جوں جوں کمزور امریکی معیشت لڑکھڑا رہی ہے، یہ خدشات کہ مصنوعی ذہانت کا بلبلہ آخرکار پھٹنے والا ہے، عالمی منڈیوں میں بڑے پیمانے پر گراوٹ کو جنم دے سکتے ہیں۔
دنیا کی منڈیوں پر خوف منڈلا رہا ہے۔ امریکی اقتصادی اعداد و شمار کا ایک مجموعہ آنے والا ہے ، جو حالیہ وفاقی حکومتی شٹ ڈاؤن کی وجہ سے تاخیر کا شکار تھا، اور سرمایہ کار گہری تشویش میں مبتلا ہیں کہ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے، بالخصوص جب امریکی معیشت کساد بازاری کے دہانے پر دکھائی دیتی ہے۔
اس تشویش کے درمیان کہ کہیں مصنوعی ذہانت کا بلبلہ پھٹنے ہی والا نہ ہو، ٹیکنالوجی سٹاکس کی عالمی سطح پر فروخت دیکھی گئی۔ امریکہ اور ایشیا میں سٹاکس کے تیزی سے گرنے کو بٹ کوائن نے مزید اجاگر کر دیا، جو حال ہی میں نئی بلندیوں پر پہنچا تھا، لیکن ایک ہی دن میں 28 فیصد گر کر سات ماہ کی کم ترین سطح پر آ گیا۔
وہ پرانا گھسا پٹا محاورہ، جب امریکہ چھینکتا ہے، تو باقی دنیا کو زکام ہو جاتا ہے، نومبر کی یخ بستہ ہوا میں گونج رہا ہے۔ یہ وہ چیز نہیں جو برطانیہ کی معیشت چلانے کے ذمہ دار لوگ سننا چاہیں گے، خاص طور پر جب وہ ٹیکس بڑھانے والے آئندہ بجٹ کے ساتھ ایک گہرے اقتصادی بھنور سے گزر رہے ہوں۔
امریکہ زور سے چھینک رہا ہے۔ یو ایس فیڈرل ریزرو بورڈ کے ایک رکن، کرسٹوفر والر نے لندن میں سوسائٹی آف پروفیشنل ایکانومسٹس کے سالانہ عشائیے میں اپنی تقریر میں یہ بات واضح کی۔
والر، جو شرح سود میں کمی کے دیرینہ حامی ہیں (جس کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے مہم چلائی ہے) اور فیڈ چیئر جیروم پاؤل کی جگہ لینے کے لیے ایک ممکنہ امیدوار ہیں، نے امریکہ میں آنے والی ’آنکھیں کھول دینے والی‘ کارپوریٹ چھانٹیوں کے بارے میں سخت انتباہ دیا۔
والر نے کہا، ’اس طرح کے اعلانات ابھی صرف واقعات کی حد تک ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ابتدائی بے روزگاری کے دعووں میں ابھی مکمل طور پر شامل نہ ہوئے ہوں۔‘ لیکن اگر وہ صحیح ہیں تو یہ جلد ہی شامل ہو جائیں گے۔
ان کا خیال ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے التوا میں ہونے کے باوجود، ان کے پاس اپنا نقطہ نظر قائم کرنے کے لیے کافی نجی اشارے موجود ہیں۔ بے روزگاری کے اعداد و شمار سے لے کر صارف کے گرتے ہوئے اعتماد تک، مستقبل کا منظرنامہ امید افزا نہیں ہے۔
امریکی معیشت کو فروغ دینے کے لیے شرحوں میں کمی کے لیے والر کا جوش ہر کسی میں مشترک نہیں ہے۔ اکتوبر میں افراط زر تین فیصد تک پہنچ گئی، جو جنوری کے بعد پہلی بار ہے، جو فیڈرل اوپن مارکیٹ کمیٹی میں شرح سود کے مخالفین کو متحرک کرنے کے لیے کافی ہے۔ والر کٹوتی کے حق میں ووٹ دیں گے، لیکن مارکیٹوں کو تشویش ہے کہ ان کی طرح کے نرم مزاج لوگ اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہیں کہ ان کی بات مانی جا سکے۔
ٹرمپ کے ٹیرف کا ابھی تک قیمتوں پر محدود اثر ہوا ہے۔ بیرون ملک سے خام مال، پرزہ جات، یا غیر ملکی مصنوعات پر انحصار کرنے والے امریکی کاروبار لاگت کو جذب کر رہے ہیں، لیکن صرف ایک حد تک۔
گوگل کے سی ای او سندر پچائی نے بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی کی جانب سے ’حد سے تجاوز‘ کرنے کا انتباہ دے کر جلتی پر تیل ڈالا ہے، اسے ابتدائی انٹرنیٹ کے دور سے تشبیہ دی جس کے نتیجے میں ڈاٹ کام کا بلبلہ پھٹا تھا۔ انہوں نے اے آئی بوم میں ’غیر معقولیت‘ کے خلاف خبردار کیا، جس میں اربوں ڈالر لگائے جا چکے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر مصنوعی ذہانت کا بلبلہ پھٹتا ہے، تو مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی کمپنی محفوظ رہے گی، ہم بھی شامل ہیں۔‘
ہو سکتا ہے کہ ہم شاید اس منظرنامے کے ابتدائی مراحل دیکھ رہے ہوں۔ اگر وہ صحیح ہیں، تو ہر طرف افراتفری ہو گی۔
ناگزیر فروخت وال سٹریٹ پر شروع ہوئی، ایشیا تک پھیلی، اور یورپ پہنچی، یہاں تک کہ لندن کی روایتی طور پر مستحکم مارکیٹ کو بھی ہلا کر رکھ دیا، جسے عام طور پر ٹیکنالوجی کی کم نمائش اور قابل اعتماد ڈیویڈنڈ ادا کرنے والی کمپنیوں کی وجہ سے ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا۔
امریکی معیشت نے پہلی سہ ماہی میں سکڑاؤ کے بعد دوسری سہ ماہی میں مضبوط کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہم تیسری سہ ماہی کے اعداد و شمار کا اب بھی انتظار کر رہے ہیں، جو شٹ ڈاؤن کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہیں، لیکن توقع ہے کہ اس میں سست روی آئے گی۔
کساد بازاری کے اہل قرار پانے کے لیے ایک معیشت کو مسلسل دو سہ ماہیوں میں خسارے کا ریکارڈ دکھانا ضروری ہے۔ اگرچہ امریکی تیسری سہ ماہی منفی ثابت ہو، تو چوتھی سہ ماہی میں سرکاری ملازمین کے کام پر واپس آنے سے بحالی ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم، اگر امریکہ سست روی کا شکار ہے تو تکنیکی تعریفوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہوں گے۔ چین، دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور ایک اہم حریف، بھی مشکلات سے دوچار ہے، جو شاید سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔
چینی حکومت کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کی بھروسے مندی اور شفافیت کے بارے میں، بشمول بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے، خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
سرکاری دعووں کے باوجود، یہ واضح ہے کہ چین فی الحال مشکلات کا شکار ہے، جو امریکہ کے ساتھ وقفے وقفے سے چلنے والی تجارتی جنگ اور اندرون ملک رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے مکمل بحران جیسے چیلنجز سے نمٹ رہا ہے، جہاں بینک ممکنہ ڈیفالٹس پر پریشان ہیں اور کسی تباہی سے بچنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ اس بات کا کوئی آسان حل نہیں ہو سکتا کہ قرضوں کو واپس بلایا جانا چاہیے یا نہیں۔
مسائل امریکہ سے کہیں زیادہ دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بٹ کوائن پھسل رہا ہے، اور برطانیہ میں (وزیرِ خزانہ) ریچل ریوز نے بظاہر انکم ٹیکس میں اضافے کو ملتوی کر دیا ہے، جو ان کی طرف سے محنت کش عوام پر بوجھ نہ ڈالنے کے انتخابی وعدے کا احترام ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ برطانیہ کی معیشت نسبتاً زیادہ لچکدار ہے۔
لیکن کیا یہ ایک عالمی بحران کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ ہمیں جلد ہی پتہ چل جائے گا۔ شائد نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent