خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے نوجوان مبارک زیب خان نے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق ضمنی انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی دونوں نشستیں جیت لی ہیں۔
مبارک زیب خان ضلع باجوڑ حلقہ این اے 8 کے لیے حالیہ انتخابات میں آزاد امیدوار نوجوان ریحان زیب کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ریحان زیب کو عام انتخابات سے قبل ایک انتخابی مہم سے واپسی پر نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا جس کے بعد اس حلقے میں انتخابات الیکشن کمیشن کی جانب سے ملتوی کر دیے گئے تھے۔
ضمنی انتخابات میں ریحان زیب کے چھوٹے بھائی مبارک زیب قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشست کے لیے امیدوار کے طور پر سامنے آئے جنہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کی حمایت بھی حاصل تھی۔
ریحان زیب نوجوانوں میں کافی مقبول تھے لیکن پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے وہ پارٹی کی صوبائی قیادت سے ناراض تھے اور آزاد حیثیت میں انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
ریحان زیب نے قتل سے پہلے ایک انتخابی مہم کے دوران کہا کہ ’پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی جانب سے ٹکٹ مجھے دینے کا کہا گیا لیکن صوبائی قیادت میں موجود کچھ لوگوں نے ٹکٹ کسی اور کو دے دیا۔‘
آزاد حیثیت میں ریحان زیب نے انتخابات میں حصہ لینے کے بعد ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ ’میری لاش قبر میں بھی ہو، تب بھی باجوڑ ہم سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ چاہے آپ ہمیں ماریں، قتل کریں یا کچھ بھی کریں لیکن باجوڑ ہم جیتیں گے۔‘
ضمنی انتخابات میں سوشل میڈیا پر ہمدردی کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے انتخابی ٹکٹ ریحان زیب کے بھائی مبارک زیب کو دینے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا لیکن قومی اسمبلی کا ٹکٹ پی ٹی آئی کے سابق رکن قومی اسمبلی گل ظفر خان جبکہ صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ گل داد خان کو دیا گیا تھا۔
مبارک زیب خان عمران خان کی تصویر اور پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے انتخابی مہمات کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ گل ظفر اور گل داد خان بھی عمران خان کی تصویر اور پارٹی جھنڈے تلے انتخابی مہم چلا رہے تھے۔
مبارک زیب خان کے حمایتی پی ٹی آئی کارکنان اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کے مابین اختلافات اتنے بڑھ گئے تھے کہ ایک موقع پر مبینہ طور پر دونوں فریقین میں انتخابی جلسے کے دوران جھگڑا بھی ہوا۔
اب 21 اپریل کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیر حتمی نتائج کے مطابق مبارک زیب خان نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو بھاری لیڈ کے ساتھ شکست دی ہے۔
غیر سرکاری نتیجے کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 8 میں مبارک زیب خان نے 74 ہزار آٹھ ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار گل ظفر خان نے 47 ہزار 282 ووٹ حاصل کیے ہیں۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 22 میں مبارک زیب خان نے 23 ہزار 386 ووٹ حاصل کر کے نشست اپنی نام کی جبکہ دوسرے نمبر پر 10 ہزار 477 ووٹوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے عابد خان رہے ہیں۔
باجوڑ کے مقامی صحافی اور ضمنی انتخابات کو قریب سے کور کرنے والے بلال یاسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضمنی انتخابات میں اصل میں ’پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ساتھ تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ریحان زیب کے قتل کے بعد مبارک زیب اور ان کے خاندان کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں تھیں لیکن پی ٹی آئی نے ٹکٹ ان کو نہیں دیا۔ بلال کے مطابق ’نوجوان زیادہ تر ریحان زیب کے دوست اور حمایتی ہیں اور عام انتخابات میں بھی یہ کارکنان ریحان زیب کو ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض تھے اور قتل کے بعد ضمنی انتخابات کے لیے ٹکٹ ریحان زیب کے بھائی کو دینے کا مطالبہ کرتے تھے۔‘
حتیٰ کہ بلال یاسر کے مطابق ریحان کو ’شہید پیکج ملنے کے وعدے پر بھی پی ٹی آئی سے کہا گیا تھا کہ شہید پیکج دینے کی بجائے ٹکٹ مبارک زیب کو دیا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔‘
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران گل ظفر اور گل داد خان کے علاوہ نوجوان مبارک زیب نے ضمنی انتخابات میں کئی دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے سیاست کے بڑے برجوں کو بھی شکست دی ہے۔
مبارک زیب کے مد مقابل باجوڑ کے بااثر سیاست دان شہاب الدین خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان، سابق گورنر خیبر پختونخوا انجنیئر شوکت اللہ خان، اور جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی و سابق سینیٹر ہارون رشید تھے۔
’پی ٹی آئی کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا‘
پی ٹی آئی کے سرکل میں عمران خان پر اعتماد کے حوالے سے ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ عمران خان کی جانب سے اگر کھمبے کو بھی ٹکٹ ملے، تو پی ٹی آئی کارکنان ان کو بھی ووٹ بھی دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم یہ بات مبارک زیب خان نے رد کر دی اور انہوں نے ثابت کیا کہ عوام کی امنگوں پر پورا نہ اترنے والے امیدواران کو پی ٹی آئی کارکنان کبھی بھی ووٹ نہیں دیں گے۔
محمود جان بابر پشاور میں مقیم سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اب دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔
پہلا مرحلہ، محمود جان بابر کے مطابق یہ تھا کہ ’پی ٹی آئی کے کارکنان یہی سمجھتے تھے کہ عمران خان جو کہتا ہے اور کرتا ہے، سب ٹھیک ہے۔‘
تاہم دو تین انتخابات دیکھ کر محمود جان کے مطابق لوگوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ ’پارٹی میں بعض افراد عمران خان کا نام استعمال کر کے پارٹی پر قابض ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ریحان زیب ماضی میں پی ٹی آئی ٹکٹ ہولڈرز کے لیے انتخابی مہمات چلاتے تھے لیکن جب وقت آتا تھا تو یہی لوگ اپنے رشتہ داروں کو نوازتے تھے اور تب ہی ریحان زیب پارٹی فیصلوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔‘
محمود جان بابر نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی کے پہلے فیز میں صرف ’عمران خانی‘ چلتی تھی لیکن اب دوسرے فیز میں عوام نے پارٹی کے اندر موجود شخصیات سے اپنا حق مانگنا بھی شروع کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ صرف ریحان زیب کے کیس میں نہیں ہوا بلکہ پشاور میں پی ٹی آئی کے سینیٹ امیدوار عرفان سلیم کے کیس میں بھی ہوا تھا جنہوں نے بعض فیصلوں کے خلاف بغاوت کی تھی۔‘
پی ٹی آئی کا مبارک زیب کی جیت پر موقف
مبارک زیب خان کی جیت پر مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا کہ ’مبارک زیب نے عمران خان کی تصویر اور پی ٹی آئی جھنڈے تلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔‘
بیرسٹر سیف کے مطابق ’باجوڑ میں عمران خان کے وژن اور بیانیے کو کامیابی ملی اور مخالف سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کر دیا۔‘