چیٹ جی پی ٹی سے گفتگو آپ کے خلاف کیسے استعمال کی جا سکتی ہے؟

مصنوعی ذہانت کے ماڈلز جیسے چیٹ جی پی ٹی کی وسعت کا مطلب ہے کہ لوگ اسے ہر چیز کے لیے استعمال کرتے ہیں، نجی خاندانی تصاویر ایڈٹ کرنے سے لے کر بینک کے قرضے یا کرایہ نامے جیسی پیچیدہ دستاویزات سمجھنے تک، جن سب میں انتہائی ذاتی معلومات شامل ہوتی ہیں۔

20 فروری 2025 کو لی گئی اس تصویر میں جنوبی لندن کے علاقے گلفرڈ میں ایک فون اور لیپ ٹاپ کی سکرینوں پر چیٹ جی پی ٹی کی ایپ اور ویب سائٹ دکھائی دے رہی ہیں۔ (جسٹن ٹالس / اے ایف پی)

28 اگست کی صبح امریکی ریاست میسوری کے ایک کالج کیمپس کے پارکنگ ایریا میں پرامن فضا اچانک پرتشدد توڑ پھوڑ کے واقعے میں بدل گئی۔ صرف 45 منٹ کے اندر 17 گاڑیوں کے شیشے چکنا چور کر دیے گئے، وائپرز اکھاڑ لیے گئے اور گاڑیوں کی باڈی پر ڈینٹ ڈال دیے گئے، جس سے ہزاروں ڈالر کا نقصان ہوا۔

ایک ماہ کی طویل تفتیش کے بعد پولیس نے کئی شواہد اکٹھے کیے جن میں جوتوں کے نشانات، گواہوں کے بیانات اور سکیورٹی کیمروں کی فوٹیج شامل تھی، لیکن آخرکار ایک 19 سالہ طالب علم رائن شیفر کے خلاف اس وقت مقدمہ قائم کیا گیا، جب اس نے مبینہ طور پر چیٹ جی پی ٹی پر خود اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔

واقعے کے کچھ ہی دیر بعد رائن شیفر نے اپنے فون پر چیٹ جی پی ٹی سے گفتگو میں اس تباہی کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا: ’یار، میں کتنی مشکل میں ہوں؟ فرض کرو میں نے کئی گاڑیاں چکنا چور کر دی ہوں؟‘

یہ بظاہر پہلا ایسا مقدمہ ہے جس میں کسی شخص نے مصنوعی ذہانت سے بات کرتے ہوئے خود کو مجرم ثابت کیا اور پولیس نے اپنی رپورٹ میں اس ’پریشان کن بات چیت‘ کا حوالہ دیتے ہوئے رائن شیفر کے خلاف الزامات درج کیے۔

ایک ہفتے سے بھی کم عرصے بعد چیٹ جی پی ٹی کا ذکر ایک اور مقدمے میں آیا۔ لیکن اس بار یہ ایک بڑے جرم کے بارے میں تھا، جب 29 سالہ جوناتھن رنڈرکنکٹ کو گرفتار کیا گیا، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے کیلفورنیا کے علاقے پالی سیڈز (Palisades) میں رواں برس جنوری میں آگ لگائی، جس سے ہزاروں گھر اور کاروبار تباہ  ہوگئے اور 12 افراد کی جان چلی گئی۔

پولیس کے مطابق جوناتھن نے آگ لگانے سے پہلے مصنوعی ذہانت کی ایپ سے جلتے ہوئے شہر کی تصاویر بنانے کی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ دونوں مقدمات شاید آخری نہیں ہوں گے، جن میں مصنوعی ذہانت مجرموں کے خلاف شواہد فراہم کرے گی۔ اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹمین کے مطابق، چیٹ جی پی ٹی پر ہونے والی گفتگو کے لیے کوئی قانونی تحفظ موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف اس نئی ٹیکنالوجی کے لیے رازداری کے خدشات کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہ لوگ اس کے ساتھ کتنی ذاتی باتیں شیئر کرتے ہیں۔

انہوں نے رواں سال کے اوائل میں ایک پوڈکاسٹ میں کہا: ’لوگ اپنی زندگی کی سب سے ذاتی باتیں چیٹ جی پی ٹی سے شیئر کرتے ہیں۔

’لوگ خاص طور پر نوجوان اسے ایک تھراپسٹ یا لائف کوچ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جب وہ تعلقات کے مسائل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اور فی الحال، اگر آپ انہی مسائل پر کسی تھراپسٹ، وکیل یا ڈاکٹر سے بات کریں تو اس کے لیے قانونی تحفظ موجود ہوتا ہے۔‘

مصنوعی ذہانت کے ماڈلز جیسے چیٹ جی پی ٹی کی وسعت کا مطلب ہے کہ لوگ اسے ہر چیز کے لیے استعمال کرتے ہیں، نجی خاندانی تصاویر ایڈٹ کرنے سے لے کر بینک کے قرضے یا کرایہ نامے جیسی پیچیدہ دستاویزات سمجھنے تک، جن سب میں انتہائی ذاتی معلومات شامل ہوتی ہیں۔

اوپن اے آئی کی ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا کہ لوگ چیٹ جی پی ٹی سے تیزی سے طبی مشورے، خریداری اور یہاں تک کہ کردار ادا کرنے کے لیے بھی رجوع کر رہے ہیں۔

کچھ دیگر اے آئی ایپس تو خود کو ورچوئل تھراپسٹ یا رومینٹک پارٹنر کے طور پر پیش کر رہی ہیں، لیکن ان کے پاس وہ حفاظتی اصول نہیں ہیں جو معروف کمپنیوں میں ہوتے ہیں۔ اسی دوران، ڈارک ویب پر غیر قانونی سروسز دستیاب ہیں جہاں لوگ اے آئی کو نہ صرف رازدار بلکہ شریکِ جرم کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

ڈیٹا کا یہ حجم حیران کن ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی اور ان مجرموں کے لیے بھی جو اسے بلیک میلنگ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب پرپلیکسیٹی (Perplexity) نے رواں سال ایک اے آئی سے چلنے والا ویب براؤزر لانچ کیا تو سکیورٹی ماہرین نے دریافت کیا کہ ہیکرز اسے استعمال کر کے صارفین کا ذاتی ڈیٹا چرا سکتے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے والی کمپنیاں اب اس انتہائی ذاتی نوعیت کے نئے ڈیٹا ذخیرے سے فائدہ اٹھانے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔ دسمبر سے میٹا فیس بک، انسٹاگرام اور تھریڈز پر اپنے اے آئی ٹولز کے ساتھ صارفین کی گفتگو کو استعمال کرتے ہوئے ہدفی اشتہارات دکھانا شروع کرے گی۔

اے آئی کے ساتھ ہونے والی آواز اور تحریری گفتگو کو سکین کیا جائے گا تاکہ صارف کی ذاتی ترجیحات اور ممکنہ خریداری کے رجحانات کے بارے میں زیادہ جانا جا سکے اور اس عمل سے بچنے یا اسے بند کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔

میٹا نے اس اپ ڈیٹ کے اعلان کے لیے جاری کردہ ایک بلاگ پوسٹ میں کہا: ’مثال کے طور پر، اگر آپ میٹا اے آئی سے ہائیکنگ کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو ہائیکنگ میں دلچسپی ہے۔ نتیجتاً، آپ کو ہائیکنگ گروپس کی سفارشات، دوستوں کی جانب سے ٹریلز کے بارے میں پوسٹس یا ہائیکنگ بوٹس کے اشتہارات نظر آنا شروع ہو سکتے ہیں۔‘

یہ بات بظاہر بے ضرر لگ سکتی ہے، لیکن سرچ انجنز اور سوشل میڈیا کے ذریعے دکھائے جانے والے ہدفی اشتہارات کی متعدد مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ کس حد تک تباہ کن اثرات ڈال سکتے ہیں۔

ایسے لوگ جو ’پیسے کی مدد چاہیے‘ جیسے الفاظ تلاش کرتے ہیں، انہیں شکاری قرضوں کے اشتہارات دکھائے گئے، اسی طرح آن لائن کیسینو نے جوئے کے عادی افراد کو مفت سپن کی پیشکشوں سے نشانہ بنایا اور عمر رسیدہ صارفین کو اپنے ریٹائرمنٹ کے بچت فنڈز مہنگے سونے کے سکوں پر خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی۔

میٹا کے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ بخوبی جانتے ہیں کہ نئی اے آئی اشتہاری پالیسی کے تحت کتنے بڑے پیمانے پر صارفین کا ذاتی ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔ اپریل میں انہوں نے کہا تھا کہ صارفین میٹا اے آئی کو یہ اجازت دے سکیں گے کہ وہ ان کے بارے میں اور ان کے قریبی لوگوں کے بارے میں ’ہماری ایپس کے ذریعے بہت کچھ جان سکے۔‘

یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے ایک وقت میں فیس بک صارفین کو ان پر اپنا ڈیٹا اعتماد سے دینے پر ’احمق‘ کہا تھا۔

سائبر سکیورٹی کمپنی ’مال ویئر بائٹس‘ (Malwarebytes) کے پیٹر آرنٹز نے میٹا کے اعلان کے فوراً بعد لکھا: ’چاہے آپ کو پسند ہو یا نہ ہو، میٹا دراصل دنیا بھر کے دوستوں کو آپس میں جوڑنے کے بارے میں نہیں ہے۔ اس کا کاروباری ماڈل تقریباً مکمل طور پر اپنے پلیٹ فارمز پر ہدفی اشتہارات بیچنے پر مبنی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ صنعت بڑے اخلاقی اور نجی نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ برانڈز اور اے آئی فراہم کنندگان کو شخصی تجربے (personalisation) اور شفافیت و صارف کے کنٹرول کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا، خاص طور پر جب اے آئی ٹولز حساس رویوں سے متعلق ڈیٹا اکٹھا اور تجزیہ کر رہے ہوں۔‘

جیسے جیسے اے آئی کی افادیت بڑھ رہی ہے، ذاتی رازداری اور سہولت کے درمیان سمجھوتہ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور ہماری ٹیکنالوجی سے وابستگی ایک بار پھر زیرِ غور ہے۔

اسی طرح جیسے کیمبرج اینالیٹیکا سکینڈل نے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خصوصاً فیس بک  کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ یہ نیا ڈیٹا ہارویسٹنگ رجحان اور شیفر اور رنڈرکنیکٹ جیسے واقعات رازداری کو ایک بار پھر ٹیکنالوجی ایجنڈا کے سرفہرست لے آ سکتے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی کے آغاز کے تین سال سے بھی کم عرصے بعد اب ایک ارب سے زائد لوگ خود مختاراے آئی ایپس استعمال کر رہے ہیں۔ یہ صارفین اکثر جانے انجانے میں استحصالی ٹیکنالوجی کمپنیوں، مشتہرین اور یہاں تک کہ جرائم کی تفتیش کرنے والے اداروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار بن رہے ہیں۔

ایک پرانا مقولہ ہے کہ اگر آپ کسی سروس کے لیے ادائیگی نہیں کر رہے تو آپ صارف نہیں بلکہ پروڈکٹ ہیں، لیکن اے آئی کے اس نئے دور میں یہ کہاوت شاید یوں بدلنی پڑے کہ اب ’پروڈکٹ‘ کی جگہ ’شکار‘ کا لفظ رکھ دیا جائے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی