امریکہ میں دولت کی چمک دمک کے پیچھے چھپی غربت کی کہانی

دنیا امریکہ کو خوش حالی اور دولت کی علامت سمجھتی ہے، مگر اس ترقی یافتہ ملک کے اندر غربت، بے گھری اور طبقاتی تفاوت کی ایک خاموش داستان چھپی ہے۔

ایریزونا میں ایک بے گھر خاتون 13 ستمبر 2025 کو فینکس سکائی ہاربر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب فٹ پاتھ پر بیٹھی ہے (اے ایف پی)

لوگوں میں ایک عام تاثر تو یہ ہے کہ امریکہ دولت مند ملک ہے اور اس کے شہری خوش حال ہیں لیکن اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ امریکہ میں امیر اور غریب کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ یہاں امارت کا تو اظہار ہوتا ہے مگر غربت چھپی ہوئی رہتی ہے اور جب اسے سامنے لایا جاتا ہے تو عام لوگوں کو حیرت ہوتی ہے۔

جب مؤرخین نے عام لوگوں کی تاریخ لکھی تو کئی تاریخی مفروضے پاش پاش ہو گئے اور معاشرے کی طبقاتی تقسیم اور غریب لوگوں کی حالت زار اور اس کی حقیقت کو نمایاں کیا ہے۔

اس موضوع پر سٹیون پمپیر کی کتاب ‘A People’s History of Poverty in America’  میں غربت کے مختلف پہلوؤں کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ امریکہ میں غریبوں کا سب سے پہلا مسئلہ رہائش کا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کے لیے دو کمروں کے مکانات تعمیر کیے جاتے ہیں جہاں یہ کرائے پر رہتے ہیں۔ تنگ کمروں، گنجان آبادی، سڑک کے ارد گرد دکانیں اور ٹھیلوں کی وجہ سے یہاں ہر وقت شور و غل رہتا ہے۔

امریکہ میں ایسی آبادی کو ’گیٹو‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں رہائشیوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے اس لیے لوگ امداد باہمی کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آئرش، جرمن، اطالوی اور دوسرے ملکوں کے مہاجرین نے اپنی انجمنیں بنائی ہیں تاکہ بھوک، فاقے اور بے روزگاری کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے۔ جب کسی امریکی خاندان میں بہت زیادہ غربت ہو جائے تو وہ اپنا گھریلو سامان رہن رکھ کر وقتی طور پر گزارا کرتے ہیں۔

ریاست کی جانب سے خیراتی رہائشی منصوبہ عمل میں لایا گیا ہے۔ یہاں عام طور پر ان خاندانوں کو داخل کیا جاتا ہے جن کا کوئی پرسان حال اور نہ ہی ان کی کوئی غربت میں مدد کرنے کا سہارا ہو۔ ان مکانوں کی مجموعی حالت خراب ہوتی ہے۔ نہ صفائی کا انتظام ہوتا ہے، اور نہ ہی کھانے کے لیے مناسب غذا دی جاتی ہے۔ تنگ کمروں میں رہنے کی وجہ سے کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ علاج نہ ہونے کی صورت میں موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ بچوں کا شور و غل اور لوگوں کی آپس میں بحث و مباحثے کی وجہ سے سکون اور اطمینان نہیں ملتا ہے۔

خیراتی عمارتوں کے بعد غریبوں کو سستے ہوٹلوں میں رہائش دی جاتی ہے۔ یہاں بھی لوگوں کو بنیادی سہولتیں نہیں ملتیں۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کیروسین آئل کا لیمپ جلایا جاتا ہے۔

اس پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ غریبوں کی وقتی طور پر امداد کر دی جائے اور وہ روزگار تلاش کر کے یہاں سے منتقل ہو جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بے گھر لوگوں کا ایک مسئلہ اس وقت پیش آیا جب گاؤں، قصبوں اور چھوٹے شہروں سے بے روزگار نوجوان مزدوری کی تلاش میں نکلے اور آوارہ گردوں کا یہ گروہ جگہ جگہ نظر آنے لگے۔ چونکہ ان کے پاس نہ رہائش ہوتی تھی اور نہ کھانے کا کوئی ذریعہ اس لیے یہ لوگ گھر گھر جا کر کھانا مانگتے اور ایک رات گزارنے کی بھی التجا کرتے تھے۔

لوگ ان کی مدد کرتے تھے۔ خاص طور سے امریکی افریقی خاندان ان کو کھانا بھی دیتے تھے اور رات گزارنے کے لیے جگہ بھی۔ ان آوارہ اور بے گھر نوجوانوں کے علاوہ ایسے لوگ بھی تھے جن کا یا تو کاروبار ڈوب گیا تھا یا ملازمت جاتی رہی تھی۔ یہ رات کو پارکوں کے بینچوں اور فٹ پاتھوں پر سوتے تھے۔ صبح چریٹی کی جانب ان کو کھانا دیا جاتا تھا۔

ان آوارہ گردوں میں خواتین بھی شامل ہوتی تھیں جو اپنی حفاظت کے لیے مردانہ لباس پہن لیتی تھیں، یہ بھی جگہ جگہ گھروں سے کھانا لے کر کھاتی تھیں اور رات گزارتی تھیں۔

چرچ کی جانب سے بھی بے روزگاروں کو کھانا دیا جاتا تھا۔ مگر شرط یہ تھی کہ پہلے وہ پادری کا وعظ سنیں اور اتوار کو چرچ میں جا کر عبادت کریں۔

کچھ خیراتی انجمنوں کی جانب سے مہم چلائی گئی تھی کہ جو خاندان اپنے بچوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے انہیں آسودہ خاندان اپنائیں گے۔ اس سلسلے میں کئی دردناک واقعات سامنے آئے جب کسی لڑکی یا لڑکے کو اس کی ماں سے جدا کر دیا گیا۔

آوارہ گردوں میں ویت نام اور عراق کی جنگوں میں حصہ لینے والے سابق امریکی فوجی بھی تھے جنہیں پہلے گوداموں میں رکھا گیا اور ان کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کیا گیا۔ کافی وقت کے بعد ان کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش تو کی گئی مگر ان کی فوجی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا۔

جب لوگوں کو کچھ کھانے کو نہیں ملتا تھا تو وہ کوڑے دان سے پھینکی ہوئی خوراک تلاش کر کے کھا لیتے تھے یا جب ٹرک بچے ہوئے کھانے کو لا کر کسی جگہ پھینکتا تھا تو یہ اس میں سے تلاش کر کے کھانے والی چیزیں اٹھا کر استعمال کر لیتے تھے۔ ریستوران بھی  بچا ہوا کھانا لا کر فٹ پاتھ پر رکھتے تو یہ ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا تھا۔

بے روزگاری کو دور کرنے کا ایک طریقہ یہ نکالا گیا کہ افریقی اگر کوئی جرم کرتے تھے تو ان پر جرمانہ اور قید کی سزا ہوتی تھی۔ اگر یہ جرمانہ ادا نہیں کر سکتے تھے تو قید کی مدت بڑھا دی جاتی تھی۔ امریکی سرمایہ داروں نے قیدیوں کی اس حالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی جیل خانے قائم کیے۔

ان قیدیوں سے جیل کے مالک کھیتوں میں، فیکٹریوں میں اور تعمیراتی کاموں میں محنت و مشقت کے لیے کرائے پر دیتے تھے۔ اس طرح امریکیوں نے غلامی کے خاتمے کے بعد غلامی کی ایک نئی شکل دریافت کی۔ نجی جیلوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اور انہیں نئے مجرم قیدی بھی مل رہے تھے۔

امریکہ سے اس کی طاقت اور دولت کی فراوانی کے باوجود مفلسی کا خاتمہ نہیں ہوا، بلکہ موجودہ حالات میں مفلسی کی شرح بڑھ گئی ہے۔ بے گھر اور بے روزگار لوگوں کی تعداد جگہ جگہ خیرات مانگتی پھرتی ہے اور اپنی مفلسی کو ختم کرنے میں نا کام ہو گئی ہے۔

سرمایہ دارنہ نظام نے طبقاتی تقسیم کو بڑھا کر امیر و غریب کے درمیان دوری پیدا کر دی ہے جو انسانیت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ