سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اس ہفتے ہونے والے سٹریٹجک دفاعی معاہدے نے خطے میں طاقت کے توازن کو نئی جہت دی ہے۔
یہ معاہدہ 17 ستمبر، 2025 کو ریاض میں وزیر اعظم پاکستان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان طے پایا۔
معاہدے کی سب سے اہم شق کے مطابق اگر کسی ایک ملک پر بیرونی جارحیت ہو گی تو اسے دونوں ممالک کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہ شق تعلقات کو محض علامتی بیانات سے نکال کر ایک باضابطہ سلامتی فریم ورک میں ڈھالتی ہے۔ اسے عالمی ذرائع ابلاغ نے ایک ناقابل یقین پیش رفت قرار دیا ہے کیونکہ یہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک نئے دور کی بنیاد رکھتا ہے۔
اس معاہدے کو سعودی عرب کی حالیہ خارجہ حکمت عملی اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔
سعودی عرب پہلے ہی پاکستان میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
پبلک انوسٹمنٹ فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق اگلے تین برسوں میں 25 ارب ڈالر کے منصوبے طے پائے ہیں۔
دفاعی معاہدہ اس تعاون کو ایک نئی سطح پر لے جاتا ہے کیونکہ اب سلامتی اور معیشت دونوں شعبے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ چکے ہیں۔
چین نے بھی حالیہ مہینوں میں پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ بیجنگ کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو خطے میں ایک ذمہ دار اور کلیدی شراکت دار سمجھا جا رہا ہے۔
نئے منصوبوں میں ڈرون ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ نیول مشقیں شامل ہیں۔ اگر سعودی معاہدے اور چینی تعاون کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اب ایک ایسے دفاعی نیٹ ورک کا حصہ ہے جو خلیج، مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا تک پھیلا ہوا ہے۔
ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے۔ حالیہ اقتصادی اعداد و شمار کے مطابق 2025 کی پہلی سہ ماہی میں دوطرفہ تجارت میں 38 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سرحدی تعاون میں بھی بہتری آئی ہے اور دونوں ممالک نے سمگلنگ اور غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے مشترکہ اقدامات کیے ہیں۔
یہ پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد پر کشیدگی کم کرنے کی بجائے تعلقات کو اقتصادی تعاون کی بنیاد پر آگے بڑھا رہا ہے۔
ایران کی پارلیمنٹ میں تشکرِ پاکستان کے نعرے لگنا دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نیا باب ہے۔
روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ روس نے پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر مالیت کا تیل فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے، جو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اہم قدم ہے۔
قازقستان اور ازبکستان کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی توسیع سے پاکستان کے لیے وسطی ایشیائی منڈیوں تک براہ راست رسائی ممکن ہو رہی ہے۔
اس پیش رفت کو ماہرین ’اقتصادی جغرافیے‘ کی نئی صورت گری قرار دے رہے ہیں، جس میں پاکستان محض ایک صارف ریاست نہیں بلکہ راہ داری کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اور اہم قدم آرمینیا کو بطور خودمختار ریاست تسلیم کرنا ہے۔ 34 برس بعد یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اپنے سفارتی فیصلوں میں زیادہ آزاد اور متوازن حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔
اس فیصلے کے اثرات اس خطے میں پاکستان کے کردار کو وسعت دینے کا سبب بن سکتے ہیں، خاص طور پر جب وہاں ترکی اور آذربائیجان بھی پاکستان کے قریبی شراکت دار ہیں۔
ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ تعلقات میں بھی عملی تعاون بڑھا ہے۔ ترکی کے ساتھ چار ارب ڈالر سے زائد کے دفاعی منصوبے طے پائے ہیں جن میں مشترکہ جنگی مشقیں اور اسلحہ سازی شامل ہیں۔
آذربائیجان میں پاکستان کے لیے عوامی سطح پر مثبت جذبات ان تعلقات کو نرم طاقت کے تناظر میں بھی اہم بنا رہے ہیں۔ یہ دونوں ممالک پاکستان کے لیے قفقاز اور مشرقی یورپ میں نئے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
امریکہ کے ساتھ تعلقات میں حالیہ عرصے میں ایک نیا توازن سامنے آیا ہے۔ پاکستان نے واشنگٹن کی جنگ بندی کی درخواست قبول کر کے یہ ظاہر کیا کہ وہ علاقائی تنازعات میں سنجیدہ اور ذمہ دار کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ جنوبی ایشیا کی کسی ریاست کو براہِ راست جنگ بندی عمل میں مرکزی فریق مانا گیا۔
اس پیش رفت سے پاکستان کو امریکی پالیسی حلقوں میں زیادہ وزن ملا ہے۔ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال بھی پاکستان کی پالیسی کا اہم جزو ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ چھ ماہ میں سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں 42 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
اس کمی کو پاکستان کی ان کارروائیوں کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے جو افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے کی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پیش رفت کا اثر خطے میں امن و استحکام پر بھی مرتب ہو رہا ہے۔ پاکستان کی افریقی اور مشرقی ایشیائی ریاستوں میں موجودگی بھی بڑھ رہی ہے۔
نائجیریا کے ساتھ 600 ملین ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملائشیا اور انڈونیشیا میں پاکستان کے سیاسی مؤقف کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔
یہ تعلقات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان اب اپنی سفارت کاری کو جنوبی ایشیا سے آگے بڑھا کر ایک زیادہ وسیع جغرافیائی دائرے میں وسعت دے رہا ہے۔
جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق ڈھاکہ یونیورسٹی کے 65 فیصد طلبہ نے پاکستان کو خطے کا حقیقی قائد قرار دیا۔
10 مئی کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش اور نیپال کی عوامی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ رہیں، جس نے انڈیا کے خطے میں روایتی اثر و رسوخ کو چیلنج کیا ہے۔
یہ تبدیلی جنوبی ایشیائی سیاست میں پاکستان کے کردار کو نئے زاویے سے اجاگر کرتی ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب محض ردعمل پر مبنی نہیں رہی بلکہ ایک منظم حکمت عملی کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ سٹریٹجک دفاعی معاہدہ اس پالیسی کا سب سے نمایاں ستون ہے، جو پاکستان کو خلیج کی سلامتی میں براہِ راست شریک بنا رہا ہے۔
چین، روس، ترکی اور امریکہ جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات اس بات کو مزید واضح کرتے ہیں کہ پاکستان اب عالمی سیاست کا ایک فعال کھلاڑی ہے۔
یہی وہ سمت ہے جسے کامیاب خارجہ پالیسی کہا جا سکتا ہے۔ ایسی پالیسی جو قومی مفاد پر مبنی ہو، علاقائی توازن قائم کرے اور عالمی سطح پر ریاست کے اثر و رسوخ کو بڑھائے۔
ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائد اعظم یونیورسٹی کے سکلول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔