ایبٹ آباد کا ایک لڑکا تھا ظہور راجہ۔ جی سی لاہور میں پڑھنے گیا، ڈرامیٹک کلب کا ممبر بنا اور وہیں سے ایکٹر بننے کی خواہش نے جنم لیا۔
والد تھانیدار تھے اور بیٹے کو فوجی افسر بنانا چاہتے تھے۔ ایف اے کے بعد ڈیرہ دھون بھیج دیا۔ ظہور راجہ نے باپ کے بجائے دل کی آواز سنی اور بمبئی جا پہنچا۔ ایک روایتی باپ ایسی نافرمان اولاد کو کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ سو ہمیشہ کے لیے گھر اور دل سے نکال دیا۔
اے آر کاردار کے ذریعے فلموں میں انٹری ہوئی اور 1939 کی ’مرزا صاحباں‘ میں مرکزی کردار مل گیا۔
فلم مشہور ہوئی اور پوسٹر پنڈی تک پہنچ گئے۔ ماں اور بہنیں ظہور راجہ کا نام دیکھ کر مچل اٹھیں کہ شہزادہ ہیرو بن گیا ہے۔
ایک دن تھانیدار صاحب کا موڈ اچھا دیکھ کر سینیما جانے کی فرمائش کی۔ سینیما حال پہنچے، فلم شروع ہوئی۔
فلم کے ایک سین میں ظہور راجہ کو مار پڑتی ہے۔ ماں اور بہنیں زور زور سے رونا شروع کر دیتی ہیں کہ ہائے ہمارے شہزادے کو ایسی بے دردی سے تو نہ مارو۔
باپ کہ پہلے ہی غصے سے بھرا بیٹھا تھا، بار بار کہے، ’اور مارو بے غیرت کو، بمبئی جا کر کنجر بن گیا۔‘
یہ سادہ زمانہ محض فلم دیکھنے والے عام لوگوں کے لیے ہی سادہ نہیں تھا بلکہ فلموں کی کہانیاں، کردار اور پیشکش سب بوریت کی حد تک یکسانیت بھری اور معمولی تھی۔
شاعر محبوب خزاں یاد آتے ہیں؎
سادہ کاری کئی پرت کئی رنگ، سادگی اک ادائے سادہ نہیں۔
اسی غزل میں آگے چل کر وہ اپنی بات مجسم کر دیتے ہیں۔
میں کہیں اور کس طرح جاؤں، تو کسی اور کے علاوہ نہیں۔
یکسانیت بھری سادگی کی بہترین مثالیں بالی وڈ کی فلمیں ہیں۔ محبوب خزاں والا معجزہ دیکھنا ہو تو بنگال کا سینیما ہے۔
یکسانیت کے باوجود بالی وڈ کا فلمی سفر کم از کم ہیرو کی پیشکش اور مکالمہ نویسی میں ضرور آگے بڑھا ہے۔
وجاہت مرزا اور کمال امروہوی نے ’مغل اعظم‘ میں مکالمے کیا لکھے نشتر برسائے ہیں، مگر 50 اور 60 کی دہائی کی بالی وڈ فلموں میں عمومی طور پر کردار بہت کلیشے قسم کے ڈائیلاگ بولتے ہیں۔
جاوید سلیم نے مکالموں کی دھار تیز کی۔ ’آنند‘ جیسی فلموں میں گلزار نے احساس کی خوبصورت زبان کو سینیما میں جگہ دینے کی کوشش کی۔
بالی وڈ کے ابتدائی دور میں معیار کے اعتبار سے زیادہ اچھی فلمیں بنانے والے وہ لوگ تھے، جن کی سمجھ میں اردو کم کم آتی تھی۔
بہترین کیمرہ ورک کے باوجود وہ مکالموں میں ڈھیلے نظر آتے ہیں۔
ایک اور فرق بھی تو تھا، فلم کی کہانی سین بائی سین آگے بڑھتی تھی، ان کے نزدیک مکالمے کی وہ اہمیت تھی ہی نہیں کہ فلم کا دار و مدار یا اثر انگیزی طے کرنے میں کرداروں کی باتیں مرکزی حیثیت ادا کریں۔
جاوید سلیم نے مکالموں کو فلم کی کامیابی کا ایک فیصلہ کن حصہ بنایا، سینیما ہال میں مکالمہ سن کر تالی نہ بجے تو مکالمہ نویس کو پیشی بھگتنی پڑے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہیرو، اینٹی ہیرو کے اعتبار سے بھی بالی وڈ کا سفر آگے بڑھا ہے۔
ابتدائی فلموں میں ہیرو کم و بیش ہمیشہ نیکی، قربانی اور بہادری کا استعارہ رہا۔ سیدھا سادہ شریف سا بندہ، لوفر ہے تب بھی اچھی خوبیاں رج کے بھری ہیں۔
دیوداس (1955) میں دلیپ کمار کا کردار شراب اور خود کو تباہ کرنے میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ یہ ’اینٹی ہیرو‘ کا ایک کلاسیکی نمونہ ہے، جو غلط ہونے کے باوجود قابلِ رحم ہے۔
اسی طرح انداز (1949) اور مدھوماتی (1958) میں حسد اور احساسِ کمتری میں جلتے ان کے کردار کسی طرح غلیظ نہیں لگتے۔
راج کپور کے کردار اکثر بھولے بھالے، نیک نیت مگر حالات کے مارے ہوئے لوگ تھے۔ آوارہ (1951) میں وہ چور بنتا ہے، مگر ’مجبوری‘ میں کہ ذمہ دار معاشرہ ہے۔ شری 420 (1955) میں وہ دولت کے لالچ میں دھوکہ دیتا ہے، مگر دل کا صاف رہتا ہے۔
راج کپور ہی وہ فلم ساز یا ہیرو تھے جن کے کردار سب سے زیادہ اخلاقی سوالوں کے دائرے میں الجھتے ہیں۔ پہلے کردار جرم کرتا ہے مگر توبہ کرتے ہوئے دیر نہیں لگاتا۔ نفاست بھرے سیدھے سادے کردار جنہیں دنیا بگاڑتی ہے مگر وہ سیدھے راستے پر لوٹ آتے ہیں۔
جدید شہری کی قبا اوڑھنے والے دیو آنند
بازی (1951)، جال (1952) اور کالا بازار (1960) میں جواری، سمگلر یا کالا دھندہ کرنے والے کردار نبھاتے ہیں، مگر ساتھ ساتھ اپنے ضمیر سے جنگ لڑتے رہتے ہیں۔
اُن کی فلم گائیڈ (1965) میں تو پورا انسانی سفر سمٹ آتا ہے، ایک گائیڈ جس کا کام دوسروں کو راستہ دکھانا ہے، پہلے دھوکہ باز بنتا ہے اور پھر توبہ کے ذریعے نجات پاتا ہے۔
1970 کے عشرے میں امیتابھ بچن کا ’اینگری ینگ مین‘ ابھرتا ہے۔ یہ ہر طرح سے روایتی ہیرو کے امیج کو توڑنے والے کردار تھے۔
1990 کی دہائی میں شاہ رخ خان نے ’بازیگر‘، ’ڈر‘، اور ’انجام‘ جیسی فلموں سے منفی کرداروں کی اہمیت کو نئی بلندی دی۔
محبت میں جنون کی حدوں کو چھوتے ان کے کردار، خودغرض اور خطرناک ہیں۔ فلم دیکھنے والے انہیں ولن کے روپ میں قابل نفرت کردار نہیں سمجھتے بلکہ انہیں اپنی زندگی سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہوئے پسند کرتے ہیں۔
آج کل کی بالی وڈ فلموں میں ’ہیرو‘ ہمیشہ نیک نہیں ہوتا، وہ بغاوت کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، محبت میں ہارتا ہے اور اپنی کوتاہیوں سے لڑتا ہے۔
ہیرو اب دیوتا نہیں، آدمی ہوتا ہے۔ کیونکہ ناظرین بھی اب ظہور راجہ کی ماں بہن اور باپ کی طرح سادہ نہیں رہے۔
دور حاضر کے فلم سازوں کے لیے اب نیکی یا بدی اہم نہیں، بلکہ زندگی کی پیچیدگی کا سوال زیادہ بنیادی ہے۔
آج ہر ہیرو میں تھوڑا سا ولن اور ہر ولن میں تھوڑا سا ہیرو چھپا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔