ہانگ کانگ میں بلند و بالا عمارتوں پر مشتمل ایک رہائشی کمپلیکس میں بدھ کی دوپہر کو لگنے والی ہولناک آگ کے بعد فائرفائٹرز جمعرات کو بھی شعلوں پر قابو پانے کی کوشش میں مصروف نظر آئے، جس میں حکام کے مطابق کم از کم 44 افراد جان سے جا چکے ہیں اور سینکڑوں لاپتہ ہو گئے۔
یہ آگ آٹھ عمارتوں پر مشتمل ہاؤسنگ سٹیٹ میں لگی، جس میں دو ہزار اپارٹمنٹس ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس نے جمعرات کی صبح کہا کہ تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر شبہ ہے کہ مرمت کے کام کے دوران چھوڑا گیا آتش گیر مواد آگ کے ’بے قابو ہو کر تیزی سے پھیلنے‘ کا سبب بنا۔
افسران نے جمعرات کی صبح ایک الگ علاقے میں چھاپہ مار کر متعلقہ تین گرفتار افراد کی دستاویزات قبضے میں لے لیں، جن پر پولیس کا شبہ ہے کہ انہوں نے آگ کے مقام پر فوم پیکجنگ چھوڑ کر ’غیر محتاط رویہ‘ اپنایا۔
جمعرات کی صبح اے ایف پی کے رپورٹر نے دیکھا کہ کچھ فلیٹس میں اب بھی آگ لگی ہوئی تھی، تاہم شعلے صبح کے ابتدائی گھنٹوں میں کافی حد تک کم ہو گئے تھے۔
شدید آگ پہلے بدھ کو وونگ فک کورٹ کے کئی 31 منزلہ اپارٹمنٹس میں بانس سے بنائے گئے تعمیراتی سٹرکچر کو لگی، جو شمالی ضلع تائی پو میں واقع ہیں اور اس وقت سٹیٹ کی مرمت کا کام جاری تھا۔
ایک اے ایف پی رپورٹر نے بانس کے جلنے کی وجہ سے کڑکنے کی زوردار آوازیں سنیں اور عمارتوں سے اٹھتے گھنے دھوئیں کے بادل دیکھے۔
65 سالہ رہائشی یوین نے کہا کہ وہ اس کمپلیکس میں چار دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں اور ان کے کئی پڑوسی بزرگ ہیں، جو شاید خود چل پھر نہیں سکتے۔
یوین نے اے ایف پی کو بتایا: ’کھڑکیاں مرمت کی وجہ سے بند تھیں، (کچھ لوگوں کو) معلوم نہیں تھا کہ آگ لگی ہے اور پڑوسیوں نے فون کے ذریعے انہیں انخلا کا بتایا۔ میں تباہ ہو گیا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہانگ کانگ کے فائر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق جمعرات کی صبح اموات کی تعداد 44 تک بڑھ گئی۔
فائر سروس کے ڈائریکٹر اینڈی یانگ کے مطابق جان سے جانے والوں میں ایک 37 سالہ فائر فائٹر بھی شامل تھا، جنہیں ساتھیوں سے رابطہ منقطع ہو جانے کے آدھے گھنٹے بعد جھلسی ہوئی حالت میں پایا گیا۔
حکومت کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ 56 افراد ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، جن میں سے 16 کی حالت انتہائی تشویش ناک، 24 کی حالت نازک اور 16 مستحکم ہیں۔
شہر کے سربراہ جان لی نے جمعرات کی صبح بتایا کہ 279 افراد لاپتہ ہیں، تاہم بعد میں فائرفائٹرز نے کہا کہ کچھ لوگوں سے رابطہ قائم کر لیا گیا ہے۔
جان لی نے کہا کہ 900 سے زیادہ افراد عارضی پناہ گاہوں میں پناہ لے چکے ہیں۔
’لوگوں تک رسائی ممکن نہیں‘
عارضی پناہ گاہ میں تعینات ایک پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ واضح نہیں کہ کتنے لوگ لاپتہ ہیں کیونکہ رہائشی رات دیر تک اپنے لاپتہ اہلِ خانہ کی اطلاع دینے پہنچ رہے تھے۔
فائر سروس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیرک آرمسٹرانگ چان نے کہا: ’درجہ حرارت بہت زیادہ ہے اور کچھ منزلوں پر ہم ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکے جو مدد طلب کر رہے تھے، لیکن ہم کوشش جاری رکھیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ آگ ممکنہ طور پر ہوا اور اڑتے ملبے کی وجہ سے ایک عمارت سے دوسری عمارت تک پھیلی، تاہم حکام اس کی وجوہات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
ریاستی میڈیا کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے ’فرض کی انجام دہی کے دوران مرنے والے فائر فائٹر‘ سمیت جان سے جانے والوں کے لیے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’انتہائی افسردہ‘ ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ہانگ کانگ میں آتشزدگی کے واقعے میں قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری دلی تعزیت محترم صدر شی جن پنگ اور چینی قوم، خاص طور پر ہانگ کانگ کے عوام کے ساتھ ہے۔‘
وزیراعظم آفس سے جاری کیے گئے بیان میں شہباز شریف نے کہا: ’ہمارے دعائیں جان سے جانے والوں کے اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔‘
’چھوڑنے کی ہمت نہیں‘
تائی پو کے رہائشی 57 سالہ سو نے کہا کہ آگ ’دل دہلا دینے والی‘ تھی۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’پراپرٹی کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ ہر شخص، چاہے بوڑھا ہو یا جوان، محفوظ واپس آئے۔‘
ایک اپارٹمنٹ کے 40 سالہ مالک نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ آگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کی مدد کرے۔
انہوں نے کہا: ’آگ ابھی قابو میں نہیں آئی اور میں (وہاں) جانے کی ہمت نہیں کر رہا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔‘
مقامی میڈیا نے اطلاع دی کہ آس پاس کی عمارتیں بھی خالی کی جا رہی ہیں۔ جبکہ قریبی سڑک کے کچھ حصے بھی آگ بھجانے کی کارروائی کے دوران بند کر دیے گئے۔