امریکہ: سیاہ فام شہری کی ہلاکت میں فرد جرم عائد نہ کرنے پر مظاہرے

امریکہ کے شہر لوئی ویل میں سیاہ فام امریکی بریونا ٹیلر کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے مقدمے کے فیصلے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں دو پولیس اہلکار فائرنگ سے زخمی ہو گئے۔

فیصلے کے بعد ملک بھر میں مظاہرے دوبارہ شروع ہوگئے (اے ایف پی)

امریکہ کی ریاست کینٹکی کے شہر لوئی ویل میں سیاہ فام امریکی بریونا ٹیلر کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے مقدمے میں پولیس اہلکاروں پر فرد جرم عائد نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں دو پولیس اہلکار فائرنگ سے زخمی ہو گئے۔

لوئی ویل میٹرو پولیس ڈپارٹمنٹ کے چیف رابرٹ شرویڈر نے تصدیق کی ہے کہ شہر میں بدامنی کے دوران دو پولیس اہلکار آتشیں اسلحے سے زخمی ہوئے ہیں۔ دونوں اہلکار رات بھر سرجری میں رہے اور اب ان کی صورت حال مستحکم ہے۔ پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔

پولیس سربراہ شرویڈر کا کہنا تھا: 'میں اپنے اہلکاروں کی حفاظت کے حوالے سے بہت فکر مند ہوں۔'

یہ رپورٹس ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب شہر بھر میں مشتعل مظاہرین اور ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے مخصوص رائٹ پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کرنے اور آنسو گیس پھینکنے کی دھمکی دی۔

پولیس نے بریونا ٹیلر کی ہلاکت پر انصاف طلب کرنے کے لیے ہونے والے مظاہرے کو 'غیر قانونی اجتماع' قرار دیا۔

بدھ کو گرینڈ جیوری کی جانب سے دیے جانے والے فیصلے میں بریونا ٹیلر کی ہلاکت میں ملوث ایک پولیس اہلکار کے خلاف مقدمے میں وانٹن انڈینجرمنٹ (Wanton Endangerment) یعنی لا پرواہی سے کسی کی جان کو خطرے میں ڈالنے پر تین دفعات پر فرد جرم عائد کیا تھا جن میں سے کوئی ایک بھی بریونا ٹیلر کی ہلاکت سے متعلق نہیں تھا۔ جبکہ واقعے میں ملوث اہلکاروں پر کوئی فردجرم عائد نہیں کیا گیا۔

 

کچھ گھنٹے بعد ہی 26 سالہ سیاہ فام امریکی خاتون کی ہلاکت پر دیے جانے والے فیصلے کے خلاف احتجاج کے لیے اکٹھے ہونے والے افراد پر پولیس کی جانب سے پیپر بولز پھینکے جانے لگے۔

مسلح اہلکاروں کو مظاہرین کو دھکیلتے اور ان پر لاٹھیاں برساتے بھی دیکھا گیا۔ یہ مظاہرین بریونا ٹیلز کی 13 مارچ کو ہونے والی ہلاکت کے خلاف گذشتہ 120 دنوں سے کئی تعزیتی مارچ اور مظاہرے کر چکے تھے اور ان میں کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔

گرینڈ جیوری کے آنے والے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاستی اور مقامی پولیس حکام نے کینٹکی نیشنل گارڈ کو فعال کرتے ہوئے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا تھا۔ جبکہ مسلح گروہ شہر کی سڑکوں پر پولیس اور پراپرٹی کی حفاظت کے لیے گشت کرنا شروع ہو گئے تھے۔ رات نو بجے سے علاقے میں کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


کئی ہفتوں سے لوئی ویل کے جیفرسن سکوائر میں بریونا ٹیلر کی یاد میں روز رات کو تعزیتی تقریب بھی منعقد کی جاتی رہی ہے جہاں شرکا پھول، کارڈز اور پیغامات لکھ کر چھوڑ جاتے ہیں۔

اس تعزیتی تقریب میں پولیس تشدد کا نشانہ بننے والے باقی افراد کو بھی یاد کیا جاتا ہے جن میں ڈیوڈ میکاتی بھی شامل ہیں جنہیں جون میں ہونے والے مظاہروں کے دوران کینٹکی نیشنل گارڈ کی جانب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تقریب میں فوٹو گرافر ٹیلر گرتھ کو بھی یاد کیا جاتا ہے جو جون کے آخر میں اسی سکوائر پر قتل کر دیے گئے تھے۔

جب جیوری کی جانب سے فیصلہ سنایا گیا تو سکوائر پر موجود لوگ غم سے نڈھال ہو گئے۔ مظاہروں کے دوران ایک نعرہ جو ملکی سطح تک مشہور ہوا 'پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرو' جنہوں نے بریونا کو قتل کیا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ پولیس تشدد اور سیاہ فام امریکیوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ کیا جائے اور امریکی پولیس کے نظام میں اصلاحات لائی جائیں۔

واقعے کی رات بریونا ٹیلر اپنے بوائے فرینڈ کنیتھ واکر کے ساتھ بستر میں تھیں جب تین پولیس اہلکاوں بریٹ ہینکنسن، جوناتھن میٹنگلی اور مائلز کوسگرو نے ایک سرچ وارنٹ کی بنیاد پر ان کے اپارٹمنٹ کا دروازے پر دستک دینے کے بعد توڑ ڈالا تھا۔

واکر کے مطابق پولیس اہلکاروں نے گھر میں داخل ہونے کی اطلاع نہیں دی اور انہیں لگا کہ گھر میں کوئی چوری کی غرض سے گھس آیا ہے تو انہوں نے ایک فائر کیا جو پولیس اہلکار جوناتھن میٹنگلی کی ٹانگ پر لگا۔ جواب میں تمام پولیس اہلکاروں نے فائر کھول دیا۔ بریونا ٹیلر کو چھ گولیاں لگی تھیں۔

اب سابق پولیس اہلکار ہنکنسن کو اس وقت وانٹن انڈینجرمنٹ کی تین دفعات کا سامنا ہے۔ اگر انہیں سزا سنائی جاتی ہے تو انہیں پانچ سال جیل میں گزارنے ہوں گے۔

لوئی ویل کے عبوری پولیس سربراہ رابرٹ شرویڈر کے مطابق انہیں اس واقعے کے تین ماہ بعد عمارت میں 'لاپرواہی برتنے اور اندھا دھند' دس راؤنڈ فائر کرنے پر برخاست کر دیا گیا تھا۔

لیکن کینٹکی کے اٹارنی جنرل ڈینیل کیمرون کا بدھ کو کہنا تھا کہ پولیس اہلکار میٹنگلی اور کوسگرو کی جانب سے 'فائرنگ کا جواب دینا درست عمل تھا' کیونکہ واکر نے پہلے فائر کھولا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ وجہ انہیں پولیس اہلکاروں کے خلاف مجرمانہ کارروائی کرنے سے 'روکتی' ہے۔

امریکہ بھر میں اس فیصلے کے خلاف مظاہروں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ریاستی قانون ساز چارلس بوکر، جو ڈیوکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں بھی شامل تھے، کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے 'انصاف کو ناکامی' ہوئی ہے۔

انہوں نے کینٹکی کے گورنر اینڈی بیشیر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرس کے دوران کہا: 'اس واقعے نے ہمیں ویسے ہی مایوس کیا ہے جیسے ہم کئی نسلوں سے مایوس ہوتے رہے ہیں۔ ایک خاتون، ایک سیاہ فام خاتون کو ان کے گھر میں قتل کیا گیا اس ادارے کی جانب سے جس کو ان کی حفاظت اور خدمت کے لیے تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہ غلط ہے اور کوئی بھی چیز اس کو جائز ثابت نہیں کر سکتی۔'

گورنر نے مظاہرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ انہیں سنیں گے اور سمجھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے میں 'ایک شراکت کار کے طور پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں' لیکن انہوں نے انتباہ کیا کہ کچھ لوگ 'سڑکوں پر ہونے والے احتجاج' کو اپنے 'مقصد کے لیے استعمال' کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دنیا بھر کی نگاہیں لوئی ویل پر ہیں۔'

گورنر بیشیر نے اٹارنی جنرل سے مزید شفافیت اور معلومات کا مطالبہ بھی کیا ہے جس میں اس واقعے کی 'تمام معلومات' بشمول شواہد، حقائق اور بلیسٹک رپورٹس کو پبلک کرنا شامل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'سب کو اس سے آگاہ ہونا چاہیے۔ جو اس سے صدمے میں اور غصے میں ہیں انہیں زیادہ معلومات حاصل ہونی چاہییں۔'

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ