنا ہے تو اٹھیں، کپڑے بدلیں، کال آفس جائیں، ٹوکن لیں، آپریٹر کو نمبر دیں، اپنی باری کا انتظار کریں، وقت آنے پر فون بوتھ میں جائیں، ریسیور کان سے لگائیں، کال شروع ہونے سے پہلے اپنے دماغ میں رکھیں کہ آپ کے پاس تین منٹ کا وقت ہے!

ان تین منٹ کی قیمت کا اندازہ آخری بار مجھے تب ہوا تھا، بزرگ لوگ باقاعدہ لسٹ بنا کے فون کرنے جاتے تھے مبادا کوئی بات رہ جائے، ڈھائی منٹ کے بعد ایک بیپ ہوتی جو اس بات کا اشارہ ہوا کرتی کہ اب 29 سیکنڈ باقی ہیں اور وہ آدھا منٹ کیسے گزرتا تھا، اللہ اکبر! آنکھوں میں کونوں پہ اٹکے آنسو، بات ادھوری رہ جانے کا غم، کوئی وعدہ نہ لے پانے کی پریشانی ۔۔۔ خدا جانے کیا کیا کچھ وقت کے اس باریک حصے میں ہو جایا کرتا تھا۔

تو اب، خداوندانِ سوشل میڈیا نے جب یہ طے کر لیا ہے کہ ایک منٹ سے واپس تین منٹ کو مراجعت کرنی ہے تو مجھ جیسوں کو بھی تسلی ہو گئی ہے کہ چلو یار مائیکروفلمنگ کا دور شاید ختم ہو جائے۔ 100 لفظوں کی داستان، 50 لفظ کی نظم، بغیر نقطوں کی غزل، پانچ منٹ کی ٹھمری، ڈیلی مائیکرو ولاگ یا ایک منٹ کی ریل میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔

اگلے روز شیراز حسن کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اردو نیوز کے دفتر میں، قابل آدمی ہیں، لکھنے لکھانے پہ بات ہو رہی تھی، کہنے لگے کہ مائیکرو فکشن اور فیس بک نے کیسا کیسا لکھاری ضائع کر دیا، انسان کے دل میں ایک خیال آتا ہے، اس سے پہلے کہ وہ پکے، کسی کہانی، ناول یا مضمون میں تبدیل ہو، یار لوگ اٹھا کے سٹیٹس پہ دے مارتے ہیں، آئیڈیا دو گھنٹے بعد ختم ہو جاتا ہے اور وہی انسان کسی نئی سوچ کے ساتھ گھوم رہا ہوتا ہے۔

بات توجہ طلب تھی، ایسی ہر بات پہ مجھے وجاہت بھائی یاد آ جاتے ہیں، غوروفکر والے کونے میں چوتھا چراغ ہمیشہ ان کے نام کا روشن ہی رہتا ہے، تو خیر، ان دنوں میں بے تحاشا لکھتا تھا، ہر دو روز بعد 1400 لفظ کا ایک کالم نازل ہوا کرتا اور ترنت ہماری ویب سائٹ ’ہم سب‘ پر آویزاں ہو جایا کرتا۔ ایک دن میں نے ایسے ہی کوئی چھوٹی موٹی چیز فیس بک پہ ڈالی تو بھائی نے پاس بلا لیا، کہنے لگے کہ دیکھیے، انسان میں تخلیق کی صلاحیت محدود ہوتی ہے، یہ چھوٹے سٹیٹس، بے ترتیب شاعری یا کچھ بھی وقتی دل لگی جو آپ کرتے ہیں تو آپ کا زور جو ہوتا ہے وہ ٹوٹ جاتا ہے، فوکس دائیں بائیں ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باقاعدہ جم کر کچھ بھی کرنے سے آپ بیزار ہونے لگتے ہیں، تو بس دھیان کیجے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دھیان کیا کرنا تھا، سوشل میڈیا پہ مومن کی ہر لحظہ نئی آن نئی شان تھی، کام چلتا رہا لیکن اب اندازہ ہوتا ہے کہ بھائی نے سولہ آنے برابر بات کہی تھی۔ انسٹاگرام ہی کے لیے ویڈیوز بنا بنا کے دماغ چٹنی ہو جاتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ لکھ چکا، ہر بات کہہ چکا، بول چکا ۔۔۔ لیکن یہ انہی دنوں ہوتا ہے جب کام دھ ڑا دھڑ جاری ہو ۔۔۔ دو تین ہفتے کا بریک کبھی لگتا ہے تو پھر سے بیٹری چالو ہو جاتی ہے۔

یعنی؟

مائیکرو لیول والا کام بہت زیادہ تخلیقی وفور مانگتا ہے اور اتنا ہی اس کی زندگی بھی کم ہوتی ہے ۔۔۔ تو کیا فائدہ بابا ایسا کچھ کرنے کا؟

مگر

فائدہ یہ ہے کہ سو سال پہلے وہ بندشیں جو دو دو گھنٹے گائی جاتی تھیں آج تین منٹ کے گانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں، اس وقت یہ عیاشی راجے مہاراجے کرتے تھے، آج ہم جیسا عام آدمی بھی گانے سنتا ہے، گانا بناؤ اور کیچی ہے تو تین دن میں پوری دنیا گھوم لے گا ۔۔۔ گویا جب کسی چیز کو پوری دنیا گھمانا ہے تو اسے پوری دنیا کے لیول پر بھی لانا پڑے گا اور دنیا کا لیول اس وقت طے پایا ہے میرے بھائی تین منٹ! مہربان قدردان تین منٹ!

انسٹاگرام کے تین منٹ، یو ٹیوب کے تین منٹ اور وہی ہمارے پی سی اوز کے تین منٹ!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ