کیا اے آئی ناول نگاروں کی جگہ لے لے گی؟

اکثر ناول نگاروں کا ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت ان کے کام کا ’مکمل خاتمہ‘ کر دے گی اور خوفناک سچ یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے وہ درست کہہ رہے ہیں۔

چار اپریل، 2017 کو بنگلور میں ایک تقریب کے دوارن ایک شخص مصنوعی ذہانت سے متعلق سائن بورڈ کے قریب سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

کیا مصنوعی ذہانت انسانیت کے مستقبل کے لیے مددگار ثابت ہو گی یا رکاوٹ؟ محض چند سالوں کے مختصر اور خوفناک عرصے میں یہ ایک عام تاثر بن چکا ہے کہ ’جنریٹو اے آئی‘ کی یلغار (اور یہ لفظ مبالغہ آرائی نہیں ہے) کی وجہ سے فکشن لکھنے والوں کا مستقبل تاریک ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق میں برطانیہ کے 258 شائع شدہ ناول نگاروں اور صنعت سے وابستہ 74 شخصیات سے سوالات کیے گئے۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ کا خیال ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ان کے کام کی جگہ مکمل طور پر لے لے گی۔ رومان، سنسنی خیزی اور جرائم کے موضوعات پر لکھنے والے مصنفین خود کو سب سے زیادہ خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔

یہ صرف چیٹ جی پی ٹی یا کلاڈ جیسی بڑی ایپلی کیشنز کا معاملہ نہیں ہے جو کہانی سنانے اور سننے کی اس لامتناہی انسانی بھوک کو مٹانے کی دھمکی دے رہی ہیں جو ہماری 5000 سالہ معلوم تاریخ میں کبھی کم نہیں ہوئی، اور شاید اس سے بھی کہیں زیادہ قدیم ہے۔

ناول لکھنے کے عمل کو خودکار بنانے کے لیے بنائی گئی ایپس میں ’سوڈو رائٹ‘ (Sudowrite) اور ’ناول کرافٹر‘ شامل ہیں جو خیالات کو ترتیب دینے اور ایڈیٹنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ جبکہ ’قِکس اے آئی‘ (Qyx AI) اور ’سکوئبلر‘ (Squibler) پوری کتابیں لکھنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، اور ’سپائنز‘ (Spines) ڈیزائن اور اشاعت کا کام کرتی ہے۔

اگر جارج اورویل کی 78 سال قبل ’1984‘ میں تصور کردہ ناول لکھنے والی مشینوں کا یہ حقیقی روپ مصنفین اور قارئین کو پریشان کرنے کے لیے کافی نہیں، تو روبوٹک تصنیف کی ایک اور گھٹیا اور خفیہ تہہ بھی موجود ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک جنون طاری ہے جو لوگوں کو پی ڈی ایف کی شکل میں مختصر نان فکشن کتابیں بنانے اور بیچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ کتابیں سیکنڈوں میں ایسے موضوعات پر ’تخلیق‘ کی جاتی ہیں جن کے بارے میں ’مصنف‘ کو نہ کوئی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی علم۔

اس دھوکے میں دلچسپی لینے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر کتاب ’لکھ‘ سکتے ہیں، اسے اسی دن آن لائن فروخت کے لیے پیش کر سکتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کما سکتے ہیں۔ اس کے لیے درکار واحد مہارت، جو آن لائن فراڈ سکھانے والے سکولوں سے چند پیسوں میں سیکھی جا سکتی ہے، وہ محدود تیکنیکی اور مارکیٹنگ کے حربے ہیں۔

درجن بھر نان فکشن کتابوں کے مصنف، ایک ایسے ناول پر کام کرنے والے جو یقیناً کبھی شائع نہیں ہو گا، اور 30 سالہ تجربہ رکھنے والے ٹیکنالوجی صحافی کے طور پر میرے پاس یہ ماننے کی ہزاروں وجوہات ہیں کہ یہ سب بکواس ہے۔

’جنریٹو اے آئی‘ حقیقی اور انسانی مصنفین کے لیے تحقیق کا ایک مفید آلہ ہے (کیمبرج کی تحقیق میں شامل ایک تہائی مصنفین نے اعتراف کیا کہ وہ اسے غیر تخلیقی تحقیقی کاموں کو تیز کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں)، لیکن یہ کبھی بھی خود سے کوئی تخلیقی اور اچھوتا خیال پیش کرنے کے قابل نہیں تھا اور نہ ہی ہوگا۔

تو مستقبل قریب میں ایسا کوئی وقت نہیں آنے والا جب آپ کا لیپ ٹاپ کسی سائنس فکشن کردار کی طرح آپ کو اپنے شاندار خیالات سنانا شروع کر دے۔ یہاں تک کہ اگلی نسل کی ’مصنوعی عمومی ذہانت ‘ (AGI)، جو شعور جیسی کیفیت کی نقل کر سکتی ہے، بھی موجودہ ڈیٹا کو ہی ایک لیس دار اور بظاہر معقول (اگرچہ خوفناک حد تک قابل یقین) شکل میں اگلنے تک محدود رہے گی۔

تاہم، اور یہ ایک بہت بڑا ’تاہم‘ ہے، یہاں ایک مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے حقیقت یہ ہے کہ لوگ غیر معیاری اور سطحی مواد کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ اور خطرے سے دوچار بہت سے مصنفین، فلم اور ٹی وی سکرین رائٹرز اور بلاگرز پہلے ہی روزی روٹی کے لیے ایسا ہی مواد تخلیق کر رہے ہیں۔

مجھے ’کانٹینٹ‘ کے اس نئے اور منحوس لفظ سے نفرت ہے، یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے خواب میں نہ دیکھنے پر اورویل خود کو کوستے، لیکن آج تحریری مواد کا ایک بڑا حصہ محض ”کانٹینٹ“ ہے۔ اگر آپ کا چہرہ ٹی وی پر آتا ہے، تو آپ جو بھی ردی (عرف کانٹینٹ) اگل سکتے ہیں، یا اپنے نام سے لکھوا سکتے ہیں، وہ شائع ہو جائے گا۔

اوسط درجے کی چیزوں کو ہر سطح پر بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ میں ایک انتہائی کامیاب ٹریول بلاگر کو فالو کرتا ہوں، صرف اس لیے کہ دیکھوں وہ کتنا بورنگ لکھ سکتا ہے۔ وہ اپنی مہم جوئیوں کے بارے میں اتنا روکھا لکھتا ہے کہ اس نے ہر جگہ کو غیر دلچسپ بنا کر میرے لاکھوں روپے بچا لیے ہیں۔

اسی طرح ویب سائٹس، کاروباری مواصلات، سیاست، اشتہارات، مذہبی خطبات اور یہاں تک کہ تعلیمی مقالوں میں بھی بہت سا تحریری مواد ایسا ہے جو محض جگہ بھرنے کے لیے ہوتا ہے اور جسے اے آئی بھی اتنی ہی آسانی سے لکھ سکتا ہے۔

چند سال پہلے، جب ’کانٹینٹ‘ کا لفظ عام نہیں ہوا تھا، مجھے ایک ٹیک کمپنی نے کچھ لکھنے کے لیے ہائر کیا۔ معاوضہ اچھا تھا، اور میں نے اس پر کافی محنت کی، اور کمپنی کو اپنی فیلڈ میں بہترین پروڈکٹ بنانے کا کریڈٹ بھی دیا۔ میں اتنا سمجھدار تھا کہ حقیقی صحافت جیسی کوئی چیز پیش نہ کروں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ ہفتوں بعد، جب میں چھٹیوں پر تھا، مجھے کمپنی کی طرف سے ایک غصے بھری کال موصول ہوئی کہ کام ویسا نہیں ہے جیسا چاہیے تھا۔ میں نے پوچھا، ”آپ کو خاص طور پر کیا چاہیے تھا؟“

انہوں نے کہا، ’کیا آپ اسے مزید پھیکا بنا سکتے ہیں؟ یہ پڑھنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ بس جگہ بھرنے کے لیے ہے۔‘

آج مجھے یقین ہے کہ وہ کسی انسانی منصف سے گریز کرتے اور اے آئی سے ہی مطلوبہ سطح کا روکھا پن مفت میں حاصل کر لیتے۔

زبان کی ایک اور نئی عادت، جیسے تحریر کو’کانٹینٹ‘ کہنا، یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں آپ فکر مند ہوں اسے ”ایمرجنسی“ قرار دے دیں۔ جنریٹو اے آئی کی بدولت، ہم ایک، ہممم۔۔۔ ’کانٹینٹ ایمرجنسی‘ میں ہیں۔

پچھلے ہفتے میری ملاقات ایک دوست سے ہوئی جو یونیورسٹی پروفیسر ہیں، اور وہ اپنے طلباء کے تحریری کام پر چیٹ جی پی ٹی کے اثرات کی شکایت کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا، ”دو سال پہلے تک، آپ ان کے مضامین پڑھتے تھے تو زیادہ تر ٹھیک ہوتے تھے، کچھ غیر معیاری، اور چند بہت شاندار۔ اچانک، وہ سب ’ٹھیک ٹھاک‘ ہو گئے ہیں۔ نہ کوئی بہت برا ہے نہ بہت اچھا۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ سب اے آئی سے اپنا کام کروا رہے ہیں۔“

پروفیسر کا حل یہ تھا کہ طلبہ کے لیے زبانی امتحانات پر زور دیا جائے، جہاں انہیں بول کر امتحان دینا ہو اور مشورے کے لیے کوئی بیرونی دماغ دستیاب نہ ہو۔

شاید ناولوں کا مستقبل ایک نئی ’زبانی روایت‘ میں پوشیدہ ہو، جہاں مصنفین ہمیں بغیر کسی سکرپٹ کے کہانی سنائیں؟

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ