الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں بلدیاتی انتخاب 2022 کے قانون کے تحت کرانے کا حکم دیا تو پنجاب حکومت نے اس کے جواب میں صوبائی اسمبلی سے بلدیاتی ایکٹ 2025 منظور کروا لیا۔
نئے قانون کے مطابق نظام میں مزید کیا تبدیلیاں آئیں گی اور یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ صوبے میں اگلے بلدیاتی انتخابات کس قانون کے تحت ہوں گے؟
پنجاب میں عرصہ دراز سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ ہونے سے مقامی حکومتیں غیر فعال ہیں۔ ہر ضلع میں انتظامی ڈھانچے کے ذریعے وزیر اعلی اور وزرا نظام کو چلا رہے ہیں۔ لہذا گلی محلوں کے مسائل حل کرنے کے لیے بھی شہریوں کو اراکین اسمبلی یا محکموں کے افسران کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ مقامی نمائندوں کی غیر موجودگی کے باعث انہیں مسائل حل کرانے میں دشواری کا سامنا ہے۔
پاکستان میں 2002 کے علاوہ کبھی مقامی سطح پر بااختیار بلدیاتی حکومتیں تشکیل نہیں دی جا سکیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح بلدیاتی سطح پر مؤثر حکومتوں کی تشکیل سے ہی عام آدمی کے بنیادی مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سابق صدر ہائی کورٹ بار مقصود بٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہر صوبائی حکومت اپنی مرضی کا بلدیاتی سیٹ اپ بنانے کے لیے قانون سازی کرتی ہے۔ الیکشن کمیشن رولز کے مطابق ہر صوبے میں آخری منظور شدہ قانون کے مطابق بلدیاتی انتخاب منعقد کیا جاتا ہے۔‘
ان کے بقول: ’الیکشن کمیشن نے پنجاب میں آخری منظور شدہ قانون 2022 کے تحت دسمبر میں الیکشن کروانے کا حکم ضرور دیا ہے لیکن الیکشن شیڈول جاری ہونے سے قبل ہی صوبائی حکومت نے لوکل باڈیز ایکٹ 2025 اسمبلی سے منطور کروا لیا ہے۔ اس لیے اب اس نئے قانون کے تحت ہی بلدیاتی الیکشنز ہوں گے۔‘
نئے قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پنجاب حکومت نے رواں سال چار مرتبہ الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود بلدیاتی الیکشن کی تیاری سے گریز کیا۔ حتیٰ کہ بلدیاتی قانون تک اسمبلی سے منظور نہیں کروایا، جس کے بعد رواں ماہ الیکشن کمیشن نے حکم دیا کہ بلدیاتی انتخابات دسمبر کے آخری ہفتے میں بلدیاتی قانون 2022 کے تحت ہوں گے۔
لہذا پنجاب حکومت نے بھی اپنی مرضی کا نظام لانے کے لیے پیر (13 اکتوبر) کو اسمبلی کے جاری سیشن میں بل پیش کر کے اسی دن منظور کروا لیا۔
صوبائی وزیر بدلیات ذیشان رفیق نے لوکل گورنمنٹ بل 2025 پیش کیا تو اپوزیشن نے شدید نعرے بازی کی اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
حکومتی بینچوں پر موجود اراکین نے اسی شور شرابے میں بل منظور کر لیا لیکن اپوزیشن کی بل میں ترامیم کی تمام تجاویز مسترد کر دی گئیں۔
قائم مقام سپیکر ظہیر اقبال چنڑ نے اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود مسودہ قانون مقامی حکومت پنجاب 2025 کی منظوری دے دی۔
نئے قانون میں نیا کیا ہے؟
پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے متعلق قانون میں مندرجہ ذیل نئی باتیں شامل کی گئی ہیں۔
1۔ قانون میں نئے اختیارات شامل کیے گئے ہیں جن میں ہر ضلع میں اقتصادی ترقی کی حکمت عملی مقامی سطح پر تیار کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے تحت کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز (سی بی اوز) کو غیر منافع بخش ادارہ قرار دے دیا گیا۔ سی بی اوز کے اثاثے صرف ادارے کے مقاصد کے لیے استعمال ہوں گے اور ممبران میں منافع یا بونس تقسیم نہیں ہو گا۔
2۔ ضلعی حکومتوں کو تمام پبلک مقامات پر پبلک ٹائلٹ لازمی تعمیر کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
3۔ مقامی سطح پر تشکیل دیے گئے کمیشن کو غیر منصفانہ مقامی ٹیکسز کی سماعت اور فیصلے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔
4۔ اگر صوبائی حکومت کا کوئی منصوبہ مقررہ مدت میں مکمل نہ ہو تو مقامی حکومت خود اس کی تکمیل سنبھالنے کا اختیار رکھے گی۔
5۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی مقامی حکومت کی ذمہ داری ہو گی اور نجی پانی کے ذرائع پر کنٹرول اور اجازت لازمی ہو گی۔
6۔ مقامی حکومتوں کے تشکیل دیے گئے منصوبوں میں 20 فیصد فنڈز لوکل جبکہ 80 فیصد صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔
7۔ بلدیاتی قانون میں یونین کونسلیں اور ضلعی حکومتیں بحال کر دی جائیں گی۔
8۔ مقامی نمائندوں کی تجاویز پر ہی گلی محلوں کے مسائل حل کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔
9۔ ضلع لاہور کو مکمل طور پر شہری علاقہ قرار دیا گیا ہے۔
10۔ سات لاکھ سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں ٹاؤن کارپوریشنز قائم کی جائیں گی۔
11۔ یونین کونسل ایک یا زیادہ مردم شماری بلاکس پر مشتمل ہو گی۔
12۔ یونین کونسل کو بجٹ تیار کرنے اور منظور کرنے کا اختیار ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
13۔ یونین کونسل ٹیکس، فیس اور جرمانے وصول کر سکے گی۔
14۔ یونین کونسل کی سطح پر مصالحتی کمیٹی کے قیام کی شق شامل مقامی حکومتوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت منصوبے چلانے کا اختیار ہو گا۔
15۔ ہر دو ماہ بعد لوکل گورنمنٹ کا اجلاس لازمی قرار دیا گیام جبکہ دو ماہ تک اجلاس نہ ہونے پر کمیشن کارروائی کرے گا۔
16۔ منتخب نمائندوں کو گزٹ نوٹیفکیشن کے 30 دن میں سیاسی جماعت میں شمولیت کی اجازت ہو گی۔
17۔ لوکل ٹیکسوں کے خلاف شہری 45 دن کے اندر کمیشن میں اپیل کر سکیں گے۔
18۔ کمیشن کو غیر منصفانہ ٹیکس معطل کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔
19۔ سی بی اوز فنڈز صرف سرکاری بینکوں میں رکھنے کی پابندی عائد ہو گی۔
20۔ ڈپٹی کمشنرز کو تمام ڈسٹرکٹ اتھارٹیز کے رکن بنانے کی سفارش بھی شامل کی گئی ہے۔
مقصود بٹر کے بقول: ’نئے بلدیاتی قانون میں سب کچھ وہی ہے جو ہر سیاسی حکومت اپنی مرضی سے بنانا چاہتی ہے۔ ضلعی حکومتوں کے قیام سے بھی مرکزی اختیار وزیر اعلی کے پاس ہی ہوتا ہے۔ صرف مشرف دور میں 2002 میں قائم مقامی حکومتیں بااختیار تھیں۔ اسی دور میں مقامی نمائندوں کو اراکین اسمبلی کی طرح سکیمیں منظور کرانے کا اختیار دیا گیا۔‘
ان کے بقول: ’پہلے تو سیاسی حکومتوں کو بلدیاتی نظام میں دلچسپی نہیں رہی اگر یہ انتخابات کرائے بھی گئے تو نئے قانون میں عوامی نمائندوں کو صرف صوبائی حکومتوں کا محتاج رکھا گیا ہے۔‘