انڈین فلم ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ نے گذشتہ 30 سال سے ایک ہی سینیما پر چلنے کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر (20 اکتوبر) کو ممبئی کے مراٹھا مندر تھیٹر میں جشن منایا جائے گا، جہاں یہ فلم گذشتہ 30 سال سے متواتر دکھائی جا رہی ہے۔
بالی وڈ کی رومانوی فلم، جسے شائقین اس کے مخفف ’ڈی ڈی ایل جی‘ سے بھی جانتے ہیں، 20 اکتوبر 1995 کو ریلیز ہوئی تھی اور اپنے ڈیبیو کے بعد سے مراٹھا مندر تھیٹر میں روزانہ اس کی نمائش جاری ہے۔
فلم بین 60 سالہ محمد شاکر نے فلم کا 40 انڈین روپے کا ٹکٹ خریدنے کے بعد اے ایف پی کو بتایا: ’میں نے اسے تقریباً 30 بار دیکھا ہے اور میں اسے دیکھتا رہوں گا۔‘
یہ فلم، جس نے شاہ رخ خان کو سپر سٹارڈم تک پہنچایا اور جدید ہندی رومانس کی نئی تعریف کی، آج بھی اپنا جادو جگائے ہوئے ہے۔
ہر روز صبح 11:30 بجے، بزرگ پرانی یادوں کو بھولنے کے لیے اور نوجوان محبت کی روایت پر مبنی اس کہانی کو زندہ کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
سینیما کے انتظامی سربراہ منوج دیسائی نے کہا: ’ہفتے کے دن کا ہجوم عام طور پر کالج کے طلبہ اور نوجوان جوڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
’اتوار کو آپ کو 30 سال بعد بھی 500 کے قریب لوگ ملیں گے۔‘
ایسا 1500 ہفتوں سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے، جو ممبئی کے ایک اور تھیٹر میں ایکشن تھرلر فلم ’شعلے‘ یا ’ایمبرز‘ کی پانچ سالہ کارکردگی سے کہیں زیادہ ہے۔
’رونگٹے کھڑے ہونا‘
یہ فلم بیرون ملک دوسری نسل کے انڈینز کی لبرل اقدار اور ان کے والدین کی قدامت پسند اقدار کے درمیان تصادم کو تلاش کرتی ہے۔
فلم کے اس سین پر جب ہیروئین چلتی ٹرین کے ساتھ دوڑتے ہوئے اپنے عاشق کی بانہوں میں چلی جاتی ہے، آج بھی لوگ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے ہیں۔
دیسائی نے کہا: ’یہ ایک اچھا لمحہ ہے۔ باپ نے اپنی بیٹی کو یہ کہتے ہوئے جانے دیا کہ اسے زندگی گزارنے کے لیے اس سے بہتر ساتھی نہیں ملے گا۔‘
دیسائی نے بتایا کہ کچھ مداحوں نے ڈی ڈی ایل جے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔ انہوں نے ایک خاتون کا ذکر کیا جو گذشتہ 20 سال سے یہ فلم دیکھنے آ رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم اس (خاتون) سے کچھ نہیں لیتے، بلکہ ہم ان کے ٹکٹ کی ادائیگی بھی کرتے ہیں۔ ایسا مداح آپ کو کہاں ملے گا؟‘
یہاں تک کہ کم عمر سامعین بھی سحر زدہ رہتے ہیں۔
23 سالہ اومکار صراف، جو فلم کی ریلیز کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، نے کہا: ’ہماری آج کی نسل میں، ہم اکثر لین دین کے رشتے دیکھتے ہیں لیکن اس فلم میں ہیرو بغیر کسی توقع کے اپنی محبت جیتنے کے لیے تمام حدیں عبور کرتا ہے۔
’ہم نے اسے ٹیلی ویژن پر، اپنے موبائل پر دیکھا ہے، لیکن بڑی سکرین ہمیں خوشی دیتی ہے۔‘
ڈی ڈی ایل جے نے کچھ لوگوں کے لیے حقیقی محبت کی کہانیوں کو بھی تشکیل دیا ہے۔
ایک جوڑے نے اسے ڈیٹنگ کے دوران دیکھا اور دیسائی کو اپنی شادی میں مدعو کیا۔
دیسائی نے کہا، ’وہ اپنی سہاگ رات کے لیے بیرون ملک گئے تھے اور فلم دیکھنے واپس آئے۔‘
’ثقافتی یادگار‘
انڈین اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق فلم کی نمائش 2015 میں تقریباً بند کر دی گئی تھی، لیکن عوامی مطالبے کے پیش نظر مداحوں کی پسندیدہ مراٹھا مندر میں اسے روزانہ دکھایا جاتا رہا۔
تھیٹر خود بھی تھوڑا سا بدلا ہے، جہاں اب کاؤنٹرز پر چائے کے بھاپ اڑاتے کپ اور تلے ہوئے سموسے پیش کیے جاتے ہیں۔
بمبئی سینٹرل سٹیشن کے قریب ہونا اس کی مقبولیت میں اضافہ کرتا ہے، کیونکہ مسافر اپنی منزلوں کی طرف جانے سے پہلے اکثر شو دیکھتے ہیں۔ ان میں بیرون ملک سے آنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔
سپین سے تعلق رکھنے والی سیاح کیلی فرنینڈز، جو یہ فلم دیکھا چاہتی ہیں، کا کہنا تھا: ’فلم رومیو اینڈ جولیٹ کی طرح ہے، جس کا اختتام خوش کن ہے۔
’اگرچہ ہم زبان نہیں سمجھتے، ہم موسیقی، رقص اور ملبوسات سے لطف اندوز ہوئے۔‘
فلمی نقاد بردواج رنگن فلم کی ’برداشت‘ کو پرانی اور نئی اقدار سے جکڑے ہوئے انڈیا کے لیے ایک محبت نامے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
رنگن نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ انڈین ثقافت میں ایک خاص نقطے کی نمائندگی کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے اب بھی پسند کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سے دو نسلوں کے درمیان پائے جانے والے تناؤ کی وضاحت ہوتی ہے۔
بردواج رنگن نے کہا کہ فلم ایک طرح کی ثقافتی یادگار بن گئی ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمیشہ کے لیے دکھائی جائے گی۔‘