آئیں ایوب خان کو یاد کریں

آج جنرل ایوب خان کی برسی ایسی خاموشی سے گزرتی ہے کہ ان کے پوتے عمر ایوب وزیر ہونے کے باوجود اپنے حلقے کے عوام کی توجہ اس طرف مبذول کروانے سے قاصر ہیں۔

جنرل ایوب خان کو دنیا سے رخصت ہوئے آج 47 سال ہوگئے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے سیاسی حالات کو سمجھنے کے لیے حوصلے اور ذہانت کے ساتھ تاریخ کو جاننا بھی ضروری ہے۔ حوصلہ آپ کو اپنے بال نوچنے سے باز رکھتا ہے، ذہانت آپ کو جھوٹ اور سچ میں تمیز سکھا دیتی ہے اور تاریخ یہ رہنمائی کرتی ہے کہ ہم موجودہ عذابوں میں کیسے پھنسے۔

اس تکلیف دہ سفر کا آغاز، اس کے پیچیدہ موڑ، اس کے اندھے کنویں اور نہ ختم ہونے والی اجتماعی تذلیل کی بنیاد فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں رکھی گئی۔ ایوب خان کے بارے میں سرکاری بیانیہ ویسا ہی ہے جیسے آج کل ہر تین سال کے بعد سنا جاتا ہے۔ یعنی قد کاٹھ والا خوبرو جوان جس کی آنکھوں میں قوم کی ترقی کے خواب اور سر پر کامیابی کا تاج سجا ہوا ہو۔ جو مغرب و مشرق میں موجود تمام قائدین سے زیادہ سربلند اور اس خطہ خداداد کو اسلام کا عظیم قلعہ بنانے پر معمور ہو۔

 یہ اسی سرکاری بیان کا صدقہ ہے کہ اب بھی ہزارہ ڈویژن میں چلنے والے ٹرکوں کے پیچھے ایوب خان کی ٹیڑھی میڑھی تصاویر کے نیچے تحریر ’بہت یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘ لکھی دیکھائی دیتی ہے۔ ہری پور ہزارہ اور ایوب خان طویل عرصے تک لازم و ملزوم رہے۔ مگر آج ان کی برسی ایسی خاموشی سے گزرتی ہے کہ ان کے پوتے عمر ایوب وزیر ہونے کے باوجود اپنے حلقے کے عوام کی توجہ اس طرف مبذول کروانے سے قاصر ہیں۔ مگر ان کی رکھی ہوئیں بنیادیں اور پھیلائی ہوئیں جڑیں ابھی ان روایات و عادات و نتائج کی سمت متین کر رہی ہیں جن کو ہم ایک مسلسل سیاسی بحران کے طور پر گلے میں پڑے طوق کی طرح اٹھائے پھر رہے ہیں۔

مثلا آئینی معاملات کے ساتھ بے دریغ کھلواڑ 60 کی دہائی میں عروج پر پہنچا۔

ایوب خان نے خود کو ملک پر فائز کرنے کے لیے انتظام تو کمان سنبھالنے کے بعد ہی کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اثرورسوخ کو قائم کرنے کے لیے کافی عرصہ انہوں نے افسر شاہی اور سویلین چہرے سامنے رکھے۔

کام ان کے ہوتے تھے نام اور عہدہ گورنر جنرل کا استعمال ہوتا تھا۔ پاکستان کو ایک بنانے کے نعرے لگاتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے سیاسی میدان کو ایک گڑہے میں تبدیل کر دیا جہاں پر دائیں بازوں کی قوتیں بائیں بازوں کی قوتوں سے، مرکز پرست مرکز گریز جماعتوں سے، اردو والے پنجابیوں سے اور پنجابی بنگالیوں سے دست و گریباں ہوئے۔

ظاہر ہے یہ سب کچھ فرد واحد نے نہیں کیا۔ اس میں پاکستان کو وجود میں لانے والی تاریخ کی تلخیاں بھی شامل تھیں۔ لیکن ان تلخیوں کو زہر میں تبدیل کر کے اپنے لیے طاقت حاصل کرنے کا تریاق بنانے کا فارمولہ ذاتی خواہشات کے ذریعے ہی بن پایا۔

اس وقت بھی بعد کی طرح امریکہ بہادر ایوبی دور کی عظمت کی تشہیر کرنے میں پیش پیش تھا۔ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ تمام دنیا کو لپیٹ میں لے چکی تھی اور اگر آپ اس دور کی جاری شدہ دستاویزات کا مطالعہ کریں تو امریکی خود آپ کو بتاتے ہیں کہ ایوب خان کو طاقت میں لانے، استحکام دینے اور ان کے ہاتھوں امریکہ کی طرز کے صدارتی نظام کے بنوانے میں ان کی اتنی دلچسپی اور کیسے مفادات موجود تھے۔

اور پھر جب مغربی ممالک آپ کو سر آنکھوں پر بٹھائیں تو سرمایہ کاری جو اس وقت مغربی معاشی نظام کی کمیونسٹ دنیا کے ساتھ لڑائی کا ایک اہم ہتھیار تھا، جھولیاں بھر بھر کر ہو ہی جاتی ہے۔ امریکہ کو ایک تگڑا، تابعدار سرمایہ دارانہ نظام بنوانا تھا کیوں کہ وہ دنیا کے ہر اہم خطے میں کمیونسٹس کو شکست دینے پر تلا ہوا تھا۔

پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسے ایوب خان جیسے ساتھی کی ضرورت تھی۔ جو اس کو ایک طویل مدت کے لیے دستیاب رہا۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ سرد جنگ میں نرمی کے ساتھ ساتھ ایوب خان کی امریکہ کے لیے اہمیت بھی کم ہوتی گئی اور آخر میں انکل سیم کے گن گانے والے واشنگٹن کو یہ باور کروانے لگے کہ وہ کتنا احسان فراموش اور محسن کُش ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دوران پاکستان کی سیاست کا رخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موڑا جا چکا تھا۔ مخالفین کو غدار قرار دے کر بدترین پروپیگینڈے سے شکست دینے کے عمل سے لے کر من پسند کا آئین بنانے تک ایسی روایات کو پروان چڑھا دیا گیا تھا جو ابھی بھی قائم ہیں۔ ججوں سے سجدے کروانا، صحافیوں سے ترانے لکھوانا اور قوم کو عظمت کے کھوکھلے نعروں سے اس وقت بھی مطمئن کرنا جب آدھا پاکستان علیحدہ ہونے کی تیاری کر رہا تھا، ایوب خان کے دور کے قصے ہیں جو آج مزید گھنے ہو کر نحوست کے بادلوں کی طرح ملک پر چھائے ہوئے ہیں۔

ایوب خان کے دور میں ہی یہ تصور مشہور کیا گیا کہ فوج کا سربراہ ملک کی سلامتی اور تحفظ کی حتمی ضمانت ہے۔ باقی سب بونے ہیں جو پاؤں تلے پسے بھی جا سکتے ہیں یا جن کے پٹھے کس کر ان کو الٹا لٹکانے سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہذا بلوچستان، اس وقت کا این ڈبلیو ایف پی، مشرقی پاکستان، سندھی قوم پرست، مذہبی جماعتیں اور قائد اعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح سب ایوب خان کے دربار میں بے وقعت لوگ مانے جاتے تھے۔

یہ خیال کہ اتنا بڑا ملک ایک فرد اپنی من مانی سے چلا سکتا ہے، ایک باقاعدہ نظریے میں تبدیل کر کے اداروں کے اذہان پر لاگو کر دیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے لے کر نواز شریف کی جلا وطنی تک، جسٹس منیر سے لے کر ثاقب و کھوسہ تک، مولوی تمیز الدین سے لے کر فائز عیسی تک، سیاست دانوں اور میڈیا کو کالے قوانین سے جکڑنے سے لے کر موجودہ گہری سینسرشپ سے مزیئن پابندیوں تک درجنوں ایسی تباہی کی شاہراہیں ہیں جو ایوب خان نے خود کو طاقت میں لانے، قائم رکھنے اور بچانے کے لیے تعمیر کیں اور جو ابھی بھی پرہجوم اور آباد ہیں۔

ایوب خان کے دور میں لگائے گئے منصوبے گنوانے والے اگر صرف مغربی امداد سے اپنے اتحادیوں کو کامیاب کروانے کے اس ریکارڈ کا جائزہ لیں جو سرد جنگ لڑنے کے لائحہ عمل کا بنیادی حصہ تھا تو وہ سمجھ جائیں گے کہ اس دور کے کارنامے اصل میں وہ وقتی منافع تھا جو واشنگٹن کے ساتھ جڑ کر کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے۔

ایوب خان کو دنیا سے رخصت ہوئے آج 47 سال ہونے کو ہیں مگر ان کا کیا ہم ابھی بھی بھگت رہے ہیں۔ ہزارہ میں چلنے والوں ٹرکوں کی یہ عبارت حقیقت پر مبنی ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی یہ قوم ان کو نہیں بھول سکی۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ