سیلاب کو گزرے کئی ہفتے بیت گئے لیکن پنجاب کے علاقے علی پور کے کسانوں کے مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، جن کا سب سے بڑا مسئلہ زمینوں کے نشانات مٹ جانے کا ہے۔
پاکستان میں چند ہفتے قبل ختم ہونے والے مون سون سیزن میں بارشوں کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے اضلاع مظفرگڑھ، ملتان اور رحیم یار خان کے پیشتر علاقے ہیڈ پنجند سے گزرنے والے بڑے سیلابی ریلے سے شدید متاثر ہوئے۔
مظفرگڑھ میں سب سے زیادہ نقصان علی پور شہر کو ہوا، جہاں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے متاثرین میں امدادی سامان بھی تقسیم کیا تھا۔
سیلاب کا پانی اترنے کے بعد علی پور میں کسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ زمینوں کے نشانات مٹ جانے کا ہے۔
اس علاقے کے زمیندار اللہ دتا بوسن نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ زمینوں کے نشانات مٹ گئے ہیں۔ جہاں پہلے درخت یا کھالیاں تھیں، وہ سب ختم ہو گئے۔ اب ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ اپنی حد کہاں ہے اور دوسروں کی کہاں۔
’اگر اندازے سے ہل چلا دیں تو ڈر ہے کہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ دے کہ یہ میرا حصہ ہے، پھر جھگڑا کھڑا ہو جانا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’ہم نے آپس میں طے کیا ہے کہ جب تک محکمہ ریونیو دوبارہ پیمائش نہیں کرتا، پرانی یاد اور قدموں کے حساب سے زمین بانٹ لیں گے۔‘
انہوں نے اس نظام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے پہلے اندازہ لگایا جاتا تھا کہ ایک ایکڑ میں کتنے قدم پڑتے ہیں، اسی بنیاد پر ہم قدموں کے نشانات لگا کر عارضی کاشت شروع کر رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مزید تاخیر نہ ہو اور کچھ نقصان پورا ہو جائے۔‘
اللہ دتا بوسن کے مطابق: ’یہ وقتی حل ہے مگر اس کے باوجود تنازعات کا خطرہ باقی ہے کیونکہ کچھ علاقوں میں اس نوعیت کے جھگڑے پہلے خون خرابے تک جا چکے ہیں۔‘
موزہ پیر نور کے زمیندار نذر محمد پٹواری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پانی اترنے کے بعد جب ہم کھیتوں میں واپس آئے تو حیران رہ گئے۔ ہر طرف ریت ہی ریت ہے، زمین اب قابلِ کاشت نہیں رہی۔‘
انہوں نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا: ’پہلے یہ بڑی زرخیز تھی، اب ریتیلے ٹیلے ہیں۔ نہ ریت ہٹانے کے وسائل ہیں، نہ اتنا سرمایہ۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسی زمین پر کیا بوئیں۔‘
نذر محمد کا خیال تھا کہ حکومت اور خصوصاً زراعت زمینداروں کی رہنمائی کریں تو شاید یہاں کے کسان دوبارہ کھڑے ہو سکیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ محکمہ ریونیو کے عملے کے بغیر کسانوں کے لیے زمین کی دوبارہ حد بندی ممکن نہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
ایک اور مقامی زمیندار جاوید شبیر بربرا نمبردار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے اس علاقے کے زمینداروں کو بحالی پیکج میں شامل کیے جانے کی اپیل کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’زمینوں پر جمع ریت ہٹانے کے اقدامات کیے جائیں تاکہ ہم دوبارہ کاشت شروع کر سکیں۔ بصورت دیگر یہ زمینیں بیکار ہو جائیں گی اور ہمارا نقصان بڑھتا جائے گا، اس کام کے لیے بہت سرمایہ درکار ہے جو کہ عام کسان کے بس کی بات نہیں۔‘
ان مسائل پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے اسسٹنٹ کمشنر علی پور سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا: ’ہمیں علم ہے کہ متاثرہ کسان زمینوں کے نشانات مٹنے اور ریتیلے کھیتوں کے باعث مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
’فی الحال ہماری ترجیح سیلاب زدگان کی فوری بحالی، رہائش اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت ہے، تاہم ان مسائل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا رہا۔‘
انہوں نے امید دلائی کہ ’زمینوں کی نشاندہی اور کسانوں کی مدد کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ وہ دوبارہ اپنی زمینوں پر کاشت شروع کر سکیں۔‘