دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج بہت بڑی اصلاحات کی تیاری کر رہی ہے جس کا مقصد ذات پات کی تقسیم اور فوج کے کیریئر کو زندگی بھر کے لیے ختم کرنا ہے۔
پہلی عالمی جنگ شروع ہونے کے چند ماہ بعد برطانیہ میں رائل پویلین کے بڑے بڑے ہال برطانوی فوج کے زخمی ہندوستانی فوجیوں کے علاج کے لیے ایک ہسپتال میں تبدیل ہو گئے۔
پویلین میں، جو کبھی جارج چہارم کا سمندر کنارے محل تھا، نئی دیواریں کھڑی کر دی گئیں جن کا مقصد ہندوستان کے سماجی نظام میں موجود گہری جڑوں والے تعصبات کا خیال رکھنا تھا۔
پویلین کے مختلف وارڈز تھے۔ آٹھ مختلف غذاؤں کے لے چھ الگ الگ باورچی خانے اور عبادات اور آخری رسومات کے لیے بھی جگہیں مختص تھیں۔ مختلف طبقات، مذاہب اور نسلوں کے زخمی فوجی اپنے مذہب اور ذات کے ڈاکٹروں اور نرسوں سے علاج کرواتے تھے جو کہ برطانوی ہندوستانی فوج میں طبقاتی تقسیم کی ایک واضح مثال تھی۔
ہندوستان میں اپنے 200 سالہ دور حکومت میں برطانوی استعمار نے سلطنت کی رعایا کو تقسیم کرنے اور اپنے دور حکومت کو طاقتور بنانے کے لیے موجودہ ذات پات کے نظام کے استعمال کو بڑھایا اور اس کی ضابطہ بندی کی۔ مثال کے طور پر فوج کی رجمنٹس طبقاتی اکائیوں پر مبنی تھیں جیسے کہ سکھوں اور گورکھوں کی رجمنٹس۔
یہ نظام 1947 میں انڈیا کی آزادی کے بعد بھی جاری رہا کیونکہ جہاں ذات پات کی تفریق کے بغیر نئی رجمنٹس تشکیل دی جانی تھیں وہیں فوج کی برانچوں اور رجمنٹس میں اصلاحات لانے کو بہت خطرناک سمجھا گیا جبکہ نوتشکیل شدہ ملک کو دشمن ہمسایوں کی جانب سے متعدد خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔
اب آزادی کے 75 سال بعد نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی تبدیلی کا اعلان کیا ہے جس میں یہ عہد بھی شامل ہے کہ ایک خاص وقت کے دوران دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج کی تمام رجمنٹس کو ’آل انڈیا، آل کلاس‘ بھرتیوں میں منتقل کیا جائے گا۔
حکومت نے فوج میں بھرتی کا منصوبہ پیش کیا ہے جسے ’اگنی پتھ‘ یا ’آگ کا راستہ‘ کا نام دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے ایک عمر رسیدہ لڑاکا قوت کو جدید بنایا جائے گا اور اسے دنیا کی دیگر سرکردہ افواج کے برابر لایا جائے گا۔
اس منصوبے سے عوام کے پیسے کی بچت بھی ہوگی اور فوج کی پنشن کی بڑھتی ہوئی لاگت سے بھی نمٹا جائے گا۔ زیادہ تر نئے بھرتی ہونے والوں کو صرف چار سال کے کنٹریکٹ پر رکھا جائے گا۔
جون میں اس اعلان کے بعد مظاہرے شروع ہوئے جو فسادات کی شکل اختیار کر گئے جس میں سرکاری املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا اور ایک جان کا نقصان بھی ہوا۔
اس بدامنی کی قیادت ان نوجوانوں نے کی تھی جو فوج میں جانے کے ’خواہاں‘ تھے۔ جن عمر فوج میں بھرتی کی تھی اور وہ فوج میں جانے کے’خواہش مند‘ بھی تھے اور جنہوں نے مسلح افواج میں ’کارپوریٹ کرایہ داری اور چھٹی‘ کا نظام متعارف کرانے کے خیال کے خلاف آواز اٹھائی۔
اگرچہ سب سے زیادہ توجہ قلیل مدتی معاہدوں میں تبدیلی کو ملی لیکن مسلح افواج کی برادری کے اندر اس بارے میں کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ انڈیا ایک ایسے وقت میں اپنی کور رجمنٹس کی شناخت کو کیسے ختم کر سکتا ہے جب اس کے پاکستان اور چین دونوں کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں۔
ہندوستان میں ذات پات انگریزوں نے ایجاد نہیں کی تھی اور ہندوستانی تاریخ کی کتابیں مرہٹوں کی رجمنٹس یا سکھوں کی بہادری کی کہانیوں سے بھری پڑی ہیں جنہوں نے حملہ آوروں کے خلاف جنگوں کی قیادت کی۔
نارتھمبریا یونیورسٹی میں برطانوی فوج کے مورخ ڈاکٹر سمراگھنی بونرجی بتاتے ہیں کہ ’جب برطانوی راج کو یہ معلوم ہوا کہ اس تفریق کو برقرار رکھنے سے برطانیہ مخالف جذبات کو روکا جا سکے گا تو ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران انہیں صرف باضابطہ اور منظم کیا گیا تھا۔‘
ڈاکٹر بونرجی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اُس وقت برطانوی فوج میں بھرتی کا عمل’مارشل ریس‘ کے بنیادی اصول پر ہوا تھا ’کہ ایک مخصوص خطے اور/یا ذات کے لوگ ہتھیار اٹھانے کی صلاحیت رکھتے تھے اور دوسرے نہیں تھے۔‘
برطانوی حکام نے رعایا کی درجہ بندی اپنی خیالی خصوصیات کی بنیاد پر کی۔ جو انتہائی صحت مند تھے وہ مسلح افواج میں شامل ہونے کے قابل تھے۔ اور جو زیادہ صحت مند نہیں تھے، ان کو انتظامی کاموں کے لیے رکھا گیا۔
ڈاکٹر بونرجی کا مؤقف ہے کہ برطانوی راج ان دقیانوسی تصورات کو فروغ دینے میں اتنے کامیاب رہا اور اس کا نتیجہ یہ رہا کہ آج تک بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ اس نظام میں خلل ڈالنے سے فوجی حوصلے اور ہم آہنگی پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ کیا اچانک ذات پات اور نسلی تفریق ختم کرنے سے گورکھا سپاہی کی ’جنگجو‘ شناخت بھی ختم نہیں ہو جائے گی؟ کیا وہ اب سکھ یا تامل یا بنگالی کے ساتھ کسی بھی رجمنٹ میں شامل ہونے کے لیے آزاد ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر بونرجی کہتی ہیں کہ ’(انڈین معاشرے میں) یکدم اس تعصب کے خاتمہ بنیادی مسئلے کو حل نہیں کرے گا بلکہ ایک ایسے نظام میں افراتفری پیدا کرے گا جو سینکڑوں سالوں سے تفریق پر قائم اور پروان چڑھ رہا ہے۔‘
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل جے ایس سوڈھی کہتے ہیں ’جو ٹوٹا نہیں ہے اسے ٹھیک مت کریں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ مذہب اور ذات کے لحاظ سے ریجیمنٹیشن ’بہت موثر اور کارآمد ثابت ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ نئی اصلاحات سے انڈیا کی کچھ مشہور رجمنٹس اور بٹالین کی فکسڈ ٹروپ کمپوزیشنز کا اثر پڑے گا جن میں مراٹھا لائٹ انفنٹری، راجپوت رجمنٹ، گورکھا رائفلز اور سکھ لائٹ انفنٹری شامل ہیں۔
یہ یونٹس فوج کی ریڑھ کی ہڈی اور وہ عنصر ہیں جو جنگ کی صورت میں کسی دشمن کے ساتھ سب پہلے براہ راست مقابلہ کرے گا۔
لیفٹیننٹ کرنل سوڈھی کا مؤقف ہے کہ ایسی ثابت شدہ اور اہم رجمنٹسں ’جن کو1947 کے بعد سے آج تک نہیں چھیڑا گیا، کے ساتھ چھیڑ چھاڑ‘ نہیں کرنی چاہیے۔
14 جون 2022 کو اگنی پتھ سکیم کا آغاز کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف منوج پانڈے نے کہا تھا کہ کلاس بیسڈ بھرتیاں ختم کرنے سے ’زیادہ بھرتیاں ہوں گی اور ملک بھر کے نوجوانوں کو اس سسٹم میں خدمت کے مساوی مواقع ملیں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’مجھے یقین ہے کہ ہمارا رجمنٹل نظام زیادہ سے زیادہ قومی پین انڈیا کردار کے ساتھ بنے گا۔ مستقبل میں بعض یونٹس اور رجمنٹس کا طبقاتی کردار جو آج مخلوط ساخت کا حامل ہے رفتہ رفتہ ایک آل انڈیا، آل کلاس ڈھانچے میں تبدیل ہونے کی توقع ہے۔‘
تاہم اس کے بعد ہونے والے مظاہروں کے دوران دفاعی قیادت کے متعدد بیانات سے ابہام کا احساس پیدا ہوا۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’آزادی سے پہلے کے دور سے موجود نظام اب بھی وہی ہے۔ کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ پرانے نظام کو جاری رکھا جا رہا ہے۔‘
وہ اس عمل کا ذکر کر رہے تھے جس میں امیدواروں کو اپنی ذات اور مذہب کی شناخت کے متعلق سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوتا ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ یہ معلومات فوجیوں کے مارے جانے پر آخری رسومات کو صحیح طریقے سے انجام دینے کے لیے لی جاتی ہے۔
سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے ایک سینیئر فیلو سوشانت سنہا کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کے گہرے نظام کے اندر اصلاحات کے نفاذ میں وضاحت کا فقدان ہے۔‘
ان کا کہنا ہے ’ایسا کرنے کا کیا جواز ہے؟ کیا خراب ہوگیا تھا جسے ہم یہاں ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ گذشتہ آٹھ سالوں کے دوران مودی اقتدار میں رہے ہیں، میں نے صرف فوج کی تعریفیں سنی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پرانے یونٹس کی ایک بڑی تعداد نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘
سوشانت سنہا نے کہا کہ ’(ان کی) اخلاقیات، کام کرنے کی اقدار، ایک خاص انداز میں ابھری ہیں۔ اب آپ بنیادی طور پر اسے منتقل کر رہے ہیں اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینک رہے ہیں۔ اب یہ دلیل نہیں دی جا سکتی کہ اکیسویں صدی میں تبدیلی بری ہے۔ اس طرح زیادہ تر جدید افواج کام کرتی ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کوئی متبادل منصوبہ دیا ہے جو قیادت، انتظام، آپریشنل صلاحیتوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک فوجی کی بنیادی شناخت میں درکار تبدیلیوں میں درکار ہے۔ کیا وہ بنیادی طور پر ایک پیشہ ور سپاہی ہے جو انڈین ہے، یا وہ سماجی ماحول کا حصہ ہے؟‘
وہ تجویز کرتے ہیں کہ مؤخر الذکر سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ اعزازی ضابطہ کا ایک کلیدی اصول ہے جس کی خواہش بہت سےانڈین فوجی ’نام، نمک اور نشان‘ (عزت، وفاداری اور شناخت) کی خواہش رکھتے ہیں۔
سماجیات اور انڈیا میں طبقاتی تقسیم سے متعلق کتابوں کے مصنف دلیپ منڈل ان سماجی انصاف کے کارکنوں میں شامل ہیں جنہوں نے طویل عرصے سے ایک جدید، سیکیولر ملک میں ذات پات پر مبنی رجمنٹس کے کردار پر بحث کی ہے۔
لیکن وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ مسلح افواج اور معاشرے کی حمایت اور شمولیت کے بغیر اتنی بڑی تبدیلی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے اور ریاست کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔
’لیکن یہ ایک عمل ہونا چاہئے نہ کہ فیصلہ۔ یہ مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ تبدیلی معاشرے کی بنیادوں سے ہونی چاہیے جو اب بھی بہت زیادہ تقسیم ہے۔ اس تبدیلی کا آغاز کرنا تکلیف دہ ہوسکتا ہے لیکن یہ ہونی چاہیے۔‘
© The Independent