بلدیاتی نظام میں عدم سنجیدگی، نئے صوبوں کی بحث زور کیوں پکڑ رہی ہے؟

تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت بلدیاتی نظام کو مستحکم بنانے میں سنجیدہ نہیں جبکہ نئے صوبوں کو محض ایک نعرے کے طور استعمال کیا جا رہا ہے۔

ملتان میں جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ کے دفتر کے باہر لگی ایک تختی (تصویر بشکریہ: محمد نوید)

پاکستان کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی نظام مستحکم نہیں ہو سکا ہے اور حتیٰ کہ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں بھی الیکشن کمیشن کی ہدایات کے باوجود مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا ہے۔ لیکن دوسری طرف نئے صوبوں کے قیام کی بحث ایک بار پھر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن چند ماہ سے اس بحث نے ایک نئی شدت اختیار کر رکھی ہے۔

ملک کی تیزی سے بڑھتی آبادی، جو 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، بڑے صوبوں کی انتظامی کمزوریاں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور گورننس کی خراب صورت حال کے شکوؤں  نے نئے صوبوں کے مطالبے کو سیاسی، معاشی اور انتظامی سطح پر سنجیدہ بنا دیا ہے۔ 

قومی اسمبلی، سینیٹ اور میڈیا میں اس پر گول میز کانفرنسز، پارلیمانی بحثیں اور عوامی مطالبے سامنے آ رہے ہیں۔ 

ویسے تواس مطالبے کی جڑیں 1970 کی دہائی سے ملتی ہیں جب جنوبی پنجاب اور ہزارہ ریجن جیسے علاقوں میں الگ صوبوں کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ لیکن 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد یہ بحث دوبارہ زندہ ہوئی تو بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی اس کی حمایت کرنا پڑی۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے رہنما اور وفاقی وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال نے رواں ہفتے کہا کہ اگر سندھ میں شہری علاقوں کو اُن کے حقوق نہ ملے تو صوبے بنانے کے لیے آئینی ترمیم بھی کی جا سکتی ہے۔

سابق ضلع ناظم لاہور میاں عامر محمود نے منگل کو کراچی میں تقریب سے خطاب کے دوران تیسری بار مطالبہ دہرایا کہ ’ہمیں صوبوں کی بہتری کے لیے مزید یونٹس بنانا ہوں گے اِس کی ہمیں آج اشد ضرورت ہے۔‘

رکن قومی اسمبلی ریاض حسین فتیانہ اگست میں اس حوالے سے باقاعدہ آئینی ترمیمی بل جمع کروا چکے ہیں۔ اس بل میں پنجاب کو تقسیم کر کے مغربی پنجاب صوبہ قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں نئے صوبوں کی بحث صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے زیادہ کچھ نہیں۔ 

نئے صوبے مسائل کا حل ہوسکتے ہیں؟

پاکستان کے جمہوری نظام میں بہتری کے لیے کام کرنے والے نجی ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’کسی بھی ملک میں انتظامی یا گورننس کی بہتری کے لیے کامیاب ماڈل مقامی حکومتوں کا قیام اور انہیں مکمل بااختیار بنانا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس بارے میں کوئی بھی جامع حکمت عملی نہیں بنا سکیں۔ ہمارے نظام میں تمام تر اختیارات ایگزیکٹیو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔  

’جب پہلے ہی چار صوبوں کی موجودگی میں بہتری نہیں لائی جا سکی تو نئے صوبوں سے کیسے بہتری آئے گی؟ لہذا سب سے پہلے ہمیں مضبوط بلدیاتی نظام تشکیل دے کر یونین کونسل کی سطح تک اختیارات اور فنڈز کی تقسیم یقینی بنانا ہو گی۔‘

تجزیہ کار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’نئے صوبوں کی بحث نئی نہیں بلکہ کئی دھائیوں سے چلتی آرہی ہے۔ لیکن کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلی اپنے اختیارات کی تقسیم نہیں چاہتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے حکمران سمجھتے ہیں کہ اگر اختیارات نچلی سطح پر چلے گئے تو ان کی نہ صرف قیادت خطرے میں پڑ سکتی ہے بلکہ ان کی اہمیت بھی کم ہو جائے گی۔ 

’موجودہ نظام میں نالیاں اور گلیاں بنوانے کے لیے بھی لوگوں کو ایم این ایز اور ایم پی ایز کے پاس جانا پڑتا ہے، جس سے ان کی سیاست چمکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلیم بخاری نے تاریخ میں جھانکتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے تاج لنگاہ نے سرائیکستان کے نام پر آواز اٹھائی اور پارٹی بھی بنا لی۔ پھر ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک چلی وہ بھی سیاست کی نظر ہو گئی۔ پیپلز پارٹی ہو نون لیگ یا تحریک انصاف سب نے ہمیشہ انتخابات کے موقع پر نئے صوبوں کے قیام کو سیاسی نعرے کے طور استعمال کیا۔‘

تحریک انصاف نے 100 دن میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن متحدہ جنوبی پنجاب کو ساتھ ملا کر الیکشن لڑا اور حکومت بنائی۔ ملتان اور بہاولپور میں سیکرٹریٹ قائم کر کے انتظامی یونٹ بنانے کا دعوی بھی کیا۔ 

سلیم بخاری کے بقول، ’یہ انتظامی یونٹ نہیں بلکہ لالی پاپ تھا کیونکہ اس اقدام سے وہاں کے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوئے نہ ہی یہ تجربہ کامیاب ہوا۔ بلکہ وسائل ضائع ہو رہے ہیں۔‘

میاں عامر محمود کے بقول، ’چین میں 31 ایڈمنسٹریٹیو یونٹ ہیں۔ انڈیا میں 39، انڈونیشیا میں 34، نائیجریا میں 27 اور برازیل میں 36 ہیں، جن کی وجہ سے انتظامی طور پر ان ممالک میں گورننس اور انتظامی معاملات بہتر چل رہے ہیں۔‘

نئے صوبوں کے قیام کی نئی بحث 

مصطفی کمال نے رواں ہفتے اپنے بیان میں واضح پیغام دیا کہ اگر پیپلز پارٹی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم تک خطرے میں پڑ سکتی ہے اور سندھ میں نیا صوبہ بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

قومی اسمبلی میں بھی رواں سال اگست میں پنجاب کی نئی حد بندی اور ایک نیا صوبہ بنانے کا منصوبہ پیش کیا گیا، جس کے تحت صوبہ پنجاب کی تقسیم کر کے ’مغربی پنجاب‘ کے نام سے ایک نیا صوبہ تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ۔ 

یہ آئینی ترمیمی بل 2025 رکن قومی اسمبلی ریاض حسین فتیانہ نے قومی اسمبلی کی نجی کارروائی کے روز پیش کیا۔ 

بل میں کہا گیا کہ صوبہ پنجاب کی بڑھتی ہوئی آبادی اور انتظامی مسائل کے باعث ایک نیا صوبہ بنانا وقت کی اشد ضرورت ہے اور اس لیے فیصل آباد اور ساہیوال ڈویژنز کو مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے، جو پنجاب کا دوسرا بڑا جنگل، ایک بڑی زرعی یونیورسٹی اور ایک بڑے صنعتی مرکز پر مشتمل ہو۔ 

بل میں موقف اختیار کیا گیا کہ یہ علاقہ ایک الگ صوبے کے طور پر اپنی بقا کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ 

اس ترمیمی بل میں آئین کے آرٹیکل ایک، 51، 59، 106، 154، 175 اے، 198 اور 218 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں، جن کے تحت صوبائی و وفاقی نشستوں کی تقسیم میں بھی تبدیلی ہو گی۔ 

مجوزہ ترمیم کے مطابق پنجاب کی جنرل نشستیں 114 اور خواتین نشستیں 24 ہو کر کل نشستیں 138 ہوں گی جبکہ سندھ میں کل نشستیں 75، خیبرپختونخوا میں 55، بلوچستان میں 20 اور وفاقی دارالحکومت میں تین تجویز کی گئی ہیں۔

بل کے مطابق نئے صوبے مغربی پنجاب کے لیے جنرل نشستیں 27 اور خواتین کی 8 نشستیں مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جس کے بعد پاکستان میں صوبوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا جبکہ وفاقی دارالحکومت الگ حیثیت میں برقرار رہے گا۔ 

سپیکر قومی اسمبلی نے بل مزید غور کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا ہوا ہے جس پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست