کیا نہرو کی موت کی وجہ چین سے جنگ میں ہار تھی؟

’بھارت پر چینی جارحیت کے بعد نہرو ۔۔۔ اس صدمے سے باہر نہیں آ سکے اور بالآخر 27 مئی 1964 کو ایک ٹوٹے ہوئے انسان کی طرح اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔‘

نہرو اپنے چینی ہم منصب چو این لائی کےساتھ (اےایف پی)

’پنڈت نہرو کو کوئی بیماری نہیں تھی۔ سنہ 1962 میں چین نے ہمارے ملک پر حملہ کیا۔ ہماری فوج کے پاس اسلحہ و گولہ بارود نہیں تھا۔ پھر بھی بہادری سے لڑی۔ سنہ 1962 کی ہار کے بعد پنڈت نہرو زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکے۔ وہ کسی بیماری سے نہیں بلکہ چین کے ہاتھوں شکست کے صدمے سے انتقال کر گئے۔‘

بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی موت کے بارے میں یہ الفاظ سابق وفاقی وزیر دفاع اور اتر پردیش کی سیاسی جماعت سماج وادی پارٹی کے بانی و سرپرست ملائم سنگھ یادو کے ہیں، جن کا اظہار انہوں نے 30 اپریل 2016 کو ایک تقریب سے اپنے خطاب کے دوران کیا تھا۔

بھارتی میڈیا نے ملائم سنگھ یادو کے متذکرہ بیان کو متنازع قرار دیا تھا کیوں کہ اسے بظاہر توقع تھی کہ اس پر ہندو قوم پرست تنظیموں کی طرف سے ردعمل آئے یا نہ آئے لیکن کانگریس سے ضرور آئے گا۔

لیکن بھارتی میڈیا کی توقع کے برعکس کانگریس پارٹی نے ملائم سنگھ کے بیان پر مکمل خاموشی اختیار کی۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ملائم سنگھ یادو نے بھارت کی چین کے ہاتھوں شرمناک ہار کو پنڈت نہرو کی موت کی وجہ قرار دیا ہو۔ یکم مئی 2014 کو فیض آباد میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا: ’چین نے حملہ کر کے ہماری لاکھوں ہیکٹر اراضی پر قبضہ کیا، نہرو صدمے میں آ گئے اور چل بسے۔ انہیں کوئی بیماری لاحق نہیں تھی، وہ چین کی وجہ سے مر گئے۔ میں اپنے الفاظ پر قائم رہوں گا۔ میں اپنے الفاظ بدلنے والا شخص نہیں ہوں۔ میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کر رہا ہوں۔‘

پنڈت نہرو 1962 کی بھارت چین جنگ کے محض ڈیڑھ سال بعد 27 مئی 1964 کو انتقال کر گئے۔ ان کی موت کی ظاہری وجہ دل کا دورہ بتائی گئی تھی۔

چین سے جنگ کی تیاری نہ ہونے، مبینہ ناقص خارجی پالیسی اور دفاع کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پنڈت نہرو اور ان کے وزیر دفاع وی کے کرشنا مینن کو نہ صرف حزب اختلاف بلکہ بعض کانگریسی رہنماؤں کی کھلم کھلا تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بھارت ہارا یا نہرو؟

بھارتی مصنف و محقق رامچندر گوہا اپنے ایک مقالے بعنوان ’جواہر لال نہرو اینڈ چائنا: اے سٹڈی ان فیلیئر؟‘ میں رقم طراز ہیں: ’جنگ میں ہار کو بھارت میں جواہر لال نہرو کی ہار تصور کیا گیا تھا۔ یہ وہ شخص تھے جنہوں نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے عہدے 1947 سے لگاتار اپنے پاس رکھے تھے۔ چین کے ہاتھوں شکست نہرو کی ساکھ کو آج بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔

’نہرو کا کیریئر ونسٹن چرچل (سابق برطانوی وزیر اعظم) کے کیریئر کا الٹ ہے۔ نہرو کا کیریئر اب تک کامیابیوں سے مزین تھا۔ چین کے ہاتھوں شرمناک ہار نے ان کامیابیوں کو دھندلا دیا ہے۔ اس ہار سے نہ صرف قوم کا حوصلہ پسپا ہو گیا تھا بلکہ خود نہرو کا جسم اور ہمت جواب دینے لگی تھی۔ یہ جنگ اکتوبر نومبر 1962 میں لڑی گئی۔ محض ڈیڑھ سال بعد نہرو موت کی آغوش میں چلے گئے۔‘

رامچندر گوہا کا یہ مقالہ ان کے 29 مارچ 2011 کے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ہارورڈ یینچنگ انسٹی ٹیوٹ میں دیے جانے والے لیکچر پر مبنی ہے۔

معروف بھارتی صحافی پریم پرکاش 1962 کی بھارت چین جنگ کے وقت خبر رساں ادارے روئٹرز سے وابستہ تھے۔ انہیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے نہرو سے لے کر نریندر مودی تک بھارت کے سبھی 14 وزرائے اعظم سے ذاتی ملاقاتیں کی ہیں۔

وہ اپنی کتاب ’رپورٹنگ انڈیا: مائی سیونٹی ایئرز جرنی ایز اے جرنلسٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ بھارت چین جنگ نے نہرو کی صحت کو بھاری نقصان پہنچایا تھا اور وہ ٹوٹ چکے تھے۔

پریم پرکاش مزید لکھتے ہیں: ’نہرو نے بھارتی افواج کی جدید کاری کو نظرانداز کیا تھا۔ ان کی سوچ تھی کہ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے پیش نظر کوئی بھی ملک بین الاقوامی اختلافات کو حل کرنے کے لیے جنگ کا سہارا نہیں لے گا۔ لیکن ان کی یہ سوچ اس وقت غلط ثابت ہوئی جب چین نے بھارت کی سرحدوں پر حملہ کر دیا اور پرانے ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوج ان کا مقابلہ نہیں کر سکی۔‘

’نہرو اینڈ ورلڈ پیس‘ کے مصنف جی راما چند رام لکھتے ہیں: ’سنہ 1962 میں بھارت پر چینی جارحیت کے بعد نہرو مایوسی کا شکار ہو گئے۔ وہ اس صدمے سے باہر نہیں آ سکے اور بالآخر 27 مئی 1964 کو ایک ٹوٹے ہوئے انسان کی طرح اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔‘

انسائیکلوپیڈیا آف ایشین ہسٹری میں مرقوم ہے کہ سنہ 1962 کے بعد نہرو کی جسمانی حالت مسلسل بگڑنے لگی اور صحتیاب ہونے کے لیے انہوں نے سنہ 1963 کے کئی ماہ کشمیر میں گزارے۔

’بعض مورخین بھارت چین جنگ کو ہی نہرو کی صحت میں آنے والی اس ڈرامائی گراوٹ کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ نہرو نے اس جنگ کو ’چین پر اعتماد‘ سے دھوکہ مان لیا تھا۔‘

’وہ مرجھا گئے تھے‘

سنہ 1962 میں چین کا بھارت کے خلاف جنگ شروع کرنے کی غیر متوقع کارروائی اور بھارتی سیاست دانوں کے طعنوں سے پریشان پنڈت نہرو نے سنہ 1964 میں کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ کے توسل سے بھارت کے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ایک پہل شروع کی۔

شیخ عبداللہ، جنہیں اپریل 1964 میں تقریباً 11 سال بعد رہا کیا گیا تھا، نے اپنی سوانح حیات ’آتش چنار‘ میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے دہلی میں پنڈت نہرو سے ملاقات کی تو انہیں جسمانی طور پر بہت کمزور پایا۔

وہ لکھتے ہیں: ’سری نگر میں چند روز قیام کرنے کے بعد میں نے اور بیگ صاحب (شیخ عبداللہ کے دست راست مرزا محمد افضل بیگ) نے جواہر لال کی باضابطہ دعوت پر دہلی کی طرف کوچ کیا۔ پالم کے ہوائی اڈے پر جواہر لال کی طرف سے میرا مخلصانہ اور پرجوش استقبال کیا گیا۔

’پنڈت جی نے اپنی صاحبزادی مسز اندرا گاندھی، نائب وزیر خارجہ راجہ دنیش سنگھ اور وزارت خارجہ کے سیکریٹری کو مجھے لینے کے لیے ہوائی اڈے پر بھیج دیا تھا۔ ہوائی اڈے سے میں اندرا جی کے ساتھ سیدھا تین مورتی ہاؤس چلا گیا۔

’پنڈت جی بڑے تپاک سے ملے۔ لیکن وہ پہلے کے پنڈت جی کہاں رہے تھے۔ میں انہیں 11 سال کے بعد دیکھ رہا تھا۔ پہلے وہ شعلے کی طرح لال بھبھوکا اور گرم تھے۔ شاعر نے کشمیریوں کو لالہ رخ کہہ کر پکارا ہے اور جواہر لال کو دیکھ کر اس تشبیہ کی صداقت اور لطافت کا باور ہوتا تھا۔ لیکن اب وہ مرجھا گئے تھے۔ ان کی کمر خمیدہ تھی۔ ان کے چہرے پر پژمردگی اور اُن کے گالوں پر جھریاں ابھر آئی تھیں۔‘

شیخ عبداللہ آگے لکھتے ہیں: ’میں نے مسئلہ کشمیر کا ذکر چھیڑتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں یہ سب سے پیچیدہ مسئلہ ہے۔ چین اور بھارت کی باہمی ٹکر نے میرے اس نظریہ کو اور زیادہ تقویت پہنچائی ہے کہ بھارت کو اپنے چھوٹے پڑوسی ملکوں کے ساتھ فراخ دلانہ اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے چاہییں، تاکہ ان کے اندر یہ خیال پیدا ہو کہ بھارت ان کا ہمدرد دوست ہے اور اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس صورت میں ہم چھوٹے پڑوسیوں کو اپنا ممد و معاون بنا سکتے ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔

’پنڈت جی نے کہا کہ میں ان احساسات سے پوری طرح متفق ہوں اور اپنی زندگی کی شام میں یہ کام سر انجام دینا چاہتا ہوں جو بہت پہلے طے ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال طے یہ ہوا کہ میں پاکستان جا کر صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کو دہلی آنے کے لیے آمادہ کروں اور یہاں دونوں ملکوں کے نمائندے میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر کشمیر کے اس تنازعے کو نپٹانے کے لیے عملی کوشش کریں۔

’پنڈت جی نے کہا کہ ان کی صحت کا جو عالم ہے اس کی وجہ سے وہ خود راولپنڈی جانے کی حالت میں نہیں ہیں، لیکن اگر فیلڈ مارشل ایوب خان دہلی آئیں تو کام آسان ہو سکتا ہے۔‘

شیخ عبداللہ لکھتے ہیں کہ راولپنڈی میں ایوب خان سے ملاقاتوں کا ماحصل یہ ہے کہ آخر الذکر نے دہلی آنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ پنڈت نہرو اور ایوب خان کی ملاقات جون کے وسط میں ہو گی۔

تاہم شیخ عبداللہ ابھی پاکستان میں ہی تھے کہ پنڈت نہرو انتقال کر گئے۔ جس مقصد کے لیے پنڈت نہرو کے کہنے پر شیخ عبداللہ نے یہ دورہ پاکستان کیا تھا وہ بھی اول الذکر کے ساتھ فوت ہو گیا۔

نہرو، جنگ اور جنگ بندی

چین نے سنہ 1959 میں ہی اکسائی چن پر اپنا قبضہ کافی مضبوط کر لیا تھا۔ وہ میکموہن لائن کو ماننے سے انکاری تھا۔ وہ تبت کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے چکا تھا اور اس نے تبت سے آگے بھارتی حدود میں بھی سڑکیں بنانا شروع کی تھیں۔

چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے 21 اکتوبر 1962 کو بیک وقت لداخ اور اروناچل پردیش (جو تب نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ایجنسی یا نیفا بارڈر کہلاتا تھا) میں بھارتی فوج کے خلاف بڑے پیمانے پر اچانک حملے شروع کر دیے۔

1962 کی جنگ کو بھارت میں آج بھی چینی جارحیت قرار دیا جاتا ہے لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ جنگ پنڈت نہرو کی فارورڈ پالیسی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی جس کے تحت ’متنازع‘ علاقوں میں بھارتی فوج نے اپنی چوکیاں قائم کرنا شروع کی تھیں۔

یہ جنگ چھڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چین تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو اپنے ملک میں پناہ دینے کے بھارتی اقدام پر برہم تھا۔

تاہم سویڈن سے تعلق رکھنے والے سٹریٹجک امور کے ماہر برٹیل لنٹنر نے اپنی کتاب ’چائناز انڈیا وار‘ میں لکھا ہے کہ نہرو کی فارورڈ پالیسی جنگ کی ذمہ دار نہیں بلکہ ماؤ زے تنگ نے بھارت پر یہ جنگ چین کی پوزیشن مستحکم کرنے اور اس کی (بھارت کی) ترقی پذیر ممالک کے لیڈر کے طور پر ابھرنے کی دوڑ کو روکنے کے لیے تھوپی تھی۔

وی کے کرشنا مینن نے پنڈت نہرو کے سوانح نگار مائیکل بریچر کو ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ سنہ 1962 میں چین کے حملے کا سب سے بڑا مقصد پنڈت نہرو کی ساکھ کو نقصان پہچانا تھا۔

’بھارت کی پارلیمانی جمہوریت میں کامیابی اور اس کی نان الائنمنٹ پالیسی چینی بالادستی کے لیے سنگین چیلنج تھی۔‘

بھارت کے لیے شرمناک ہار ثابت ہونے والی یہ جنگ ٹھیک ایک ماہ بعد چین کے یکطرفہ جنگ بندی کے اعلان کے نتیجے میں رک گئی تھی۔

اکسائی چن پر بہ آسانی قبضہ کرنے کے بعد چینی فوجی نیفا بارڈر عبور کر کے آسام کے میدانی علاقوں تک پہنچ چکی تھی۔ چینی فوج نے 23 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ بھارتی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد چینی فوجی اروناچل پردیش میں میکموہن لائن سے پیچھے چلی گئی، لیکن اس نے لداخ میں چار ہزار مربع کلو میٹر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔

پنڈت نہرو پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے صحیح یا مناسب وقت پر امریکہ اور برطانیہ سے مدد نہیں مانگی اور جب مدد مانگنے پر ان کی مدد آ گئی چین نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔

نہرو نے اس یقین دہانی کے ساتھ امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے مدد مانگی تھی کہ ’آپ کی جانب سے فراہم کردہ افرادی قوت اور جنگی ساز و سامان کا استعمال پاکستان کے خلاف نہیں ہو گا۔‘

مبصرین کے مطابق پنڈت نہرو چین کو اپنا دوست سمجھتے تھے اور انہیں اس کی جانب سے کسی بھی حملے کی توقع نہیں تھی کیونکہ زیادہ وقت نہیں ہوا تھا جب بھارت میں ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کا نعرہ لگا تھا۔

جب چین نے خلاف توقع حملہ کیا تو نہرو جنگ کی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان ہوئے، ان کے لیے یہ حملہ بھارت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا۔

نہرو نے 22 اکتوبر 1962 کو قوم کے نام اپنے خطاب میں کہا: ’تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے کس طرح کئی بار چینی حکومت سے دوستی نبھائی اور اس کو اپنا تعاون فراہم کیا۔ یہاں تک کہ ہم نے عالمی اداروں میں اس کے حق میں وکالت بھی کی ہے۔‘

ایک ماہ تک جاری رہنے والی بھارت چین جنگ کے دوران بھارتی فوج کے 1383 اہلکاروں نے اپنی جانیں گنوائی تھیں، 1047 زخمی، 1694 لاپتہ ہوئے تھے اور دیگر 400 سے زیادہ فوجیوں کو چین نے جنگی قیدی بنایا تھا۔ چینی فوج کے 722 اہلکار ہلاک جبکہ 1400 دیگر زخمی ہوئے تھے۔

’وہاں تو گھاس کا ایک تنکہ تک نہیں اگتا‘

چینی فوجیوں کی تعداد نہ صرف بھارتی فوجیوں سے کئی گنا زیادہ تھی بلکہ یہ نہ صرف ذہنی و جسمانی طور پر لڑائی کے لیے تیار تھے بلکہ ان کے پاس جنگ جیتنے کے لیے درکار تمام جدید ہتھیار بھی موجود تھے۔

نومبر 1962 میں جنگ کے دنوں میں ہی بھارتی پارلیمان کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا تھا جس کے دوران پنڈت نہرو کو جن سنگھ رہنما اٹل بہاری واجپائی سمیت حزب اختلاف و اقتدار کے متعدد رہنماؤں کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اٹل بہاری نے جو سوالات پوچھے تھے وہ کچھ یوں ہیں: ’چین نے بھارت پر پانچ ستمبر اور 20 اکتوبر کو حملہ کیا، ان حملوں کے باوجود آپ نے چین کے خلاف جنگ لڑنے کی تیاری کیوں نہیں کی؟ نیفا بارڈر پر معقول تعداد میں فوجی تعینات کیوں نہیں تھے، انہیں جدید ہتھیاروں سے لیس کیوں نہیں کیا گیا تھا؟‘

پارلیمان میں پنڈت نہرو کی تقریر، جس میں انہوں نے اکسائی چن پر چینی قبضے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ ایک ایسا بنجر علاقہ ہے جہاں گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں اگتا۔‘ پر ان کی اپنی ہی جماعت کانگریس کے ایک سینیئر رہنما مہاویر تیاگی نے طنزیہ ردعمل دیا تھا۔

مہاویر تیاگی نے اپنی ٹوپی اتار کر نہرو سے مخاطب ہو کر کہا تھا: ’پنڈت جی میرے سر پر بال نہیں اگتے۔ آپ بتائیں میں اسے کٹوا دوں یا کسی اور کو دے دوں؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ