وہ چار وجوہات جن کی وجہ سے ہندوستان کو آزادی ملی

ایک عام تاثر یہ ہے کہ برطانیہ سے ہندوستان کو آزادی اگر ملی ہے تو اس میں گاندھی کی عدم تشدد تحریک کا کردار بنیادی تھا۔ یہ تاثر کس حد تک درست ہے؟

مہاتما گاندھی اور قائداعظم کی 24 نومبر، 1939 کو دہلی میں ملاقات ہوئی تھی (پبلک ڈومین)

آزادی کے وقت برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ گاندھی کی تحریک کا ہندوستان کی آزادی میں مرکزی کردار تھا۔

کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پی بی چکرابرتی جو بنگال کے قائم مقام گورنر بھی رہے انہوں نے رمیش چندرا موجمدار کی کتاب ’اے ہسٹری آف بنگال‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’یہ کہنا غلط ہے کہ گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک کی وجہ سے انگریز برطانیہ چھوڑنے پر مجبور ہوا تھا۔ برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے اس وقت، جب میں قائم مقام گورنر تھا، انہوں نے اپنے دورہ انڈیا کے دوران دو دن گورنر ہاؤس میں قیام کیا تھا۔ اس وقت ہماری گفتگو اس موضوع پر ہوئی تھی کہ وہ وجوہات کون سی ہیں جن کی وجہ سے برطانیہ ہندوستان کو آزاد کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ میں نے ایٹلی سے پوچھا تھا کہ گاندھی کی ’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘ تو کمزور ہو گئی تھی لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ برطانیہ کو ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ عجلت میں کرنا پڑا ہے؟

’اس کے جواب میں ایٹلی نے کئی وجوہات گنوائیں جن میں سے سب سے اہم یہ تھی کہ ہندوستانی فوج میں تاج سے وفاداری کا عنصر سبھاش چندربوش کی بغاوت کی وجہ سے ختم ہو گیا تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ برطانیہ کے ہندوستان کو آزادی دینے کے فیصلے میں گاندھی کی ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک کا کتنا عمل دخل ہے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا، ’بہت تھوڑا۔‘

غیر جانبدار مبصرین بھی ہندوستان کی آزادی کے ڈانڈے دوسری عالمی جنگ میں تلاش کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان چار وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں جو برطانیہ کی ہندوستان سے جلد رخصتی کا باعث بنیں۔

 دوسری عالمی جنگ 

دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے نو آبادیاتی طاقتوں کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی تھی اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ چھ سالہ تباہ کن جنگ کے بعد وہ اتنی بڑی سلطنتوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھ سکیں کیونکہ ہر نوآبادی میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں، بالخصوص ہندوستان جس کی آبادی اس وقت 36 کروڑ تک پہنچ چکی تھی۔

اسی طرح ہندوستان چھوڑنے کی وجہ بھی برطانیہ کی معاشی دیوالیہ پن تھا۔ برطانیہ نے اس کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں بلکہ جاپان کو 1946، فلسطین کو 1947، سری لنکا اور برما کو 1948، مصر کو 1952 اور ملائشیا کو 1957 میں آزاد کر دیا تھا۔ انہی وجوہات کی بنا پر فرانس اور ہالینڈ نے بھی اپنی کالونیوں کو اسی عرصے میں آزاد کیا تھا۔ برطانوی وزیراعظم چرچل نے ہندوستان میں کرپس مشن کو ہندوستان بھیجا تھا تاکہ وہ ہندوستان کی آزادی کا کوئی ٹائم فریم مقرر کر سکیں اور آزادی کی تحریکوں کی بھی تشفی کر سکیں۔ اس طرح ہندوستان کی آزادی میں سب سے مضبوط فیکٹر ہٹلر تھا نہ کہ گاندھی۔

بڑھتی ہوئی قوم پرستی

ہندوستان کئی چھوٹی بڑی آزاد ریاستوں اور راجواڑوں پر مشتمل تھا جن میں سے کئی کی ایک دوسرے سے دشمنی تھی۔ شروع میں انگریز نے ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی اپنائی لیکن جب انگریز طاقتور ہو گیا تو وہ ریاستیں جو ایک دوسرے کے خلاف تھیں وہ انگریز کے خلاف متحد ہوتی چلی گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1857 کی جنگ آزادی نے ہندوستان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا تھا اور اب ہندوستان براہ راست تاج ِ برطانیہ کے ماتحت آ گیا تھا جس کے بعد آزادی پسندوں کی جانب سے قتل و غارت، بم دھماکے اور تشدد کے واقعات ہوتے رہتے تھے۔ 1905 میں وائسرائے لارڈ کرزن نے بنگال کو مشرقی اور مغربی بنگال میں تقسیم کر دیا تھا۔ مشرقی بنگال جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس کا دارالحکومت ڈھاکہ تھا، جبکہ ہندو اکثریتی اضلاع بہار اور اڑیسہ پر مشتمل مغربی بنگال کا دارالحکومت کلکتہ تھا۔

اس تقسیم کے خلاف ہندوستان میں بھرپور تحریک چلی، خون ریز مظاہرے ہوئے جس کی بنیاد پر چھ سال بعد انگریز اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو گیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں ہندوستان نے برطانیہ کی بھرپور مدد کی تھی جس کے بعد ہندوستان میں وہ آوازیں ابھرنے لگیں جو اس مدد کے بدلے زیادہ خود مختاری کا مطالبہ کر رہی تھیں جس کے جواب میں 1919 کا گورنمنٹ انڈیا ایکٹ پا س کیا گیا تھا جس میں انتظامی طور پر ہندوستانیوں کی شمولیت بڑھائی گئی تھی۔

انڈین نیشنل کانگریس

انڈین نیشنل کانگریس کا قیام 1885 میں کیا گیا تھا جس کا مقصد ہندوستانیوں کے لیے تعلیم اور حکومتی معاملات میں مواقع کو بڑھانا تھا اور ایک ایسے سیاسی پلیٹ فارم کو قائم کرنا تھا جہاں برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان سیاسی مکالمے کو فروغ دیا جا سکے۔

اگرچہ کانگریس آگے چل کر تقسیم کا شکار ہو گئی تاہم پہلے 20 سالوں میں اس نے تاج برطانیہ پر اپنی اہمیت ثبت کر دی تھی۔ 1930 کی دہائی تک گاندھی جیسے رہنماؤں کی قیادت میں پارٹی مذہبی، مسلکی اور نسلی اختلافات کے باوجود ایک مضبوط اور توانا آواز بن چکی تھی جو زیادہ سے زیادہ داخلی خود مختاری کی جدوجہد کر رہی تھی۔ 1937 میں ہندوستان میں پہلے انتخابات ہوئے جس میں انڈین نیشنل کانگریس اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی تھی جس کے بعد برطانیہ پر دباؤ بڑھا تھا کہ وہ ہندوستان کو مزید خودمختاری دے لیکن 1939 میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی اور یوں یہ کوششیں وقتی طور پر رک گئیں۔

گاندھی کی ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک

گاندھی انگریزی تعلیم سے بہرہ ور قانون دان تھے۔ ان کی عدم تشدد کی تحریک کی عوام میں بھرپور پذیرائی ہوئی تو وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی بن گئے۔ گاندھی نے دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کی جانب سے لڑنے پر ہندوستانی افواج کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ان فوجیوں کو آزادی اور استعمار کے نام پر مخالف ملکوں کے ساتھ لڑایا جا رہا ہے جو اپنے ملکوں میں غلام ہیں اور استعماریت کا شکار ہیں۔ اس بنیاد پر انہوں نے 1942 میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع کر دی اور برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد ہندوستان سے نکل جائے۔

اس بنیاد پر مظاہرے ہوئے اور جن میں تشدد کی بھی واقعات ہوئے لیکن زیادہ منظم تحریک نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک جلد ہی ٹھنڈی پڑ گئی۔ گاندھی کو کئی دوسرے رہنماؤں کے ساتھ جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد انگریزوں کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ وہ شاید لمبے عرصے تک ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط نہ رکھ سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ