اگر یہ کہا جائے کہ سعودی عرب کی پاکستان کے ساتھ قربت کی ابتدا قیام پاکستان سے قبل شروع ہوئی تو غلط نہیں ہو گا۔
1940 میں قرارداد لاہور کی منظوری کے فوراً بعد اپریل میں اُس وقت کے ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز السعود نے کراچی کا دورہ کیا تھا، جن کا استقبال مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والی ایم اے ایچ اصفہانی اور کریم بھائی ابراہیم جیسی شخصیات نے گرم جوشی سے کیا تھا۔
اس وفد میں ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز کے پانچ بھائی بھی شامل تھے، جن میں سے دو شہزادہ فیصل اور شہزادہ فہد آگے چل کر سعودی عرب کے فرمانروا بھی بنے۔
1943 میں مسلم اکثریت رکھنے والی ریاست بنگال شدید قحط سے دوچار ہوئی، اس وقت مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح نے ریلیف کیمپ لگایا تو شاہ عبدالعزیز السعود وہ پہلی غیرملکی شخصیت تھے، جنہوں نے اس سلسلے میں 10 ہزار پاؤنڈ کا عطیہ دیا۔
پاکستان سعودی عرب کو کتنی اہمیت دیتا ہے اس کا اندازہ قیام پاکستان کے دو ماہ بعد نومبر میں محمد علی جناح کی جانب سے اپنے خصوصی ایلچی ملک فیروز خان نون کو سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھجوائے جانے سے ظاہر ہوتی ہے۔ شاہ عبدالعزیز نے ان کا ذاتی طور پر استقبال کیا اور کراچی واپسی کے لیے اپنا شاہی طیارہ بھی پیش کیا۔
شاہ عبدالعزیز کے جانشینیوں نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ 1954 میں کراچی میں سعودی عرب کے تعاون سے انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والوں کے لیے بنائی گئی کالونی سعود آباد کے افتتاح کے لیے روانہ ہونے سے قبل شاہ سعود نے پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کو ایک خط لکھا۔
اس خط میں ان کا کہنا تھا:
’ہمیں پاکستان کے مضبوط ہونے پر خوشی ہو گی، پاکستان کی طاقت ہماری طاقت ہے اور اگر یہودیوں نے مقدس سرزمین پر حملہ کیا تو اس وقت پاکستان اس کا بچاؤ کرنے والوں میں سب سے آگے ہو گا جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے۔‘
1960 کے عشرے میں شاہ فیصل کی قیادت میں فوجی تعاون کے حوالے سے مضبوط بنیادیں رکھی گئیں۔ 1970 کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور فوجی تعاون کے لیے مزید اقدامات ہوئے۔ سعودی عرب نے 1971 کی جنگ میں پاکستان سفارتی اور فوجی لحاظ سے مدد کی۔
مشرقی پاکستان کھونے کے بعد 1974 میں لاہور میں او آئی سی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس عشرے کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کی ایک ارب ڈالر کے قریب مدد کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1980 کی دہائی میں سعودی عرب اور پاکستان نے افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا۔
اپنی یادداشت ’دی افغانستان فائل‘ میں شہزادہ ترکی الفیصل نے 1989 میں سوویت یونین کی شکست کے حوالے سے سعودی عرب اور پاکستان کی باہمی انٹیلی جنس کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
ترکی الفیصل اس دوران اکثر پاکستان کا دورہ کرتے تھے تاکہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ہیڈکوارٹرز میں بریفنگز لیں اور جنگ کی کوششوں میں مصروف مختلف پاکستانی اور امریکی حکام سے ملاقات کرتے تھے۔
ایک دوسرے کے دفاع کی بات پہلے بھی ہو چکی ہے۔ دسمبر 1980 میں ولی عہد شہزادہ فہد نے اس بات کے اعلان کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا کہ ’پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت یا حملہ تصور کیا جائے گا۔‘
مئی 1998 میں جب پاکستان انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے کرنے پر مجبور ہوا تو اس وقت بھی سعودی عرب پاکستان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوا۔
سعودی عرب نے اقتصادی پابندیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی ہنگامی طور پر مالی مدد کی اور پاکستان کو موخر ادائیگیوں پر تیل فراہم کیا۔
جب 2005 میں جموں اور کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا، تب بھی سعودی عرب وہ پہلا ملک تھا جس نے متاثرین کو مدد کی فراہمی کے لیے فضائی راہداری کے علاوہ دو جدید ترین فیلڈ ہسپتال بھی قائم کیے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا باضابطہ آغاز 1967 میں دفاعی معاہدے پر دستخط سے ہوا تھا۔ اس معاہدے کا دائرہ کار سعودی عرب میں پاکستانی فوجی مشیروں اور ٹرینرز کی تعیناتی اور سعودی عرب کے فوجی افسران کو پاکستان کی فوجی اکیڈمیوں میں تربیت کے مواقع فراہم کیے جانے پر مشتمل تھا۔
اسی طرح 1982 میں ہونے والے ایک دفاعی معاہدے نے باہمی تعاون کے اس سلسلے کو مزید وسعت دی جس میں دفاعی مقاصد اور تربیت کے لیے سعودی عرب میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی اور دفاعی پیداوار کے علاوہ مشترکہ مشقوں کے نکات بھی شامل تھے۔
فوجی تعاون کا یہ سلسلہ گذشتہ کئی برسوں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح تک پھیل گیا اور پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف سرگرم 42 مسلمان ممالک پر مشتمل اتحاد کے کمانڈر کے طور پر 2017 سے خدمات سرانجام دیں۔
سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کو گذشتہ برس یوم پاکستان کے موقعے پر ہونے والی فوجی پریڈ کی تقریب میں مہمان خصوصی بنایا گیا۔ انہیں اس دن پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز ’نشان پاکستان‘ بھی دیا گیا۔
خطے میں بدلتی سیاسی صورتِ حال جیسے کہ افغانستان کی صورت حال، ایران-سعودی تعلقات کی تبدیلیاں اور خلیجی امور کے پیشِ نظر باہمی مشاورت بڑھی۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی تعاون ایک طویل اور باہمی مفاد پر مبنی رشتہ ہے، جس نے خطے کی مختلف سیاسی اور سکیورٹی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھالا ہے۔ یہ تعاون مستقبل میں بھی جاری رہنے کے قوی امکانات ہیں، جس کی جانب اشارہ سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے اپنی ٹویٹ میں دیا۔ ان کا کہنا تھا: ’سعودیہ اور پاکستان۔۔ جارح کے مقابل ایک ہی صف میں۔۔ ہمیشہ اور ابد تک۔‘
سعودیہ اور پاکستان۔۔
— Khalid bin Salman خالد بن سلمان (@kbsalsaud) September 17, 2025
جارح کے مقابل ایک ہی صف میں۔۔
ہمیشہ اور ابد تک۔ https://t.co/3oBMFEU1G5