امریکہ کے پاس ایک بابا ہے، جن کا نام پروفیسر جان میئر شائمر ہے۔ لگ بھگ 77 برس کے ہوں گے لیکن ان کے دیے ہوئی پولیٹیکل سائنس کے نظریات روزِ اول کی طرح جوان جہان ہیں۔
بابا میئر شائمر یونیورسٹی آف شکاگو سے منسلک ہیں لیکن ان کے لکھے ہوئے الفاظ آج دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔
ہماری لغت میں میئر شائمر کا نام بابا تب سے پڑا جب ناروے کی ایک یونیورسٹی میں ہمارے نارویجن استاد میئر شائمر کو ’دَیٹ اولڈ مین‘ کہہ کر یاد کرتے تھے حالانکہ سیاسیات میں نظریات دینے والوں کی اکثریت بزرگوں پر ہی مشتمل ہے۔
بابا جی کی زیارت مطلوب ہو تو گوگل پہ ان کا نام لکھنے سے صرف بھاری بھرکم کتابیں اور آرٹیکلز ہی نہیں، یوٹیوب ویڈیوز بھی آ جاتی ہیں۔
بزرگوار کو ملکوں اور قوموں کی سیاست میں طاقت کے نظریات پہ خصوصی ملکہ حاصل ہے۔ عالمی حالات اگر معمول کے مطابق ہوتے تو شاید بابا میئر شائمر کو اتنا سکرین ٹائم نہ ملتا لیکن دنیا چونکہ نائن الیون کے بعد سے ہلکی آنچ پہ حالت جنگ میں ہے، اس لیے میئر شائمر اکثر معروف پرائم ٹائم شوز میں حالات حاضرہ پہ تجزیہ دیتے نظر آتے ہیں۔
آج اس شدت سے بابا میئر شائمر کو یاد کرنے کی بھی یہی وجہ ہے۔
چونکہ ہم پاکستانی بھی مئی 2025 کے بعد مسلسل کبھی یہاں اور کبھی وہاں سرحدی جھڑپیں دیکھ رہے ہیں، نئے جنگی ترانے سن رہے ہیں، سڑکوں پہ جیت کی خوشی پہ عسکری نوعیت کے بینرز لگ رہے ہیں اور ہمارے سوشل میڈیا پہ میمز چل رہی ہیں کہ چار پیسے تو لگ گئے پر فوج چنگی بن گئی۔
میئر شائمر عالمی سیاست کو حقیقت پسندی کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق دنیا میں ہمیشہ سے ملکوں کے تعلق میں صرف طاقت کا سکہ چلتا ہے۔ تمام ریاستیں اپنی اپنی دوڑ میں ہیں جنہیں کوئی بین الاقوامی سُپر پولیس کنٹرول نہیں کر سکتی کیونکہ یہ نظام انارکی پہ مشتمل ہے۔ ہر ملک کو اپنی حفاظت خود کرنی ہے، جس کے لیے طاقت کا حصول لازمی ہے تاکہ دوسرے ملکوں کی جارحیت سے محفوظ رکھا جا سکے۔
میئر شائمر کے حساب سے طاقت کی اس دوڑ میں جب ایک ملک طاقت حاصل کرتا ہے تو دوسرا لامحالہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔
یوں دوسرا ملک اور دوسرے سے تیسرا ملک طاقت حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ اس لامتناہی دوڑ میں نہ ملک آپس میں دوست ہوتے ہیں نہ ہی ہمدرد۔
بابا جی نے 2018 میں ایک کتاب لکھی جس میں لبرل سیاسی سوچ رکھنے والوں کو آئیڈلزم کا شکار اور سراب کا پیچھا کرنے والے کہا۔ بابا جی کے دیگر مخالفین کی طرح آپ کو بھی ان سے اختلاف کی آزادی ہے لیکن ایک لمحے کو ذرا ٹھہر کہ دیکھیں تو میئر شائمر کی بات دل کی لگتی ہے۔
جو حالات ہمارے ارد گرد چل رہے ہیں اس میں کیسی اخلاقیات اور کہاں کی انسانیت؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ بنانے کا مقصد تھا کہ تمام ریاستیں باہمی تعاون سے آپس کے معاملات حل کریں۔ پھر صدیوں تک دست و گریباں رہنے والے یورپی ممالک نے یورپی یونین بنا لی تاکہ معاشی طور پہ ایک دوسرے کی ضرورت بن جائیں اور دشمنی چھوڑ دیں۔
عالمی عدالت انصاف جیسے ادارے بنائے گئے تاکہ دنیا میں کوئی بھی ملک، قوم یا گروہ ناانصافی کا شکار نہ ہو۔
اب بابا جی کی عینک لگا کر دیکھیں تو نظر آئے گا کہ یہ فیصلہ صرف طاقتور ملک کرتا ہے کہ تعاون کس سے اور کیسے کرنا ہے۔
اسرائیل جیسی ریاست کے پاس طاقت ہو تو عالمی عدالت انصاف بغلیں جھانکتی رہ جاتی ہے اور یورپی یونین میں معاشی تعاون اپنی جگہ۔ طاقت کا توازن تو یہاں آج بھی سب سے بڑا سوال ہے۔
بس اسی انداز سے پاکستان اور افغانستان کے کیس کو بھی پرکھ لیں، الزام تو ویسے بھی ہیں، ایسے بھی سہی۔
آپ افغانستان میں مداخلت کی بات کریں گے تو ریئلزم کا جواب ہو گا پاکستان کا قومی مفاد۔ آپ افغان پناہ گزینوں کی بے بسی پہ روئیں گے تو جواب ملے گا پاکستان کا قومی مفاد۔ آپ کو افغان جہاد کی غلطی پہ غم وغصہ ہے لیکن اس کا جواب بھی دفاعی تجزیہ نگار قومی مفاد ہی دیں گے۔
انسانیت پہ بھاشن دینا اور بات ہے لیکن دنیا کا کوئی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی اندرونی اور خارجہ پالیسی انسانیت، قانون اور اخلاقیات کے عین مطابق ہے۔
ریاستیں درد دل کے ساتھ فیصلے کرتیں تو کبھی کوئی جنگ سرے سے نہ ہوتی۔ جیسے اندھا دھند طاقت کا کھیل چل رہا ہے، پاکستان بھی اسی بساط کا ایک مہرہ ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔