ماحول دوست آتش بازی دہلی کو فضائی آلودگی سے بچا پائے گی؟

نام نہاد گرین پٹاخے تجرباتی مرحلے میں روایتی پٹاخوں کے مقابلے میں کم دھواں خارج کر سکتے ہیں لیکن ماہرین حقیقی دنیا پر ان کے اثرات میں فرق کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

آتش بازی کی تیاری کے لیے مشہور انڈین ریاست تمل ناڈو کے شہر سیواکاسی میں 14 اکتوبر 2019 کو دیوالی کے تہوار سے قبل ’گرین آتش بازی‘ معیارات کے مطابق آتش بازی کا سامان تیار کیا جا رہا ہے (ارون شنکر/ اے ایف پی)

انڈین سپریم کورٹ نے اگلے ہفتے دیوالی کے تہوار کے موقعے پر دو دن کے لیے ’ماحول دوست آتش بازی‘ کے محدود استعمال کی اجازت دے دی ہے، حالاں کہ دارالحکومت نئی دہلی میں فضائی آلودگی خطرناک سطح پر پہنچنے کے قریب ہے۔

دیوالی کا تہوار برائی پر بھلائی اور اندھیرے پر روشنی کی فتح کی علامت ہے، جس کے دوران ہندو دیے جلا کر اور آتش بازی کر کے جشن مناتے ہیں، جب کہ نئی دہلی جیسے بڑے شہروں میں ایک ہی رات میں کئی لاکھ کلوگرام آتش بازی کی جاتی ہے، جس سے شہر کا آسمان دھوئیں سے بھر جاتا ہے۔

شمالی انڈیا میں یہ تہوار اس وقت آتا ہے جب موسم سرما میں سموگ پھیلنا شروع ہو جاتی ہے اور ہوا بند ہونے سے آتش بازی، ٹریفک اور فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں فضا میں قید ہو کر جاتا ہے۔

دہلی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی وہاں کے رہائشیوں کی اوسط زندگی میں عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مقابلے میں 11.9 سال کی کمی کر رہی ہے۔

عدالتی فیصلے نے اس بحث کو پھر سے جنم دیا ہے کہ کیا بظاہر صاف کہلانے والی یہ نئی آتش بازی واقعی اس روایتی آتش بازی سے مختلف ہے، جو ہر سال دارالحکومت کے آسمان کو دھندلا کر دیتی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے کو ’عارضی اقدام‘ اور توازن برقرار رکھنے کی کوشش قرار دیا۔ چیف جسٹس بی آر گاوئی کی سربراہی میں بینچ نے کہا کہ ’ہم سے درخواست کی گئی ہے کہ ہم صنعت کے مفادات اور عوام کی صحت، خصوصاً معمر افراد، مریضوں اور بچوں کے درمیان توازن قائم کریں۔‘

عدالت نے کہا کہ سات سال پہلے لگائی گئی مکمل پابندی غیر مؤثر ثابت ہوئی ہے کیوں کہ غیر قانونی آتش بازی کا سامان اب بھی دارالحکومت میں سمگل ہو کر آتا رہتا ہے۔

نئے فیصلے کے مطابق قومی دارالحکومت کے علاقے سے باہر سے لائی گئی آتش بازی کی فروخت پر پابندی ہوگی اور اس کے استعمال کو دو مختصر اوقات تک محدود کیا گیا ہے۔ دیوالی سے ایک دن پہلے اور دیوالی کے دن، صبح چھ سے سات بجے تک اور رات آٹھ سے 10 بجے تک۔

’گرین آتش بازی‘ کیا ہے؟

ایسی نام نہاد ’گرین آتش بازی‘ روایتی آتش بازی کے مقابلے میں کم دھواں خارج کرنے والے متبادل کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اسے کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) اور نیشنل انوائرنمنٹل انجینیئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (این ای ای آر آئی) نے 2018 میں سپریم کورٹ کی جانب سے روایتی آتش بازی پر پابندی کے بعد تیار کیا۔

کارخانے داروں کا دعویٰ ہے کہ ان نئی تراکیب سے 30 سے 40 فیصد کم ذراتی مادہ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتے ہیں اور شور کی سطح 120 ڈیسی بیل سے نیچے رہتی ہے۔ صرف وہی آتش بازی فروخت کی جا سکتی ہے، جن پر این ای ای آر آئی کا جاری کردہ کیو آر کوڈ موجود ہو۔

یہ کتنی ’گرین‘ ہے؟

اگرچہ تجربہ گاہوں میں گرین آتش بازی کم دھواں خارج کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کو ان کے حقیقی اثرات پر شبہ ہے۔ انڈیا کے ہسپتال دیوالی کے دوران اور اس کے بعد سانس لینے میں دشواری، سانس لیتے وقت سیٹی جیسی آواز کا آنا اور سینے کے درد کے مریضوں میں اضافے کے بارے میں بتاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنوبی شہر حیدرآباد میں سینے کے امراض کے سینیئر ماہر ڈاکٹر سید عبدالعلیم نے ’دا بزنس سٹینڈرڈ‘ کو بتایا کہ یہ آتش بازی ’اب بھی باریک اور نہایت باریک ذرات جیسے پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 خارج کرتی ہیں، جو پھیپھڑوں میں گہرائی تک جا کر خون میں شامل ہو سکتے ہیں۔‘

دہلی ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی روڑکی کی مشترکہ تحقیق سے پتہ چلا کہ گرین آتش بازی بھی 100 نینو میٹر سے چھوٹے ذرات کی بڑی مقدار خارج کرتی ہے، جو پھیپھڑوں کے سب سے نچلے حصوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

توانائی و صاف ہوا کے مرکز برائے تحقیق کے ڈاکٹر منوج کمار نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’گرین پٹاخوں پر ابھی خاطر خواہ تحقیق نہیں ہوئی، اور صارف کے لیے کوئی طریقہ نہیں کہ وہ جان سکے کہ پٹاخہ واقعی ’گرین‘ ہے یا نہیں؟‘

این ای ای آر آئی کے سائنس دانوں نے کہا کہ پٹاخے تیار کرنے کی تراکیب بہتر ہو رہی ہیں۔

سی ایس آئی آر- این ای ای آر آئی کے چیف سائنس دان ڈاکٹر آر جے کرپادم نے اسی اخبار کو بتایا کہ ’ہم نے ایسے فارمولے تیار کیے ہیں جو 60 فیصد تک اخراج کم کر سکتے ہیں، لیکن تحقیق میں اب بھی خلا موجود ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ بیریم، لیتھیم، سیسہ اور پارے جیسی زہریلے دھاتوں کا استعمال تمام منظور شدہ مصنوعات میں بدستور ممنوع ہے۔

ماحولیاتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے صحت کے خدشات کو نظرانداز کیا۔ صاف ہوا کے لیے کام کرنے والی تنظیم وارئیر مومز کی بانی بھاورین قندھاری نے کہا کہ یہ فیصلہ ’سائنس، طب اور سابقہ عدالتی فیصلوں کے ان نکات کو نظرانداز کرتا ہے جو پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ اس میں کچھ بھی گرین نہیں۔‘

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’قانونی طور پر یہ آئین کے آرٹیکل 21 سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے، جو ہر شہری کو زندگی اور صاف ہوا کا حق دیتا ہے۔ طبی لحاظ سے یہ بچوں، معمر افراد اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے، کیوں کہ اس آلودگی کا مختصر سا سامنا بھی دمے کے دورے، ہسپتال کے چکر اور دیرپا نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

’آپ دن کے وقت کے لیے صاف ہوا کے قوانین نہیں بنا سکتے اور رات کو زہر پھیلانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘

دہلی کا سالانہ دیوالی چیلنج

’گرین‘ آتش بازی کی بحث سے ہٹ کر، دہلی کو ہر سال ایک اور پرانی مشکل کا سامنا رہتا ہے یعنی قانون پر عمل درآمد۔

دہلی میں 2020 سے آتش بازی پر پابندی عائد ہے لیکن شہری بدستور اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور پٹاخے خریدنے کے لیے دستیاب رہتے ہیں۔

اگرچہ توقع کی جاتی ہے کہ گرین آتش بازی کیو آر کوڈ اور سرٹیفکیشن کے ساتھ فروخت ہوں گی، مگر جعلی اور غلط لیبل لگے پٹاخے اب بھی بازار میں بڑی تعداد میں دستیاب ہیں۔

دہلی پولیوشن کنٹرول کمیٹی کے سابق عہدےدار موہن جارج نے ’دا انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ ’2018 میں جب گرین پٹاخوں کا تجرباتی طور پر استعمال کیا گیا تو وہ ناکام ثابت ہوئے۔ کیو آر کوڈ اور سٹیکرز کوئی مدد نہیں کر سکے۔ پولیس کے لیے گرین اور عام پٹاخوں میں فرق کرنا بہت مشکل ہے۔‘

ہر سال دہلی میں دیوالی کی تقریبات اس وقت منعقد ہوتی ہیں جب سردیوں میں سموگ کا موسم شروع ہوتا ہے اور پڑوسی ریاستوں میں فصلوں کی باقیات جلانے اور ٹھنڈی ہوا کے باعث آلودگی زمین کی سطح کے قریب قید ہو کر رہ جاتی ہے۔

2023 میں شہر کے بعض علاقوں میں فضائی آلودگی کا انڈیکس 640 تک پہنچ گیا تھا، جو عالمی ادارہ صحت کی مقرر کردہ محفوظ حد سے 10 گنا زیادہ تھا۔ اس سال ماہرین موسمیات کو امید ہے کہ سازگار ہوائیں شدید سموگ کو کچھ دیر کے لیے مؤخر کر دیں گی، لیکن شہر کی فضا اب بھی دنیا کی سب سے زیادہ آلودہ فضاؤں میں شمار ہوتی ہے۔

فضائی آلودگی پہلے ہی بڑھ چکی ہے

سپریم کورٹ کا ’گرین‘ آتش بازی کی اجازت دینے کا فیصلہ اس وقت آیا جب شہر میں فضائی آلودگی کا انڈیکس 200 سے تجاوز کر گیا تھا اور آلودگی کے انتظامی ادارے نے نئی پابندیاں نافذ کیں۔

دہلی کی آلودگی کنٹرول اتھارٹی نے ہفتے کے وسط میں فضائی معیار بگڑنے کے بعد تعمیراتی سرگرمیوں اور گاڑیوں کے استعمال پر نئی پابندیاں لگائیں۔ شہری حکومت عارضی ریلیف کے طور پر مصنوعی بارش برسانے کی تیاری بھی کر رہی ہے، جس کا تجربہ وہ مدت سے کرنا چاہتی تھی۔

دہلی کی وزیر ماحولیات ریکھا گپتا نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’متوازن اقدام‘ قرار دیا جو ’عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ماحول کا تحفظ بھی کرتا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ تہواروں کی روشنی برقرار رہے اور ماحول بھی محفوظ رہے۔‘

سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ قومی دارالحکومت کے علاقے میں 14 سے 25 اکتوبر کے دوران فضا، پانی اور مٹی کے معیار کی نگرانی کی جائے اور اگلی سماعت سے پہلے رپورٹ جمع کروائی جائے۔

جون میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں 40 سال کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا، جس سے پتہ چلا کہ گذشتہ چار دہائیوں میں فضائی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں 13 کروڑ 50 لاکھ قبل از وقت اموات ہوئیں۔

اسی عرصے میں ایشیا میں پی ایم 2.5 آلودگی سے منسلک اموات کی سب سے زیادہ تعداد، یعنی نو کروڑ 80 لاکھ سے زائد، ریکارڈ کی گئی۔ یہ اموات زیادہ تر انڈیا اور چین میں ہوئیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات