کیا امریکہ اب ترقی پذیر ملک بن گیا ہے؟

جمہوریت اور معاشی برابری کے بارے میں اقوام متحدہ کی ایک درجہ بندی میں امریکہ کا نمبر 41 واں ہے اور کیوبا، سربیا، مالٹا اور لتھوانیا جیسے ملک اس سے اوپر ہیں۔

نیویارک میں ایک بےگھر شخص مدد کی اپیل کرتے ہوئے (اے ایف پی)

ایک عالمی درجہ بندی کے مطابق امریکہ ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ اس درجہ بندی میں جمہوریت اور عدم مساوات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

امریکہ بے شک اپنے آپ کو آزاد دنیا کا رہنما سمجھتا ہو مگر 2022 میں شائع ہونے والے ترقی کے اشاریے کے مطابق امریکہ ترقی کی درجہ بندی میں بہت نیچے ہے۔

اقوام متحدہ کے ’ادارہ برائے پائیدار ترقی‘ نے امریکہ کو عالمی درجہ بندی میں 41 ویں نمبر پر رکھا ہے اور یوں امریکہ اپنے پچھلے درجے یعنی 32 ویں درجے سے بھی نیچے آ گیا ہے۔ عالمی درجہ بندی کے اس معیار کے مطابق (یہ درجہ بندی 17 مختلف انواع و مقاصد پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر میں ماحولیات اور مساوات کو جانچا جاتا ہے)۔ امریکہ کی درجہ بندی کیوبا اور بلغاریہ کے درمیان ہے جو بلاشبہ ترقی پذیر ممالک ہیں۔ معروف معاشی جریدے ’اکانومسٹ‘ کے اشاریہ برائے جمہوریت کے مطابق اب امریکہ ’ناکام جمہوریتوں‘ کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

سیاسی تاریخ دان ہونے کے ناتے (میں نے امریکہ کی ادارہ جاتی ترقی پر تحقیق کی ہے) میری نظر میں یہ افسوس ناک درجہ بندی دو بڑے مسائل کا حتمی نتیجہ ہے۔ نسل پرستی نے بہت سے امریکیوں کو ایک فریب میں مبتلا کر رکھا ہے اور یوں وہ اپنے حفظان صحت، تعلیم، معاشی تحفظ اور صاف ماحولیات کے استحقاق سے محروم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو لاحق خطرات مزید بھیانک شکل اختیار کر رہے ہیں اور }امریکی استثنائیت‘ میں سرگردانی امریکہ کو ہر مخلصانہ تشخیص اور اصلاح سے دور کر رہی ہے۔

’ایک اور امریکہ‘

ادارہ برائے پائیدار ترقی کی درجہ بندی، ترقی کے روایتی معیارات سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں صرف دولت کی پیداوار جیسا معیار ہی پیش نظر نہیں ہوتا بلکہ عام لوگوں کے تجربات کو بھی جانچا اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا عام لوگوں کو صاف آب ہوا میسر ہے۔ سو جس قدر دیوہیکل امریکی معیشت اپنے نمبروں میں بڑھ رہی ہے، اس قدر دولت تک رسائی میں عدم مساوات زیادہ ہو رہی ہے۔

’جینی کوافیشنٹ‘ جیسے قابل قبول معیارات کے مطابق امریکہ میں پچھلے 30 برسوں کے دوران آمدنی میں عدم مساوات بڑھی ہے۔ تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی کے تخمینے کے مطابق امریکہ اور دیگر جی، سیون ممالک کے مابین دولت کا توازن بہت بڑھ گیا ہے۔

یہ نتائج امریکہ میں بنیادی امتیازات کے عکاس ہیں اور یہ امتیازات زیادہ تر سیاہ فام امریکیوں کی زندگیوں کا حصہ ہیں۔ غلامی کے خاتمے اور جم کرو قوانین کی منسوخی کے باوجود یہ امتیازات اسی طرح قائم چلے آتے ہیں۔ ڈبلیو ای بی ڈوبوا وہ پہلا مفکر ہے جس نے اس طرح کے عدم مساوات کو 1899 میں آشکار کیا۔ اس نے ’فلاڈیلفیا میں نیگرو‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں شمالی شہری علاقوں میں سیاہ فام افراد کی زندگی کا تجزیہ کیا۔ اگرچہ اسے خود سیاہ فاموں کے مابین بھی دولت اور منصب کی بنا پر عدم مساوات نظر آئی، مگر ڈوبوا نے دیکھا کہ سیاہ فام امریکی تو سفید فاموں کی رہائش گاہوں سے دور ایک الگ جہان میں زندگی بسر کر رہے ہیں، یعنی ’شہر کے اندر شہر ہے۔‘

ڈوبوا نے حد درجہ غربت، جرائم اور وسیع پیمانے پر ناخواندگی کا فلاڈیلفیا کے سیاہ فاموں میں سراغ لگایا اور یہ سب ناانصافی، محرومی اور انہیں الگ تھلگ کر دینے کی وجہ سے تھا، نہ کہ سیاہ فاموں کی اپنی خواہش اور صلاحیت کی بنیاد پر۔

نصف صدی سے زائد عرصے بعد ان ناانصافیوں کو مارٹن لوتھر کنگ نے اپنے مخصوص جوشِ خطابت کے ساتھ بیان کیا۔ اس نے اس عدم مساوات کو ہدف ملامت بناتے ہوئے بتایا کہ جہاں ایک اور امریکہ موجود ہے، یہیں امنگوں کی بلندیاں تھکاوٹ اور بیزاری کے دھندلکوں میں کھو گئی تھیں۔

اپنے دعوے کی وضاحت میں مارٹن لوتھر کنگ نے بہت سے ان عوامل کا حوالہ دیا جنہیں ڈوبوا نے اپنے تجزیے میں پیش کیا تھا۔ جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: مکانوں کی حالت، بنیادی سرمایہ، تعلیم، سماجی تفاعل، شرح خواندگی، صحت اور روزگار کے مسائل۔ ان تمام معیارات کے مطابق سیاہ فام، سفید فاموں سے بہت زیادہ بری حالت میں تھے لیکن جیسے کہ مارٹن لوتھر کنگ نے لکھا، ’مختلف پس منظر رکھنے والے اس دوسرے امریکہ میں موجود ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد ازاں ان مفکرین سے متاثرہ خیالات نمایاں طور پر 1962 میں ایک کتاب ’ایک اور امریکہ‘ میں بھی پیش کیے گئے۔ یہ کتاب سیاسی سائنس دان مائیکل ہیرنگٹن نے لکھی۔ وہ ایک ایسی جماعت کے بانی تھے جو جماعت بتدریج امریکہ میں جمہوری اشتراکیت کی بنیاد بنی۔ امریکی صدر جان۔ ایف کینیڈی کو مائیکل ہیرنگٹن کے افکار نے اس قدر پریشان کیا کہ انہیں ’غربت کے خاتمے کی جنگ‘ کا لائحۂ عمل دینا پڑا۔

کینیڈی کے جانشین لنڈن جانسن نے اس زبانی جمع خرچ والی جنگ کو جاری رکھا، لیکن دیہی علاقے اور شہروں کے الگ تھلگ محلے 20 ویں صدی کے نصف کے بعد وفاقی حکومت کی کوششوں کے باوجود بھی بدستور غریب کے غریب رہے۔ میری تحقیق کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دوران وفاقی حکومت نے نسل پرستی کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے انہیں برداشت کیا۔  

پالیسی سازی کے مختلف شعبوں میں سیاہ فاموں اور سفید فاموں کی نسلی بنیادوں پر علیحدگی کے حامی کانگریس میں موجود ڈیموکریٹوں کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے سوشل پالیسی ادھوری رہی۔

جنوبی ریاستوں کے ڈیموکریٹوں نے رپبلکنز کے ساتھ مل کر سب کے لیے صحت کی سہولیات اور مزدور یونینوں کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ وفاق کی جانب سے کی جانے والی توانا مداخلت کی تجاویز رد کر کے انہوں نے تعلیم اور عوامی صحت کی ناہموار وراثت چھوڑی۔

آج بہت برسوں بعد نسلی تعصب کی حامل ویلفیئر سٹیٹ کے اثرات بالکل سامنے آ چکے ہیں (اگرچہ ایک حد تک پوشیدہ ہیں) اور حفظانِ صحت کی ناکافی پالیسیاں عام امریکی کی اوسط متوقع عمر میں کمی کا باعث بن رہی ہیں۔

زوال پذیر جمہوریت

کسی بھی ملک کی ترقی کو جانچنے کے لیے کچھ اور معیارات بھی ہیں، جن میں سے چند ایک کے مطابق امریکہ اس وقت نسبتاً بہتر صورت حال میں ہے۔

امریکہ اقوام متحدہ کے ایک اور اشاریہ برائے ترقی میں 21 ویں نمبر پر آیا ہے۔ جس میں ادارہ برائے پائیدار ترقی کے مقابلے میں چند ایک عوامل کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ 64,765 ہزار اوسط آمدنی ہے اور 13.7 برس کی اوسط تعلیم ایسے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر امریکہ بہتر صورت حال میں ہے اور یوں امریکہ آسانی سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔

بہرحال امریکہ کی درجہ بندی ان معیارات کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہے، جن کے سیاسی نظام پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اکانومسٹ کے اشاریہ برائے جمہوریت میں امریکہ کو ’ناکام جمہوریتوں‘ کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور اس درجہ بندی کے مطابق امریکہ ایسٹونیا اور چلی کے مابین آتا ہے۔ یوں امریکہ مکمل جمہوریت سے نکل کر نیچے صرف اس وجہ سے آیا ہے کہ اس میں سیاسی کلچر مجروح ہو چکا ہے۔ ہر لمحہ بڑھتا ہوا یہ اختلاف ’سرخ‘ (جہاں رپبلکن پارٹی کا غلبہ ہے) اور ’نیلی‘ (جہاں ڈیموکریٹ پارٹی کا غلبہ ہے) ریاستوں کے جداگانہ راستوں میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اگرچہ اکانومسٹ کے تجزیے میں اس بات کو سراہا گیا ہے کہ کیسے بغاوت سے اٹے ماحول میں پر امن طور پر اقتدار منتقل ہوا لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ جنوری 2022 میں ایک استصواب رائے میں صرف 55 فیصد لوگوں نے یہ کہا کہ جو بائیڈن صاف شفاف طور پر 2022 کا الیکشن جیتے ہیں جبکہ صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

الیکشن کو رد کرنے کی تہہ میں یہ خوف پوشیدہ ہے کہ جن علاقوں میں رپبلکنز کا اقتدار ہے، وہاں الیکشن آفس کے حکام ایسے کسی بھی پولنگ ایجنٹ کو رد یا تبدیل کر سکتے ہیں جو آنے والے الیکشن میں رپبلکنز کا حامی نہ ہو اور یوں اس وجہ سے بھی امریکہ جمہوریت کے اشاریوں میں مزید عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔

عورتوں کو جدید تولیدی صحت تک رسائی کے حوالے سے بھی سرخ اور نیلی ریاستیں آپس میں بٹی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے امریکہ کی صنفی مساوات کی درجہ بندی متاثر ہوتی ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے اشاریہ برائے پائیدار ترقی کا ایک پہلو ہے۔

جب سے سپریم کورٹ نے ’رو بنام ویڈ‘ کے فیصلے کو کالعدم کیا ہے، تو جن علاقوں میں رپبلکن پارٹی کی حکومت ہے، اس نے وہاں نہایت بھونڈے پن سے اسقاط حمل کے خلاف قوانین نافذ یا پیش کیے ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس سے عورتوں کی زندگیوں کا خطرات لاحق ہیں۔

میرے خیال میں بنیادی عدم مساوات اور کمزور سیاسی پالیسیاں دو ایسی وجوہات ہیں جو جمہوریت سے رپبلکنز کے کمزور تعلق کی بنیاد ہیں اور یوں وہ امریکہ کے ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے حوالے سے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔

’امریکی استثنائیت‘

امریکہ مختلف عالمی درجہ بندیوں میں بری حالت میں ہے، یہ بات دکھانے کے لیے ضروری ہے کہ امریکی فکر ’استثنائیت‘ کو زیر بحث لایا جائے۔ یہ وہ سوچ ہے جس کے مطابق امریکی سمجھتے ہیں کہ وہ تمام دنیا سے برتر ہیں۔ دونوں جماعتیں ملک میں اور بیرون ملک اس کی ترویج کرتی آئی ہیں لیکن ’استثنائیت‘ سے رپبلکنز کو کچھ خاص سروکار رہا ہے۔ 2016 اور 2020 میں رپبلکنز پارٹی کے نیشنل پلیٹ فارم کی پہلی سطر ہی یہی تھی کہ ’ہم امریکی استثنائیت پر یقین رکھتے ہیں۔‘ اور یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس سے شہ پا کر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’حب الوطنی پر مبنی تعلیم‘ کو امریکی سکولوں میں واپس لانے کا وعدہ کیا۔

ریاست فلوریڈا میں رپبلکن گورنر ران ڈی سینٹس کی لابی انگ کے بعد ریاست کے تعلیمی بورڈ نے جولائی 2022 میں نصاب کے لیے ایسے معیارات مقرر کیے، جن کی جڑیں امریکی استثنائیت میں ہیں۔ اس کے تحت انہوں نے نسلی نظریہ پڑھانے پر پابندی لگا دی۔ یہ  تدریس کا وہ طریقۂ کار تھا جسے ڈبوا نے بہت عرصے پہلے بےنقاب کیا تھا۔

عمل کے بجائے کارکردگی کے کھوکھلے دعوے ہی ایک ایسی چیز ہیں جو امریکی استثنائیت کو عام امریکیوں کی زندگی میں اہم بنائے رکھتی ہے جس کے ذریعے انہیں قومی کامیابی کے ذائقے سےسرشار کیے رکھنا آسان ہو جاتا ہے چاہے اس کے مقابل دلائل وشواہد کا انبار ہی کیوں نہ ہو۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی اور اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا