جارج فلائیڈ جو کہتے تھے کر دکھایا

جب جارج فلائید ہیوسٹن میں نوجوانی میں قدم رکھ رہے تھے تو وہ اپنے دوستوں سے کہتے تھے کہ وہ اس دنیا کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور آج جب ان کی لاش آبائی شہر پہنچی تو بلاشبہ انہوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

ہیوسٹن کے فاؤنٹن  آف پریز چرچ میں جارج فلایئڈ کو الوداع کہنے ہزاروں لوگ آئے۔ (اے ایف پی)

جب جارج فلائید ہیوسٹن میں نوجوانی میں قدم رکھ رہے تھے تو وہ اپنے دوستوں سے کہتے تھے کہ وہ اس دنیا کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور آج جب ان کی لاش آبائی شہر پہنچی تو بلاشبہ انہوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

ان کے نام کی گونج لندن اور پیرس کی گلیوں میں سنائی دے رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ شام کے تباہ حال شہروں کی دیواروں پر ان کے چہرے کی تصاویر کندہ ہیں۔

لاکھوں افراد نے امریکہ کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں ان کی یاد میں نکالی گئی ریلیوں میں شرکت کی۔ دنیا بھر میں جارج فلائیڈ کا غم منایا گیا لیکن آج اس شہر کی باری تھی جہاں کی گلیوں میں وہ بڑے ہوئے تھے۔ 

فلائیڈ کے 37 سالہ دوست رحیم سمتھ کا کہنا تھا: 'جارج کو آج اس تابوت میں دیکھ کر ایسا لگا جیسے کسی نے میرے سینے میں خنجر پیوست کر دیا ہو کیوں کہ انہیں ابھی مرنا نہیں تھا۔'

'انہیں (پولیس کو) اسے چھوڑ دینا چاہیے تھا جب وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے سانس نہیں آ رہا، پلیز مجھے چھوڑ دو۔ ماما، اس نے دو بار اپنی والدہ کو پکارا تھا جو دو برس قبل ہی گزر گئی تھیں۔'

انہوں نے مزید کہا: 'ان کی موت وہ تنکا تھی جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی تھی۔ انہوں نے ہمارے احتجاج پر اس وقت بھی کان نہیں دھرے جب انہوں نے ایرک گانر کو قتل کیا تھا۔ انہوں نے اس وقت بھی ہمارے احتجاج کو نظر انداز کر دیا تھا جب انہوں نے فلینڈو کلسٹیل کو قتل کیا تھا، ٹیمر رائس اور ٹرائیون مارٹن کو بھی۔'

سمتھ ان ہزاروں افراد میں شامل تھے جو پیر کے روز ہیوسٹن کی سخت دھوپ میں ایک پُرجوش عوامی تعزیتی تقریب کے دوران فلائیڈ کو الوداع کہنے کے لیے لمبی لائنوں میں کھڑے تھے۔

نوجوان اور بوڑھے، سیاہ فام، سفید فام، امیر اور غریب سب ایک ایسے شخص کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے جن کی موت نے نسلی انصاف کے لیے ملک میں اب تک کے سب سے بڑے مظاہروں کو جنم دیا۔ بہت سے لوگوں نے تاریخ کے ہاتھ کو اپنے کندھوں پر محسوس کیا۔

اپنے دو نوعمر بچوں کے ساتھ تقریب میں موجود 41 سالہ ایبونی رینڈل کا کہنا تھا: 'ماحول میں جوش و ولولہ ہے۔ ماحول یکسر بدل گیا ہے۔ میرے خیال میں لوگوں کو احساس ہو گیا ہے کہ یہ اس طرح نہیں چل سکتا۔'
انہوں نے مزید کہا: 'میں سیاہ فام ہوں. جارج فلائیڈ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ میرے یا میرے بچوں کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔ ان کا یہاں موجود ہونا اہم ہے۔ میں اپنے بچوں کو یہ سکھانا چاہتی ہوں کہ کس طرح باعزت طریقے سے احتجاج کیا جا سکتا ہے اور اپنے حقوق کے لیے کس طرح کھڑا ہونا ہے۔ انہیں تاریخ کا اس بہتر سبق حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔'

56 سالہ کینیتھ بیٹی بھی اپنے چھوٹے بیٹے اور بھتیجے کو اس تقریب میں اپنے ساتھ لائے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر کہا: 'میں آج اس تابوت کو اپنی یادداشت میں نقش کرنے کے لیے یہاں آنا چاہتا تھا۔ مجھے اسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔'

46 سالہ فلائیڈ کو دو ہفتے قبل مینیاپولیس کے ایک پولیس افسر نے قتل کیا تھا۔ ڈریک چوون نامی افسر نے آٹھ منٹ سے زیادہ وقت کے لیے فلائیڈ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھے رکھا جب کہ ان کے ساتھی وہاں کھڑے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے تھے۔ فلائیڈ ان افسر سے مستقل درخواست کرتے رہے کہ وہ مر رہے ہیں۔ 'میں سانس نہیں لے سکتا' یہ جملہ پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج کے دوران مظاہرین کی آواز بن گیا ہے۔

ان کی موت سے دنیا میں چند ہی جگہیں ایسی ہوں گی جہاں ہیوسٹن جیسا پرجوش ماحول دیکھنے کو ملا ہو، شہر بدل گیا ہے۔ سینکڑوں سالوں کی نسلی عدم مساوات کا سامنا کرنے والے تمام سیاہ فام امریکیوں اور فلائیڈ  کو انصاف کی فراہمی کے مطالبہ کے لیے گذشتہ ہفتے 60 ہزار سے زیادہ مظاہرین نے شہر میں پر امن مارچ کیا۔

شمالی کیرولائنا جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور مینیاپولیس جہاں انہیں ہلاک کیا گیا تھا میں بھی میموریل سروسز منعقد کی گئیں لیکن یہ ہیوسٹن ہی تھا جو 'بگ فلائیڈ' کو سب سے بہتر جانتا تھا۔

فلائیڈ کی پرورش ہیوسٹن کے تھرڈ وارڈ میں ہوئی تھی۔ شہر کے جنوب میں واقع یہ علاقہ تاریخی طور پر سیاہ فام کمیونٹیز کا مسکن رہا ہے۔ یہ علاقہ کبھی بال رومز اور بلوز کلبز اور متوسط طبقے کا محلہ سمجھا جاتا تھا۔

فلائیڈ جہاں رہتے تھے وہاں سے صرف چند بلاکس دور اس جگہ پر ایک مارکر موجود ہے جہاں مایہ ناز بلوزمین لائٹنن ہاپکنز اپنا گٹار بجاتے تھے۔ 1950 کی دہائی میں یہاں کے دولت مند رہائشیوں نے اپنے کاروبار کے ساتھ شہر کے مضافاتی علاقوں کا رخ کر لیا اور وارڈ پیچھے رہ گیا اور غربت کا گڑھ بن گیا۔

بیٹی کا کہنا تھا: 'یہ ایک بہت قابل فخر برادری ہے۔ وہاں سے لوگ یونیورسٹی کے پروفیسرز بھی بنے اور ایسے لوگ بھی تھے جو بہت غریب تھے۔

آج  یہ وارڈ دبل رہا ہے، یہاں زیادہ آمدنی والے افراد نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود اب بھی یہاں کے تقریباً 42 فیصد رہائشی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

کنی ہومز پروجیکٹس جہاں فلائیڈ پروان چڑھے، شہر کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ کم آمدنی والے اس علاقے میں لگ بھگ 70 فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔

فلائیڈ کے آخری دیدار کے لیے قطار میں کھڑی 76 سالہ ریٹائرڈ نرس کلاڈیا بلیکمور کا کہنا تھا: 'وہ اسے شہر کا پیندا کہتے تھے۔ یہاں زندگی بہت مشکل ہے۔'

فلائیڈ کی والدہ اپنے تین بچوں کے ساتھ اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد شمالی کیرولائنا سے یہاں منتقل ہوگئی تھیں۔ یہ خاندان غریب تھا لیکن فلائیڈ کا خواب تھا کہ وہ اس جگہ سے فرار ہوجائیں گے۔ وہ ایک باصلاحیت ایتھلیٹ تھے۔ انہوں نے امریکی فٹ بال اور باسکٹ بال دونوں میں ہائی سکول کی جانب سے نمائندگی کی تھی۔

جنوبی فلوریڈا کمیونٹی کالج میں باسکٹ بال سکالرشپ حاصل کرنے کے بعد وہ کالج پہنچنے والے اپنے خاندان کے پہلے شخص تھے۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن این بی اے میں کھیلنا چاہتے تھے لیکن اپنی پوری کوشش کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جب وہ 1995 میں ڈپلوما کے بغیر تھرڈ وارڈ واپس لوٹے تو معاملات بہت نیچے کی طرف گامزن ہوگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ سالوں سے زیادہ تر منشیات کے جرم میں جیل جاتے رہے۔ پھر 2007 میں انہیں ایک مہلک ہتھیار کے ذریعے ڈکیتی کے الزام میں قصوروار ٹھہرا گیا۔

فلائیڈ نے اپنی زندگی کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ مذہب اور برادری کا رخ کرتے ہوئے وہ چرچ کے مقامی ایونٹس میں مدد کرتے اور اپنے پڑوس کے چھوٹے بچوں کی رہنمائی کرتے۔ تھرڈ وارڈ میں چرچ کے عہدیداروں نے انہیں نیک اور خیال رکھنے والا شخص قرار دیا۔

پھر بھی انہوں نے نشے سے نبرد آزما ہونے اور خود کو بہتر بنانے اور ایک نئی شروعات کے لیے ہیوسٹن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

مینیاپولیس منتقل ہونے کا اقدام ان کی زندگی کو پلٹانے کی کوشش تھی۔ تھرڈ وارڈ میں ایک چرچ نے فلائیڈ کو شہر میں منشیات کے ایک مرکز بھیجنے کی سفارش کی تھی جو ان کو کام تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتی۔

 

وہ مینیاپولیس میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کر رہے تھے جب انہیں 20 ڈالر کا جعلی نوٹ استعمال کرنے کے شبہے پر پولیس افسر چوون نے روک لیا۔

ان کی موت بہت سے دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں تھی جو ان سے پہلے ہلاک کر دیے گئے تھے۔ ایک اور نہتے سیاہ فام امریکی کو پولیس نے اس وقت ہلاک کر دیا جب کسی کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن یہ بہت سے واقعات میں سے ایک تھا۔

بیٹی کہتے ہیں: 'جب میں صبح 5 بجے اٹھا تو میں نے ان کے آخری الفاظ سنے۔ میں نے محسوس کیا جیسے کچھ بدل گیا ہے۔ یہ مختلف ہونے والا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کس طرح اس تحریک میں حصہ لوں گا لیکن میں تبدیلی کا حصہ بننا چاہتا تھا۔'

'میں تین بچوں کا دادا ہوں۔ یہ میری دعا ہے کہ انہیں کبھی بھی اس طرح کا احتجاج نہ کرنا پڑے۔'

انہوں نے مزید کہا: 'میری دادی اور دادا نے 1963 میں واشنگٹن کی سڑکوں پر مارچ کیا تھا- وہ چند سال قبل 103 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ نہیں چاہتیں ہوں گی کہ ان کے پوتوں کو بھی ایسا (احتجاج) کرنا پڑے۔ لیکن اس ہجوم کو دیکھ کر مجھے امید ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب اس (نسل پرستی) سے تنگ آ چکے ہیں۔ ایک شخص کو اس طرح سفاکانہ انداز میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے لیکن مجھے یقین ہے کہ اب تبدیلی آجائے گی۔'

ریٹائرڈ نرس بلیکمور نے کہا کہ وہ بھی (تبدیلی کے لیے) پرامید ہیں۔ وہ کہتی ہیں: 'دوسرے دن ہی میں مارچ میں تھیں اور یہ بہت مختلف تھا جس کے تمام شرکا پرعزم تھے۔'

'یہاں بہت غم و غصہ ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم کئی بار اس سے گزر چکے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے اس بار یہ مختلف ہے۔'

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ