خیبرپختونخوا بلدیاتی ضمنی انتخاب میں عدم دلچسپی کیوں؟

الیکشن کمیشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں 21 اکتوبر کو بلدیاتی ضمنی انتخاب کے لیے 913 نشستوں پر مختلف اضلاع سے صرف 155 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

آٹھ فروری، 2024 کی اس تصویر میں پاکستان کے شہر پشاور میں عام انتخابات کے دوران ووٹنگ کا عمل جاری ہے(انڈپینڈنٹ اردو)

الیکشن کمیشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں 21 اکتوبر کو بلدیاتی ضمنی انتخاب کے لیے 913 نشستوں پر مختلف اضلاع سے صرف 155 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار میں انکشاف ہوا کہ بعض اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کسی نے بھی کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے ہیں۔

جنرل نشستوں کے لیے 93، خواتین کے لیے سات، مزدور کسان کے لیے 14 جبکہ یوتھ کی نشستوں کے لیے 41 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔

صوبے کے اضلاع باجوڑ، بونیر، کوہستان لوئر، کوہستان اپر، تورغر، بٹگرام، جنوبی وزیرستان لوئر، کرک اور خیبر سے کسی بھی امیدوار نے کاغذات جمع نہیں کیے ہیں۔

اسی طرح خواتین نشستوں کے لیے صرف سات امیدواروں نے کاغذاف جمع کرائے ہیں اور صوبے کے 33 اضلاع میں سے 28 اضلاع سے کسی بھی خاتون نے کاغذات جمع نہیں کرائے ہیں۔

اقلیتوں کی نشتوں کی بات کی جائے تو صوبے بھر سے کسی اقلیتی امیدوار نے درخواست جمع نہیں کرائی ہے۔

لحاظ علی پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں اور صوبے میں بلدیاتی حکومتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں جن  کے مطابق اس عدم دلچسپی کی ایک بڑی وجہ بلدیاتی نمائندوں کو فنڈ نہ ملنا ہے۔

لحاظ علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں 2021 اور 2022 میں بلدیاتی انتخاب میں 20 ہزار سے زائد نمائندے منتخب ہوئے تھے جن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو 130 تحصیلوں میں سے 50 میں کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈ فراہم نہیں کیا گیا۔‘

لحاظ علی نے بتایا کہ ’موجودہ بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے میں پانچ چھ مہینے رہتے ہیں، تو ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وقت کم ہے تو اسی وجہ سے لوگ ان انتخابات میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔‘

پی ٹی آئی نے 2013 میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ پاس کر کے بلدیاتی حکومتوں کو مضبوط بنانے کا وعدہ کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد پی ٹی آئی اسی ایکٹ میں مختلف ترامیم بھی کر چکی ہے اور رواں ماہ میں کچھ ترامیم ایسی بھی منظور ہوئی ہیں جس میں بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات مزید محدود کر دیے گئے ہیں۔

اسی طرح 2022 میں بھی پی ٹی آئی نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کی تھیں جس کے خلاف بعض بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات کم کرنے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

مغفرت شاہ 2013 کے بعد بلدیاتی انتخاب میں چترال کے ضلع ناظم منتخب ہوئے تھے۔ ان کے مطابق جب انتظامی اختیارات بلدیاتی نمائندوں کے پاس نہ ہوں تو انتخاب میں عدم دلچپسی ہی نظر آئی گی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پرویز مشرف ایک ڈکٹیٹر تھے لیکن انہوں نے جو بلدیاتی ڈھانچہ دیا تھا اس میں اختیارات زیادہ تھے جبکہ منتخب سیاسی حکومتوں میں اختیارات کم تھے۔

مغفرت شاہ نے بتایا کہ ’پہلے ضلعی یونٹ کا خاتمہ کیا گیا جو کہ بلدیاتی نظام کا ایک اہم یونٹ ہے اور ابھی ایک 11/12 سکیل کا ملازم بلدیاتی نظام کو چلاتا ہے تو ایسے میں کون اس نظام میں دلچپسی لے گا۔‘

صوبائی حکومت کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن میں صوبے کے حصے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاہم مغفرت شاہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی طریقہ کار ہی موجود نہیں ہے جس کے تحت اضلاع کو باقاعدہ ترقیاتی فنڈ مہیا کیا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جاتا تو صوبائی حکومت پر کام کا بوجھ بھی کم ہوجاتا اور بعض معاملات اضلاع میں بلدیاتی نمائندوں کے حوالے ہو جاتے۔

بلدیاتی انتخابات میں عدم دلچسپی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پی ٹی ٹی کے رہنماؤں اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ سے رابطے کی کوشش کی لیکن کسی نے بھی اس پر اپنا موقف نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست