پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدے کے خطے پر اثرات

یہ معاہدہ دونوں ملکوں کی دیرینہ دوستی اور سلامتی سے متعلق مشترکہ خدشات کو اجاگر کرتا ہے۔

 

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف 15 ستمبر 2025 کو دوحہ میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ اجلاس کے موقعے پر ملاقات کر رہے ہیں (سعودی پریس ایجنسی / اے ایف پی)

دو بڑے مسلمان ملکوں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سٹریٹیجک باہمی دفاعی معاہدے کی شکل میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کی دیرینہ دوستی اور سلامتی سے متعلق مشترکہ خدشات کو اجاگر کرتا ہے۔

اس معاہدے کو بدھ کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے حتمی شکل دی۔ اس معاہدے سے ایک ایسا فریم ورک قائم ہوتا ہے جس کے تحت جامع دفاعی تعاون اور یہ باہمی عہد شامل ہے کہ کسی ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں پر حملہ تصور ہوگی۔

حکام اور ماہرین نے اس اعلان کو ایک تاریخی معاہدہ قرار دیا، نہ صرف اس لیے کہ یہ دوطرفہ سلامتی کا باضابطہ عہد ہے بلکہ اس کے وسیع تر اثرات مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں استحکام پر بھی پڑیں گے۔

نئے معاہدے کا مقصد کئی سطحوں پر عسکری تعاون کو وسعت دینا ہے۔ معاہدے کے اہم نکات میں مشترکہ فوجی مشقیں شامل ہیں تاکہ عملی تیاری اور باہمی ہم آہنگی میں بہتری آئے۔ خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا جائے تاکہ ابھرتے ہوئے خطرات، خاص طور پر دہشت گردی اور سرحد پار بغاوتوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ اس میں دفاعی صنعت میں تعاون، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور فوجی سازوسامان کی مشترکہ تیاری کے مواقعے، نیز استعداد بڑھانے اور تربیت کے منصوبے بھی شامل ہیں، جو پاکستانی فوجی اہلکاروں کی سعودی افواج کے ساتھ کام کرنے کی پرانی روایت پر استوار ہیں۔

تعاون کے ان شعبوں کو باضابطہ شکل دے کر یہ معاہدہ کئی دہائیوں کی غیررسمی حمایت کو ایک منظم اتحاد میں بدل رہا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان سعودی عرب تعلقات کو  نمایاں سطح پر لے جاتا ہے جس سے یہ دنیا کے دیگر خطوں میں موجود سٹریٹیجک دفاعی شراکت داریوں کے قریب تر ہو جاتے ہیں۔

اس معاہدے کا وقت بدلتی ہوئی پیچیدہ سکیورٹی صورت حال کو ظاہر کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ بدستور علاقائی رقابتوں اور بدلتے اتحادوں کا مرکز ہے جبکہ جنوبی ایشیا، انڈیا پاکستان کشیدگی اور افغان تنازعے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔

سعودی عرب کے لیے یہ معاہدہ اس کے اس عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اپنی سٹریٹیجک شراکت داریوں میں تنوع لائے۔ اگرچہ تاریخی طور پر وہ مغربی طاقتوں سے منسلک رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ریاض نے اپنی سکیورٹی پالیسی وضع کرنے میں زیادہ خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان، جس کی بڑی فوج، ایٹمی صلاحیتیں اور جغرافیائی اہمیت ہے، ایک قدرتی شراکت دار کے طور پر سامنے آتا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایسے وقت میں اطمینان کا باعث ہے جب وہ معاشی اور سفارتی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ دنیا کی سب سے دولت مند اور بااثر ریاستوں میں سے ایک کے ساتھ یہ معاہدہ اسلام آباد کی بین الاقوامی حیثیت کو مضبوط کرتا ہے اور دفاعی جدیدیت میں سرمایہ کاری کے ممکنہ راستے فراہم کرتا ہے۔

یہ معاہدہ دونوں خطوں میں دفاع کے شعبے میں منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جارحیت کی صورت میں مشترکہ ردعمل کے عہد کے تحت سعودی عرب اور پاکستان ایک واضح پیغام دے رہے ہیں۔ یہ معاہدہ کسی بھی دشمن کے ممکنہ جارحانہ اقدامات کے امکان کو کم کر سکتا ہے، کیوں کہ یہ سمجھا جائے گا کہ اس کا جواب دو طاقتور ممالک کی مشترکہ کارروائی کی صورت میں آ سکتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر یہ معاہدہ سعودی عرب کے اس بڑھتے ہوئے کردار کو اجاگر کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے شراکت داروں کی سلامتی کا ضامن ہے۔ پاکستان کے لیے یہ معاہدہ اس کی حیثیت کو مزید مستحکم کرتا ہے کہ وہ ایک اہم مسلم اکثریتی ملک ہے جس میں عالمی اور علاقائی سکیورٹی میں حصہ ڈالنے کی صلاحیت ہے۔

ماہرین نے نشاندہی کی کہ یہ معاہدہ وسیع تر اتحادوں پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں یہ انڈیا کو پاکستان سے معاملات کرتے وقت زیادہ محتاط بنا سکتا ہے۔ خلیج میں یہ ایران اور دیگر علاقائی کرداروں کے سٹریٹیجک تخمینوں پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

عالمی سطح پر امریکہ، چین اور روس اس شراکت داری کی پیش رفت کو قریب سے دیکھیں گے، کیوں کہ ان کے دونوں خطوں میں گہرے مفادات ہیں۔

سعودی پاکستان تعلقات کوئی نئی بات نہیں۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے ریاض نے اسلام آباد کو مسلسل معاشی مدد فراہم کی جب کہ پاکستانی فوجی اہلکار طویل عرصے سے سعودی دفاعی منصوبوں میں شامل رہے ہیں۔ یہ تعلق ثقافتی اور مذہبی رشتوں سے بھی پروان چڑھا کیوں کہ لاکھوں پاکستانی تارکین وطن سعودی عرب میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ معاہدہ معیاری تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ جہاں ماضی میں تعاون اکثر وقتی یا کسی خاص مسئلے پر ہوتا تھا، وہاں نیا معاہدہ تعلقات کو ادارہ جاتی شکل دیتا ہے اور دفاع کو دو طرفہ روابط کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کرتا ہے۔

سعودی عرب کی وژن 2030 اصلاحات اور پاکستان کی دفاعی صنعت میں بڑھتی مہارت کے پیش نظر، ابھرتے ہوئے سکیورٹی شعبوں، مثال کے طور پر  سائبر سکیورٹی، ڈرون ٹیکنالوجی اور خلائی دفاعی نظام، میں باہمی طور پر فائدہ مند صنعتی شراکت داری کے امکانات موجود ہیں۔

تاہم امید کے ساتھ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ پاکستان کی معاشی مشکلات اس کی صلاحیت کو محدود کر سکتی ہیں کہ وہ اپنے دفاعی وعدوں میں بڑی سرمایہ کاری کرے، جب کہ سعودی عرب کو اس اتحاد کو دیگر علاقائی فریقوں کے ساتھ مکالمے کی کوششوں کے ساتھ احتیاط سے متوازن رکھنا ہوگا۔

مزید یہ کہ اس معاہدے پر بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے نظرثانی کے تقاضے یا بےچینی کا اظہار بھی کیا سکتا ہے۔ امریکہ، جو دونوں ممالک کا طویل عرصے سے شراکت دار رہا ہے، اس معاہدے کو اپنی بدلتی ہوئی علاقائی پالیسیوں کے تناظر میں دیکھ سکتا ہے۔ اسی دوران چین، جو پہلے ہی پاکستان کا قریبی اتحادی اور سعودی عرب کا بڑھتا ہوا شراکت دار ہے، اسے سہ فریقی تعاون کے مواقع کے طور پر دیکھ سکتا ہے۔

لہٰذا اس معاہدے کی کامیابی نہ صرف سعودی پاکستان تعلقات کی مضبوطی پر بلکہ دونوں ممالک کی اس سفارتی مہارت پر بھی منحصر ہوگی کہ وہ بیرونی دباؤ کو کس طرح سنبھالتے ہیں۔

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان سٹریٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ دوطرفہ تعلقات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کئی دہائیوں کی دوستی، معاشی تعاون اور ثقافتی رشتوں کو ایک باضابطہ سکیورٹی اتحاد میں ڈھالتا ہے جس کے دور رس اثرات ہوں گے۔

ایک دوسرے کا دفاع کرنے کے عہد کے ذریعے ریاض اور اسلام آباد نے سٹریٹیجک تعاون کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ دی ہے — ایسا دور جو محض دفاع تک محدود نہیں بلکہ سیاسی، معاشی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں تک بھی پھیلا ہوا ہے۔

مؤثر انداز میں عملی شکل دیے جانے کی صورت میں یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے سکیورٹی منظرنامے کو ازسرنو تشکیل دے سکتا ہے۔ دونوں ممالک کو زیادہ استحکام فراہم کر سکتا ہے اور علاقائی طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے۔

 سب سے بڑھ کر یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بدلتے اتحادوں کی دنیا میں سعودی عرب اور پاکستان بدستور مضبوط شراکت دار ہیں، جو اعتماد، مشترکہ مفادات اور ایک محفوظ تر مستقبل کے اجتماعی تصور سے بندھے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر جمال الحربی بین الاقوامی امور کے لکھاری اور اسلام آباد میں سعودی سفارتخانے میں میڈیا اتاشی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر