بین الاقوامی تعلقات میں بعض اوقات چند دنوں کے اندر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو دہائیوں پر محیط تاریخ کا رخ موڑ دیتے ہیں۔
بالکل ایسا ہی منظر سامنے آیا جب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، قطر کے دورے پر موجود تھے۔
قطر میں قیام کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے نہایت شائستگی اور گرم جوشی کے ساتھ وزیر اعظم کو سعودی عرب کے سرکاری دورے کی دعوت دی۔
یہ دعوت محض ایک رسمی اعلان نہ تھی بلکہ اس میں دو برادر ممالک کے تعلقات کی نئی جہتیں پوشیدہ تھیں۔
شہباز شریف نے بلا تاخیر یہ دعوت قبول کر لی اور محض دو روز بعد ان کے قدم سعودی سرزمین پر پہنچے۔
ریاض ایئرپورٹ پر سعودی شاہی پروٹوکول کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا، جسے دیکھ کر ہر آنکھ کو یہ احساس ہوا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات ایک نئے عہد میں داخل ہو رہے ہیں۔
قصر یمامہ میں سعودی ولی عہد نے خود وزیر اعظم کا استقبال کیا۔ شاہی دیوان میں گارڈ آف آنر، سعودی مسلح افواج کے دستوں کی پریڈ اور روایتی شاہی شان و شوکت نے اس تاریخی ملاقات کو ایک ایسا رنگ دیا جو کم ہی کسی دوسرے سربراہِ حکومت کے حصے میں آیا ہو۔
یہ محض استقبال نہ تھا بلکہ اس میں ایک غیر معمولی پیغام چھپا تھا: پاکستان آج بھی سعودی عرب کے لیے ویسا ہی قابل اعتماد بھائی اور شراکت دار ہے جیسا گذشتہ آٹھ دہائیوں سے رہا ہے۔
مگر اب یہ تعلق ایک نئے فریم ورک اور زیادہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے جا رہا ہے۔
ریاض میں تاریخی دفاعی معاہدہ
ریاض میں منعقدہ اجلاس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ’سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘ (SMDA) پر دستخط کیے۔
معاہدے کے الفاظ بظاہر سادہ ہیں مگر ان کے اندر پوری خطے کی سلامتی اور عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے والی گہرائی چھپی ہے۔
اعلامیے کے مطابق اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہ معاہدہ صرف عسکری تعاون یا فوجی مشقوں تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک کو ایک مشترکہ دفاعی حصار میں پرو دیتا ہے۔
اس کے ذریعے سعودی عرب کو پاکستان کی عسکری طاقت کا شراکت دار بنا کر اسلامی دنیا میں ایک نیا توازن پیدا کیا گیا ہے۔
ماضی کے معاہدوں پر موجودہ معاہدے کی برتری
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ خصوصی نوعیت کے رہے ہیں۔
1960 اور 1970 کی دہائیاں: پاکستانی افسران نے سعودی افواج کی تربیت کی اور دفاعی اداروں کی تنظیم نو میں بنیادی کردار ادا کیا۔
1982 کا دفاعی معاہدہ: پاکستانی یونٹس مستقل طور پر سعودی عرب میں تعینات ہوئے اور فضائیہ، بری فوج اور انجینیئرنگ میں تعاون فراہم کیا گیا۔
1990 کی دہائی: خلیجی جنگ کے دوران پاکستان نے سعودی عرب کو عسکری مشاورت اور محدود فوجی دستے فراہم کیے۔
2000 کے بعد: تعاون زیادہ تر تربیت، انسدادِ دہشت گردی اور مشترکہ مشقوں تک محدود رہا۔
موجودہ معاہدہ ان سب پر بھاری ہے کیونکہ یہ محض تربیت یا محدود تعاون نہیں بلکہ ایک جامع، تحریری اور ادارہ جاتی فریم ورک ہے۔
اب یہ معاہدہ ممکنہ طور پر مشترکہ دفاع، ہتھیاروں کی خرید و فروخت، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور خطے میں مشترکہ سلامتی حکمت عملی کو بھی کور کرتا ہے۔
پاکستان کا کردار: اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت
پاکستان ہمیشہ سے مسلم دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ معاہدے میں سعودی قیادت نے پاکستان کو نہ صرف ایک فوجی شراکت دار بلکہ ایک حتمی دفاعی ڈھال کے طور پر قبول کیا۔
پاکستانی افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اور قربانی سعودی قیادت کے لیے ایک تسلی بخش حقیقت ہے۔
سعودی عرب جانتا ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنے دفاع بلکہ امتِ مسلمہ کے دفاع کے لیے بھی کھڑا ہوتا ہے۔
قطر پر اسرائیلی حملہ اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی مانگ
قطر پر اسرائیلی حملے نے عرب دنیا کو چونکا دیا۔ امریکہ پر طویل عرصے تک انحصار کرنے والے ممالک کو اچانک احساس ہوا کہ واشنگٹن اکثر اوقات اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور مسلمانوں کے تحفظ میں غیر جانب دار نہیں۔
پاکستان نے ماضی میں دو بار اسرائیلی فضائیہ کے طیاروں کو گرا کر اپنی برتری ثابت کی تھی حالانکہ پاکستان اسرائیل سے ہزاروں کلومیٹر دور واقع ہے۔
اس تاریخی حقیقت نے مسلم دنیا کو یاد دلایا کہ اگر کوئی ملک واقعی اسلامی دنیا کے دفاع کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے تو بلا شبہ وہ پاکستان ہے۔
یہ معاہدہ امتِ مسلمہ کو ایک نئی اُمید دیتا ہے کہ اگر اسرائیل یا اس کے اتحادی کسی بھی ملک پر جارحیت کریں تو پاکستان اور سعودی عرب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
یہ محض دوطرفہ دفاعی تعاون نہیں بلکہ اسلامی عسکری اتحاد کی جانب ایک نمایاں قدم ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی بڑھتی ہوئی عالمی مقبولیت
وزیر اعظم شہباز شریف کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔ حالیہ مہینوں میں انہوں نے سعودی ولی عہد کے علاوہ ترک صدر رجب طیب اردوان، چینی صدر شی جن پنگ اور دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ بھی خوشگوار ماحول میں اور گھل مل کر ان سب سے ملاقاتیں کی ہیں۔
ان سے ملاقات کرنے والے تمام ہی رہنما وزیر اعظم شہباز شریف سے لازمی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔
شہباز شریف کی عملی قیادت، فوری فیصلے کرنے کی صلاحیت اور عوامی خدمت کا جذبہ انہیں ایک ’ڈوئر لیڈر‘ (Doer Leader) کے طور پر پیش کرتا ہے۔
سعودی ولی عہد کے ساتھ فقیدالمثال ملاقات اور پروٹوکول نے عالمی سطح پر بھی پاکستان کی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔
عوامی تعلقات میں نئی پیش رفت
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات صرف حکومتی سطح تک محدود نہیں، بلکہ عوامی سطح پر بھی ان کے اثرات واضح ہیں۔
اس معاہدے میں پاکستان کے لیے دوسرے کیا فوائد پنہاں ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی محنت کشوں کے لیے مزید سہولتیں متوقع ہیں۔
سعودی سرمایہ کاری کے بڑے منصوبے پاکستان میں آئیں گے، جس سے معاشی ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے۔
دونوں ممالک کے تعلیمی اور ثقافتی تعلقات میں اضافہ ہو گا۔ یہ عوامی تعاون ظاہر کرتا ہے کہ یہ تعلق صرف سیاسی یا عسکری نہیں بلکہ دلوں اور معیشت کا رشتہ بھی ہے۔
خطے پر اثرات
ایران
پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ اتحاد تہران کے لیے اہم اشارہ ہے۔ ایران جانتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ سعودی دفاعی شراکت داری خطے میں توازن پیدا کرتی ہے اور یہ ایران کے خلاف محاذ نہیں بلکہ استحکام کی علامت ہے۔
اسرائیل
یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے سب سے بڑا پیغام ہے کہ مسلم دنیا اب منتشر نہیں بلکہ اتحاد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کسی بھی جارحیت کا مطلب ہو گا پورے اتحاد کے خلاف کھڑا ہونا۔
انڈیا
انڈیا کے لیے یہ معاہدہ ایک سٹریٹجک جھٹکا ہے کیونکہ پاکستان کو سعودی عرب کی عسکری پشت پناہی حاصل ہو چکی ہے۔ اب پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کو خطے کے مفادات کے خلاف سمجھا جائے گا۔
امتِ مسلمہ میں پاکستان کا بڑھتا ہوا مقام
یہ معاہدہ پاکستان کی مسلم دنیا میں کلیدی حیثیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، فوج کی مہارت اور جرات مندانہ موقف مسلم دنیا میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر کو واضح کرتے ہیں۔
یہ معاہدہ امتِ مسلمہ میں اعتماد، اتحاد اور مشترکہ دفاع کی نئی امید دیتا ہے۔
مستقبل کا منظرنامہ اور تاریخی موڑ
معاہدے کے اثرات صرف دفاع تک محدود نہیں: معاشی تعاون اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع۔ دفاعی صنعت اور ٹیکنالوجی میں شراکت۔ سفارت کاری میں مؤثر کردار۔
عالمی سطح پر پاکستان کی بڑھتی ہوئی پوزیشن
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایس ایم ڈی اے محض ایک معاہدہ نہیں بلکہ تاریخ کا ایک نیا باب ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ
دونوں ممالک اب ایک دوسرے کے حقیقی عسکری شراکت دار ہیں۔
امتِ مسلمہ میں اتحاد کی نئی امید جنم لے چکی ہے۔
عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت پاکستان کو ایک نئی شناخت دے رہی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔