امریکہ بھر میں ہر عمر کے مظاہرین ہفتے کو بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے اور ’نو کنگز‘ ریلیوں میں شرکت کی، جن میں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آمرانہ رویے اور بے لگام بدعنوانی کے خلاف آواز بلند کی۔
مظاہروں کے منتظمین کا کہنا تھا کہ دن کے اختتام تک 2600 سے زائد منصوبہ بند ریلیوں میں کروڑوں افراد کی شرکت متوقع ہے، جو بڑی شہروں، قصبوں اور نواحی علاقوں میں نکالی گئیں۔
ان ریلیوں کا مقصد ٹرمپ کی اس پالیسی کو چیلنج کرنا تھا جس نے جنوری میں ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد غیر معمولی رفتار سے حکومت کی ساخت بدل دی اور جمہوری اصولوں کو تہہ و بالا کر دیا۔
عمومی طور پر یہ مظاہرے پرامن ماحول میں ہوئے جن میں بڑے غبارے اور مختلف لباسوں میں ملبوس شرکا شامل موجود تھے۔
مختلف طبقات پر مشتمل ان مظاہروں میں بچوں کے ساتھ والدین، ریٹائرڈ افراد اور پالتو جانوروں کو ساتھ لیے لوگ موجود تھے۔ ان مظاہروں میں غیر قانونی سرگرمیوں کی بہت کم یا کوئی اطلاع نہیں ملی۔
ٹرمپ سے مایوسی
انڈیویزیبل نامی ترقی پسند تنظیم کی شریک بانی لیا گرین برگ نے کہا کہ ’امریکی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ ہم کہتے ہیں ’ہمارے ہاں بادشاہ نہیں‘ اور پرامن احتجاج کا حق استعمال کرتے ہیں۔‘
نیو یارک سٹی کے ٹائمز سکوائر میں مظاہرین نے جگہ بھر دی، جہاں پولیس نے بتایا ’احتجاج سے متعلق ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی۔‘ حالانکہ یہاں ایک لاکھ سے زائد افراد وہاں موجود تھے۔
بوسٹن، فلاڈیلفیا، اٹلانٹا، ڈینور، شکاگو اور سیاٹل میں بھی ہزاروں بلکہ کئی جگہوں پر لاکھوں لوگ جمع ہوئے۔
مغربی ساحل پر لاس اینجلس کے اطراف ایک درجن سے زائد ریلیاں نکالی گئیں جن میں مرکزی اجتماع شہر کے مرکز میں تھا۔
سیاٹل میں مظاہرین نے ایک میل سے زائد طویل جلوس نکالا جو شہر کے وسط سے ہوتا ہوا سپیس نیڈل کے اردگرد سیٹل سینٹر پلازہ تک پہنچا۔
پولیس کے مطابق سان ڈیاگو میں 25 ہزار سے زیادہ افراد نے پرامن احتجاج کیا۔
یہ مظاہرے بہت سے امریکیوں، خصوصاً نظریاتی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں، کی بڑھتی ہوئی بے چینی کا مظہر تھے۔
ان کی تشویش کی وجوہات میں ٹرمپ کے مبینہ سیاسی مخالفین کے خلاف فوجداری کارروائیاں، امیگریشن پر سخت فوجی طرز کی کریک ڈاؤن مہم، اور امریکی شہروں میں نیشنل گارڈ کے دستے بھیجنا شامل ہیں۔
یہ ایسا اقدام ہے جسے ٹرمپ نے جرائم سے نمٹنے اور امیگریشن ایجنٹس کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔
اپنی حکومت کی پالیسیوں کو تیزی سے نافذ کرنے کی کوشش میں ٹرمپ نے انتظامیہ کی صفوں میں غیر تجربہ کار وفاداروں کو تعینات کیا اور خبر رساں اداروں، قانونی فرموں اور یونیورسٹیوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔
مظاہرے کرنے والوں نے واشنگٹن ڈی سی کی ایک سڑک بھر دی اور امریکی کانگریس کی عمارت کی طرف مارچ کیا۔
لوگ نعرے لگا رہے تھے اور انہوں نے کتبے، امریکی پرچم اور غبارے اٹھائے رکھے تھے۔ اس موقعے پر میلے کا سماں دکھائی دیا۔
السٹن ایلیٹ، جنہوں نے مجسمہ آزادی کا سرپوش پہن رکھا تھا اور ایک پلے کارڈ پر ’ہم آمر نہیں چاہتے‘ لکھا تھا، کہا ’ہم جمہوریت کی حمایت دکھانا چاہتے ہیں اور اس بات کے لیے کھڑے ہیں جو درست ہے۔ میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف ہوں۔‘
ہیوسٹن کے مرکزی حصے میں امریکی بحریہ کے سابق اہلکار ڈینیئل ابوئٹے گیمیز سٹی ہال پر اس ہجوم میں شامل ہو گئے جس کے بارے میں حکام نے کہا کہ اس کی تعداد تقریباً پانچ ہزار تھی۔
گیمیز نے، جنہوں نے عراق، افغانستان اور شام میں خدمات انجام دیں، کہا ’مجھے سمجھ نہیں آ رہا اس ملک میں اس وقت کیا ہو رہا ہے؟‘
’سابق رپبلکن‘
70 سالہ کیون برائس ایک فوجی سابق اہلکار نے، جو ہزاروں مظاہرین کے ساتھ پورٹ لینڈ، اوریگون کے دریائی کنارے کی طرف بڑھ رہے تھے، سیاہ سویٹ شرٹ پہن رکھی تھی جس پر نعرہ درج تھا ’1776 سے کوئی بادشاہ نہیں۔‘ وہ اعلان آزادی کے سال کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
برائس نے کہا ’ہر وہ چیز جس کے لیے میں فوج میں رہتے ہوئے کھڑا رہا، خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ چاہے میں ساری زندگی رپبلکن رہا ہوں، میں پارٹی کی اس موجودہ سمت کی حمایت نہیں کرتا۔‘
74 سالہ سٹیو کلاپ نے، جو ہیوسٹن میں تیل کی صنعت سے ریٹائر ہوئے، ’سابق رپبلکن‘ کے الفاظ والی قمیص پہن رکھی تھی۔ انہوں نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا ’میں ہمیشہ سے رپبلکن رہا ہوں۔ میرا خاندان ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے رپبلکن رہا ہے اور یہ کہ فرد واحد مجھے رپبلکن پارٹی سے دور کر دے، یہ پاگل پن ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈینور میں کولوراڈو اسٹیٹ ہاؤس کے باہر کئی ہزار افراد کے درمیان کھڑی 38 سالہ کیلی کنسیلا نے لیڈی لبرٹی کا روپ دھارا رکھا تھا۔ ان کے چہرے پر خون آلود آنسو بہتے دکھائے گئے۔
کنسیلا کے مطابق ’ہر کوئی تناؤ کے ساتھ کام پر آتا ہے اور یہ موجودہ حالات کی وجہ سے ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ بڑی حد تک نئی افراط زر کے باعث نکلیں جس کا الزام انہوں نے ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں کو دیا۔
ٹرمپ نے ہفتے کے مظاہروں پر بہت کم بات کی، لیکن فاکس بزنس کو جمعے کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ’وہ مجھے بادشاہ کہہ رہے ہیں — میں بادشاہ نہیں ہوں۔‘
جب سے ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوئے ہیں ڈیموکریٹک پارٹی اندرونی تقسیم سے نمٹ رہی ہے۔
تاہم پارٹی کے مرکزی رہنما، جیسے سینیٹ کے اقلیتی لیڈر چک شومر اور پیش قدمی کی علامت امریکی نمائندہ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، دونوں نے ’نو کنگز‘ تحریک کی حمایت کی۔
ایوان نمائندگان کے رپبلکن سپیکر مائیک جانسن نے جمعے کو اپنی پارٹی میں عام پائے جانے والے مؤقف کو دہرایا اور ’نو کنگز‘ مظاہروں کو’دی ہیٹ امریکہ ریلی‘ قرار دیا۔
دیگر رپبلکن رہنماؤں نے مظاہروں کے منتظمین پر ایسا ماحول پیدا کرنے کا الزام لگایا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی تشدد کو بھڑکا سکتا ہے، خاص طور پر ستمبر میں دائیں بازو کے کارکن اور ٹرمپ کے اتحادی چارلی کرک کے قتل کے بعد۔
نائب صدر جے ڈی وینس نے ہفتے کو جنوبی کیلی فورنیا میں کیمپ پینڈلٹن پر میرینز کے ایک اجتماع سے خطاب میں مظاہروں کا ذکر نہیں کیا۔
لیکن انہوں نے ڈیموکریٹس کو اس حکومتی شٹ ڈاؤن پر تنقید کا نشانہ بنایا جو اس ماہ کے آغاز میں وفاقی اخراجات پر جماعتی کشمکش کے باعث شروع ہوا۔