تقسیم ہند: جب مولانا آزاد نے بھارتی مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا

مولانا ابوالکلام آزاد کی برسی کے موقعے پر خصوصی تحریر۔

مولانا آزاد نے صرف 12 سال کی عمر میں ایک منظوم جریدہ ’نیرنگ عالم‘ شائع کرنا شروع کیا تھا (پبلک ڈومین)

یہ 1947 کے ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان باضابطہ طور پر دو حصوں یعنی بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا تھا۔ تقسیم یا بٹوارے کی لکیر کے آر پار خون کی وحشت ناک ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ ہجرت کا ایک عجیب سا چلن چل پڑا تھا۔ کوئی جان و آبرو بچانے تو کوئی مذہب کی بنیاد پر ملک بدل رہا تھا۔

پھر بھی بھارت میں تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کی خاصی تعداد وہ تھی جو پاکستان جانا نہیں چاہتی تھی۔ ان میں سے ہزاروں افراد نے اپنی جان بچانے کی خاطر اندرون ملک محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کی تھی۔

انہی میں سے ایک بھارت کی ممتاز ماہر تعلیم، مصنفہ اور شاعرہ ساجدہ زیدی بھی ہیں جنہیں دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام کے پیش نظر قرول باغ میں اپنے مکان کو مقفل کر کے انڈین نیشنل کانگریس کے اس وقت کے مقبول ترین مسلمان رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کی رہائش گاہ میں پناہ لینا پڑی تھی۔

اس وقت کے حالات کے بارے میں وہ اپنی سوانح عمری ’نوائے زندگی‘ میں لکھتی ہیں: ’انسانوں کے دل اور دہلی کے در و دیوار کانپ اٹھے تھے۔ دہلی کی زمین سرخ اور آسمان سیاہ ہو گیا تھا۔ یہی حال پنجاب کا ہو رہا تھا۔ یہی اتر پردیش کا اور یہی بنگال کا۔ دہلی میں 24 گھنٹے کا کرفیو تھا، اس کے باوجود بلوائی اندرونی گلیوں میں مسلمانوں کا کشت و خون کر رہے تھے۔ لاشوں سے بھری گاڑیاں آ رہی تھیں اور جا رہی تھیں۔ انسانوں کی خوفناک ترین جبلت – ہلاکت، نفرت، تعصب، بربریت بے نقاب ہو رہی تھی۔ تہذیب کا پردہ چاک ہو رہا تھا۔ سیاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو چکا تھا۔‘

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب ’انڈیا ونز فریڈم‘ میں لکھتے ہیں: ’آزادی کے دوسرے ہی دن سے فرقہ وارانہ جھگڑوں کی خبریں راجدھانی (دہلی) پر گہری تاریکی پھیلانے لگی تھیں۔ یہ خبریں قتل اور موت اور بے رحمی کی تھیں۔

’یہ پتہ چلا تھا کہ مشرقی پنجاب میں ہندو اور سکھ ہجوم مسلمانوں کے دیہات پر حملہ آور ہوئے۔ وہ گھروں کو آگ لگا رہے ہیں اور بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔

’ایسی ہی خبریں مغربی پنجاب سے آئی تھیں۔ مسلمان بغیر کسی تفریق کے ہندو اور سکھ فرقے کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔ پورا پنجاب بربادی اور موت کا قبرستان بنتا جا رہا تھا۔

’جب مغربی پنجاب کی خوں ریزی کی خبریں دہلی پہنچیں تو سرکش لوگوں کا ہجوم شہر کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ دہلی میں ان قاتلانہ حملوں کو منظم کرنے میں سکھوں نے نمایاں حصہ لیا۔

’یرغمال بنانے اور انتقام لینے کے خطرناک اصول کی باتوں نے مجھے پریشان کیا تھا۔ اگر مغربی پنجاب کے مسلمان ہندوؤں اور سکھوں کے قتل کے قصوروار تھے تو اس کا کیا جواز ہے کہ بدلہ دہلی کے مسلمانوں سے لیا جائے؟

’یرغمال بنانے اور بدلہ لینے کا یہ اصول اتنا بہیمانہ تھا کہ کوئی بھی شائستہ یا ہوش مند انسان اس کی دفاع میں ایک لفظ نہیں کہہ سکتا۔

’خاص شہر سے قطع نظر مضافات مثلاً قرول باغ، لودی کالونی، سبزی منڈی اور صدر بازار کے علاقے تھے جن میں مسلمانوں کی بڑی آبادی تھی۔ ان تمام علاقوں میں جان اور مال اب محفوظ نہیں رہا تھا۔ نہ ہی موجودہ حالات میں مکمل فوجی حفاظت ممکن ہو سکتی تھی۔

’ایک مرحلے پر تو ان علاقوں میں صورت حال ایسی خراب ہو گئی کہ کوئی بھی مسلمان رات کو اس اعتماد کے ساتھ سو نہیں سکتا تھا کہ اگلی صبح وہ زندہ اٹھے گا۔

’لوٹ مار، قتل و غارت گری کے ان دنوں میں فوجی افسروں کو ساتھ لے کر میں نے دہلی کے مختلف حصوں کا دورہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان بالکل ہیبت زدہ تھے اور مکمل بے بسی کے ایک احساس میں مبتلا تھے۔

’بہتوں نے میرے گھر میں پناہ چاہی۔ شہر کے متمول اور معروف خاندان میرے پاس اس حال میں آئے کہ وہ بالکل قلاش تھے اور بدن کے کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں رہ گیا تھا۔

’کچھ کو دن کے اجالے میں آنے کا حوصلہ نہیں ہوا اور انہیں فوج کی حفاظت میں آدھی رات کو یا علی الصبح لایا گیا۔ جلد ہی میرا گھر بھر گیا اور میں نے کمپاؤنڈ میں خیمے لگوا دیے۔ ہر طرح کے اور ہر حال کے مرد اور عورتیں غریب، امیر، جوان اور بوڑھے۔ محض جان کے ڈر سے ایک ساتھ سمٹے سمٹائے پڑے تھے۔

’جلدی ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ نظم و ضبط کے قائم ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ان گھروں کی حفاظت ممکن نہیں تھی جو اکیلے پڑ گئے تھے۔ اگر ہم ایک علاقے میں پہرے داروں کا انتظام کرتے تو حملہ دوسرے علاقوں میں شروع کر دیا جاتا۔ اسی لیے ہم نے طے کیا کہ مسلمانوں کو یکجا کر کے حفاظتی کیمپوں میں پہنچا دینا چاہیے۔ ایک ایسا ہی کیمپ پرانے قلعے میں قائم کیا گیا۔

’اس میں کوئی عمارت بچی نہیں رہ گئی تھی۔ صرف برج باقی تھے۔ جلدی ہی یہ برج لوگوں سے بھر گئے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد قلعے میں جمع ہو گئی اور انہی برجوں میں تقریباً پوری سردیوں کے مہینے گزار دیے۔‘

ساجدہ زیدی اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ مولانا آزاد حالات کے مارے مسلمانوں کی راحت رسانی کے کاموں میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے: ’بےحد متفکر ۔۔۔۔ بےحد اداس ۔۔۔۔ اور جھنجھلائے ہوئے۔۔۔ تقسیم ہند اور اس کے بعد تمام تبادلۂ آبادی مولانا آزاد کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی۔ مولانا کی فراست نے انہیں آگاہ کر دیا تھا جس کا نتیجہ اس قتل و خون کی صورت میں ظاہر ہو رہا تھا۔‘

مولانا آزاد کی ’تاریخی تقریر‘

رشدہ شاہین یونیورسٹی آف حیدرآباد کے شعبہ اردو میں ’تقسیم ہند‘ کے موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی مقالہ لکھ رہی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ تقسیم ہند کے فوراً بعد پیدا ہونے والے اندوہناک حالات میں بھارت میں رہ جانے والے مسلمان انتہائی مایوسی و اداسی کا شکار ہو چکے تھے اور ان کی ایک بڑی تعداد اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے گھروں کو ترک کر کے حفاظتی کیمپوں میں ڈیرا ڈالنے پر مجبور ہو گئی تھی۔

’ان میں سے کچھ ایسے تھے جو پاکستان چلے جانے کے لیے ایک اچھے موقعے کا انتظار کر رہے تھے تاہم اکثریت وہ تھی جو ہجرت کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن اپنی قومی و سیاسی شناخت کھو جانے اور اپنے مستقبل کو لے کر بے حد متفکر تھی۔‘

رشدہ شاہین کہتی ہیں: ’ایسے حالات میں حسب توقع مولانا ابوالکلام آزاد نے سامنے آ کر نہ صرف بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے تحفظ اور دیکھ بھال کی ذمہ داری لی بلکہ اپنی تقریروں کے ذریعے ان کا حوصلہ بڑھایا اور ان میں خود اعتمادی پیدا کی۔

’اس خونی ماحول میں مسلمانوں کی دل جوئی کرنے اور فضا کو خوشگوار بنانے میں کئی دوسری شخصیات بھی برسر پیکار تھیں، تاہم مولانا آزاد نے ایک اہم قائدانہ کردار ادا کیا۔

’مولانا نے 23 اکتوبر 1947 کو دہلی کی تاریخی جامع مسجد کی فصیل سے ایک تاریخی تقریر کی، جس کی بدولت تقسیم کے سانحہ اور قتل و غارت گری سے پریشان بھارتی مسلمانوں میں اپنے وطن اور مٹی سے جڑے رہنے کی ہمت پیدا ہوئی۔‘

ظفر احمد نظامی اپنی کتاب ’مولانا آزاد کی کہانی‘ میں لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد کی جامع مسجد دہلی میں کی گئی ’تاریخی تقریر‘ نے مسلمانوں کو اس قدر متاثر کیا کہ بھارت چھوڑ کر جانے والے بہت سے لوگوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔

’ہندوستان چھوڑ کر چلے جانے کا منصوبہ بنانے والے یہیں رہنے اور بسنے پر تیار ہو گئے۔ بندھے ہوئے بستر کھل گئے اور لوگوں کے بھاگتے ہوئے قدم ٹھہر گئے۔‘

’تاریخی تقریر‘ کے چیدہ چیدہ اقتباسات

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مولانا آزاد، تقسیم ہند یا تحریک آزادی پر اردو میں لکھی گئی اکثر کتابوں میں اس تقریر کو اصل ماخذ کے کریڈٹ کے بغیر ہوبہو نقل کیا گیا ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد چوں کہ ’دو قومی نظریہ‘ کے سخت مخالف تھے لہٰذا انہوں نے جامع مسجد دہلی میں اپنی تقریر کا آغاز ’مسلمانوں کی سیاسی غلطیوں‘ کی نشاندہی کرنے سے کیا تھا۔

’آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میرے لیے شاہ جہاں کی اس یادگار مسجد میں یہ اجتماع کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میں نے اس زمانہ میں، جس پر لیل و نہار کی بہت سے گردشیں بیت چکی ہیں، تمہیں یہیں سے خطاب کیا تھا۔ جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائے اطمینان تھا اور تمہارے دلوں میں شک کی بجائے اعتماد۔ آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔

’تمہیں یاد ہے، میں نے تمہیں پکارا، تم نے میری زبان کاٹ لی، میں نے قلم اٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دیے۔ میں نے کروٹ لینی چاہی تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتیٰ کہ پچھلے سات برس کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغ جدائی دے گئی ہے اس کے عہد شباب میں بھی میں نے تمہیں خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا، لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف احتراز کیا بلکہ غفلت و انکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج انہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صراط مستقیم سے دور لے گیا تھا۔

’میرا احساس زخمی اور میرے دل کو صدمہ ہے۔ سوچو تو سہی، تم نے کون سی راہ اختیار کی؟ کہاں پہنچے اور اب کہاں کھڑے ہو؟ کیا یہ خوف کی زندگی نہیں؟ کیا تمہارے حواس میں اختلال نہیں آ گیا ہے؟ یہ خوف تم نے خود ہی فراہم کیا ہے۔ یہ تمہارے اپنے اعمال کے پھل ہیں۔

’ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا جب میں نے تم سے کہا تھا کہ دو قوموں کا نظریہ حیات معنوی کے لیے مرض الموت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کو چھوڑ دو۔ یہ ستون جن پر تم نے بھروسہ کیا ہے۔ نہایت تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں۔ لیکن تم نے سنی ان سنی برابر کر دی اور یہ نہ سوچا کہ وقت اور اس کی تیز رفتار تمہارے لیے اپنا ضابطہ تبدیل نہیں کر سکتے۔

’وقت کی رفتار تھمی نہیں، تم دیکھ رہے ہو کہ جن سہاروں پر تمہیں بھروسہ تھا وہ تمہیں لاوارث سمجھ کر تقدیر کے حوالے کر گئے۔ وہ تقدیر جو تمہارے دماغی لغت کی منشا سے مختلف مفہوم رکھتی ہے یعنی ان کے نزدیک فقدان ہمت کا نام تقدیر ہے۔ میں نے ہمیشہ سیاست کو ذاتیات سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے، میں نے اس پُرخار وادی میں قدم نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ میری بہت سی باتیں کنایوں کا پہلو لیے ہوتی ہیں۔ لیکن مجھے آج جو کہنا ہے اسے بے روک ہو کر کہنا چاہتا ہوں، متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ بنیادی طور پر غلط تھا۔‘

مولانا نے اپنی اس تقریر میں بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ’مسلم لیگ اور اس کے رہنماؤں‘ کی سیاست کو ماضی سمجھ کر تبدیلیوں کے ساتھ چلنے کا مشورہ دیا تھا۔

’اب ہندوستان کی سیاست کا رخ بدل چکا ہے۔ مسلم لیگ کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب یہ ہمارے اپنے دماغوں پر منحصر ہے کہ ہم کسی اچھے انداز فکر میں بھی سوچ سکتے ہیں یا نہیں۔ اسی لیے میں نے نومبر کے دوسرے ہفتے میں ہندوستان کے مسلمان رہنماؤں کو دہلی بلانے کا قصد کیا ہے۔ دعوت نامے بھیج دیے گئے ہیں۔

’ہراس کا موسم عارضی ہے۔ میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم کو ہمارے سوا کوئی زیر نہیں کر سکتا۔ میں نے ہمیشہ کہا اور آج پھر کہتا ہوں کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دو، شک سے ہاتھ اٹھا لو اور بدعملی کو ترک کر دو، یہ تین دھار کا انوکھا خنجر لوہے کی اس دو دھاری تلوار سے زیادہ کاری ہے جس کے گھاؤ کی کہانیاں میں نے تمہارے نوجوانوں کی زبانی سنی ہیں۔

’یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے اس پر غور کرو، اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟

’یہ دیکھو مسجد کے بلند مینار تم سے سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالاں کہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔

’اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو۔ جس طرح آج سے کچھ عرصے پہلے تمہارا جوش و خروش بیجا تھا اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بیجا ہے۔ مسلمان اور بزدلی  یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔

’سچے مسلمانوں کو نہ تو کوئی طمع ہلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے۔ چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہو جانے سے ڈرو نہیں۔ انہوں نے تمہیں جانے کے لیے اکٹھا کیا تھا۔ آج انہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو یہ عیب کی بات نہیں۔ یہ دیکھو تمہارے دل تو ان کے ساتھ ہی رخصت نہیں ہو گئے۔

’اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہیں تو اسے خدا کی جلوہ گاہ بناؤ جس نے آج سے 1300 برس پہلے عرب کے ایک امی کی معرفت فرمایا تھا: ’’جو خدا پر ایمان لائے اس پر جم گئے تو پھر ان کے لیے نہ تو کسی طرح کا ڈر ہے نہ کوئی غم۔‘‘ ہوائیں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں۔ یہ صرصر سہی لیکن اس کی عمر کچھ زیادہ نہیں۔ ابھی دیکھتی آنکھوں ابتلا کا موسم گزرنے والا ہے، یوں بدل جاؤ جیسے تم پہلے کبھی اس حالت ہی میں نہ تھے۔

’میں کلام میں تکرار کا عادی نہیں ہوں لیکن مجھے تمہاری تغافل کیشی کے پیش نظر بار بار یہ کہنا پڑتا ہے کہ تیسری طاقت اپنی گھمنڈ کا پشتارہ اٹھا کر رخصت ہو چکی ہے۔ جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا۔ سیاسی ذہنیت اپنا پچھلا سانچہ توڑ چکی ہے اور اب نیا سانچہ ڈھل رہا ہے۔

’اگر اب بھی تمہارے دلوں کا معاملہ بدلا نہیں اور دماغوں کی چبھن ختم نہیں ہوئی تو پھر حالت دوسری ہے۔ لیکن اگر واقعی تمہارے اندر سچی تبدیلی کی خواہش پیدا ہو گئی ہے تو پھر اس طرح بدلو جس طرح تاریخ نے اپنے تئیں بدل لیا ہے۔

’آج بھی کہ ہم ایک دور انقلاب کو پورا کر چکے ہیں۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں کچھ صفحے خالی ہیں اور ہم ان صفحوں میں زیب عنوان بن سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہم اس کے لیے تیار ہوں۔

’تبدیلیوں کے ساتھ چلو یہ نہ کہو کہ ہم اس تغیر کے لیے تیار نہ تھے۔ بلکہ اب تیار ہو جاؤ، ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے۔ اس سے کرنیں مانگ لو اور ان اندھیری راہوں میں بچھا دو جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے۔‘

مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تم حاکمانہ اقتدار کے مدرسے سے وفاداری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرو اور کاسہ لیسی کی وہی زندگی اختیار کرو جو غیر ملکی حاکموں کے عہد میں تمہارا شعار رہا ہے۔

’میں کہتا ہوں کہ جو اجلے نقش و نگار تمہیں اس ہندوستان میں ماضی کی یادگار کے طور پر نظر آ رہے ہیں وہ تمہارا ہی قافلہ تھا۔ انہیں بھلاؤ نہیں۔ انہیں چھوڑو نہیں۔ ان کے وارث بن کر رہو اور سمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لیے تیار نہیں تو پھر تمہیں کوئی طاقت بھگا نہیں سکتی۔

’آؤ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اس کے لیے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔

’آج زلزلوں سے ڈرتے ہو کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے۔ آج اندھیرے سے کانپتے ہو کیا یاد نہیں کہ تمہارا وجود ایک اجالا تھا۔ یہ بادلوں نے میلا پانی برسایا ہے تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائنچے چڑھا لیے ہیں، وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے، پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا، بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرا دیے، بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صرصر اٹھی تو اس کا رخ پھیر دیا، آندھیاں آئیں تو ان سے کہا کہ تمہارا راستہ یہ نہیں ہے۔

یہ ایمان کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے گریبانوں سے کھیلنے لگے اور خدا سے اس درجہ غافل ہو گئے کہ جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔

میرے پاس تمہارے لیے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے۔ وہی پرانا نسخہ ہے جو برسوں پہلے کا ہے۔ وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کے سب سے بڑے محسن لائے تھے۔ وہ نسخہ ہے قرآن کا یہ اعلان کہ’تم ہمت نہ ہارو اور غم نہ کھاؤ اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب آؤ گے۔‘

’آج کی صحبت ختم ہو گئی۔ مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ اختصار کے ساتھ کہہ چکا ہوں۔ پھر کہتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ اپنے حواس پر قابو رکھو، اپنے گرد و پیش اپنی زندگی خود فراہم کرو۔ یہ منڈی کی چیز نہیں کہ تمہیں خرید کر لا دوں۔ یہ تو دل کی دکان ہی میں سے اعمال صالحہ کی نقدی سے دستیاب ہو سکتی ہے۔‘

مسلمانوں کو مشورہ

ظفر احمد نظامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’مولانا ابوالکلام آزاد کو تقسیمِ ہند نے شدید صدمہ پہنچایا تھا کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ تقسیم مسئلوں کا حل نہیں۔

’اس (بٹوارے) سے نئے نئے مسئلوں کے ابھرنے کا اندیشہ تھا۔ اب ان کے یہ اندیشے صحیح ثابت ہو رہے تھے۔ تاہم انہوں نے پوری کوشش کی کہ ملک میں امن قائم ہو جائے۔ لوگوں کے دلوں سے انتقام اور نفرت کی آگ ختم ہو جائے اور محبت اور بھائی چارہ کی فضا میں ہندو اور مسلمان دوستی کی جڑوں کو مضبوط کریں۔

’مولانا نے ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں سے خوف کے ہر احساس کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ان کے اندر سے احساس کمتری کو مٹانے کے لیے ان میں اعتماد پیدا کیا۔ اس سلسلے میں وہ گورنر جنرل، وزیر اعظم اور دوسرے تمام وزیروں سے ملتے رہے۔

’مولانا کے لیے یہ زمانہ بڑی پریشانی کا تھا۔ نہ انہیں دن کو چین تھا نہ رات کو آرام۔ وہ رات رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتے رہتے اور ملک کے حالات پر نظریں دوڑاتے رہتے تھے۔ دراصل یہ وہ دور تھا جب ہر جگہ یہی بحث تھی کہ ’’مسلمان اب کیا کریں۔‘ اسی سوال کا جواب دینے کی غرض سے مولانا کے ایما پر لکھنؤ میں ایک مسلم کانفرنس منعقد کی گئی۔‘

عبدالقوی دسنوی اپنی کتاب ’حیات ابوالکلام آزاد‘ میں لکھتے ہیں کہ 27 دسمبر 1947 کو وکٹوریہ میموریل لکھنؤ (بیگم حضرت محل پارک) میں منعقد ہونے والے بھارتی مسلمانان کے اس اجتماع (کانفرنس) کا مقصد تھا کہ اب نئے آزاد بھارت میں ساڑھے چار کروڑ مسلمان کس طرح ایک بڑی جمہوریت کا حصہ بن کر عزت، خوش حالی اور اطمینان و سکون کی زندگی گزاریں۔

ظفر احمد نظامی لکھتے ہیں: ’مولانا نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ فرقہ پرستی کی سیاست کا خاتمہ کر دیں۔ ایسی سیاسی جماعتیں کو ختم کر دیں جو ملک کا بٹوارہ چاہتی تھیں اور جنہیں تقسیم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

’اسی کے ساتھ انہوں نے مسلمانوں سے یہ بھی کہا کہ وہ آئندہ ایسی کوئی جماعت نہ بنائیں جو فرقہ پرستی کی بنیاد پر کھڑی ہو بلکہ اب انہیں ایسی جماعت میں شریک ہو جانا چاہیے جو ترقی پسند ہو، فرقہ واریت کی بنیاد پر نہ بنی ہو، جو ان کے مقاصد کو پورا کرتی ہو، جو ہندو مسلم، سکھ، عیسائی میں فرق نہ سمجھتی ہو۔

’مولانا ابوالکلام آزاد نے واضح طور پر کہا کہ ان کے نزدیک ایسی ترقی پسند جماعت محض کانگریس ہے اور مسلمانوں کو اس میں شریک ہو جانا چاہیے۔‘

مولانا آزاد: مکہ سے دہلی تک

محی الدین احمد المعروف مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ عالیہ بنت محمد مسلمانوں کے دوسرے مقدس شہر مدینہ منورہ کی رہنے والی تھیں۔

مولانا کے آبا و اجداد مغلیہ سلطنت سے وابستہ تھے۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد ان کے والد محمد خیر الدین نے ہندوستان سے ہجرت کر کے سعودی عرب میں سکونت اختیار کی تھی۔ وہ اپنے وقت کے مشہور و معروف عالم دین تھے۔

 محمد خیر الدین کے بڑے بیٹے اور مولانا کے بڑے بھائی مولانا ابو نصر بھی اپنی ذہانت اور فکری و علمی دنیا میں الگ مقام رکھتے تھے لیکن محض 21 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ مولانا آزاد کے والد کا انتقال 1908 میں ہوا۔

اپنا بچپن مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں گزارنے والے مولانا آزاد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور عربی ان کی مادری زبان تھی۔ ان کو اردو، فارسی، عربی، ترکی، انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

مولانا آزاد نے اپنی علمی و ادبی زندگی کا آغاز مضامین اور شاعری لکھنے سے کیا۔ محض 14 سال کی عمر میں انہوں نے ’مخزن‘ نامی ایک ادبی جریدے میں ادبی مضامین لکھنا شروع کر دیے۔

مولانا آزاد نے 1900 میں صرف 12 سال کی عمر میں ایک منظوم جریدہ ’نیرنگ عالم‘ کی اشاعت شروع کی اورموسیٰ نامی ایک شخص کے  ہفت روزہ اخبار ’المصباح‘ کی ادارت بھی کرنے لگے۔

1903 میں انہوں نے ماہانہ رسالہ ’لسان الصدق‘ شائع کیا۔ اسی دور میں معروف رسالے ’خدنگ نظر‘ کے ادبی حصہ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ مولانا شبلی نعمانی کے جاری کردہ پرچے ’الندوہ‘ کے علاوہ کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار ’دارالسلطنت‘ کی ادارت بھی سنبھالی۔

1912 میں اردو  ہفت روزہ ’الہلال‘ شروع کیا جو ایک سیاسی اخبار تھا۔ یہ اردو کے اولین ایسے اخبارات میں سے ایک تھا جس نے ترتیب اور ڈیزائن سمیت مواد اور پیشکش کو یکساں اہمیت دی۔ اسے مصری اخبارات کے طرز پر آراستہ کیا گیا تھا لیکن اس کا سب سے بڑا اثاثہ پُراثر مواد تھا۔

عوام میں انقلابی خیالات پیدا کرنے کی وجہ سے ’الہلال‘ رفتہ رفتہ انگریزوں کے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ اس بنا پر 1914 میں ’الہلال پریس‘ پر حکومت نے قبضہ کر کے اسے ضبط کر لیا۔

1914 ہی میں ایک نیا جریدہ ’البلاغ‘ کے نام سے شائع کیا۔ انہوں نے ’الہلال‘ کی طرح اس میں بھی انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف لکھا۔

مولانا آزاد نے بنگال کی تقسیم کی مہم کے وقت کم عمری ہی میں سیاست سے قربت اختیار کر لی۔ 1919 میں ان کو نظر بند بھی کیا گیا اور 1920 میں حکومت نے رہا کیا۔

بعد میں وہ مہاتما گاندھی کے نظریات بالخصوص ’فلسفہ عدم تشدد‘ سے بے حد متاثر ہوئے۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں روز بہ روز بڑھتی گئیں۔ 1920 میں ہی ان کو خلافت کمیٹی کا صدر مقرر کیا گیا۔

مولانا کو 1923 میں صرف 35 سال کی عمر میں انڈین نیشنل کانگریس کے سب سے کم عمر صدر کے طور پر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ 1946 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

1947 میں تقسیم ہند کے بعد وہ ’آزاد بھارت‘ کی پہلی حکومت میں وزیر تعلیم کی حیثیت سے شامل ہوئے اور اس منصب پر 1958 یعنی انتقال تک کام کرتے رہے۔

مولانا آزاد نے جدوجہد آزادی بالخصوص ’تحریک عدم تعاون‘، ’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘ اور ’خلافت تحریک‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ مسلم لیگ کی پالیسیوں اور ’تقسیم ہند‘ کے سخت خلاف تھے۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک سیاست داں بلکہ ایک ممتاز قلمکار، عمدہ شاعر، بے باک صحافی، مفسر، عالم اور شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔

مولانا کی مشہور تصانیفات میں ’غبار خاطر،‘ ’انڈیا ونز فریڈم،‘ ’تحریک آزادی،‘ ’ترجمان القرآن،‘ ’انتخاب تذکرہ مولانا آزاد‘ وغیرہ ہیں۔

’غبار خاطر‘ ان کے خطوط کا ایک اہم مجموعہ ہے جو انہوں نے 1942 اور 1946 کے درمیان قلعہ احمد نگر میں قید کے دوران تحریر کیے۔

بھارت کی ماہر تعلیم آمنہ کشور کے مطابق اگرچہ مولانا آزاد کا خاندان نہایت قدامت پسند تھا اس کے باوجود وہ موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔

’انہوں نے ’غبار خاطر‘ میں اچھی چائے اور اچھی سگریٹ کی اپنی کمزوری کے بارے میں بڑے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ وہ اپنی زندگی کی تمام چیزوں میں چائے کے پیالے کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔‘

مولانا آزاد کا انتقال 22 فروری 1958 کو ہوا۔ ان کا مزار اردو بازار جامع مسجد دہلی کے احاطہ میں ہے۔ 1992 میں بھارتی حکومت نے انہیں علمی اور ادبی میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے پر بعد از مرگ ’بھارت رتن‘ یعنی ’بھارت کا جوہر‘ ایوارڈ سے نوازا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ