جنرل ایوب کی ڈائری کا سبق

نواز شریف، زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو بھی اپنے ادوار پر کتابیں لکھنی چاہییں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سویلین سیاستدان اہم واقعات لکھتے ہوئے ڈرتے ہیں جبکہ فوجی حکمرانوں کی ہمت کا یہ حال ہے کہ ابھی عہدوں پر موجود ہوتے ہیں اور کتابیں لکھ دیتے ہیں۔

جنرل ایوب خان کی ڈائری کا سرورق (آکسفورڈ  یونیورسٹی پریس)

آپ سب کو حال ہی میں گزرا یوم آزادی مبارک ہو۔ پاکستان ایک آئینی جدوجہد کے بعد معرض وجود میں آیا۔ سوچا اس موقع پر ہمارے پہلے حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کی ڈائری پڑھی جائے اور اپنے مشاہدات آپ کی خدمت میں پیش کیے جائیں۔

میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمارے اہم منتخب اور حکومتی عہدوں پر رہنے والوں کو اپنے دور پر کتابیں لکھنی چاہییں تاکہ مستقبل کی نسلیں ان کے تجربات سے سیکھ سکیں۔ ہم فیلڈ مارشل ایوب خان سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر ہمیں اس بات کو سراہنا چاہیے کہ انہوں نے اپنی کتاب اور ڈائری میں اہم تاریخی ریکارڈ چھوڑا ہے۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

نواز شریف، صدر زرداری، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو بھی اپنے ادوار پر کتابیں لکھنی چاہییں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سویلین سیاستدان اہم واقعات لکھتے ہوئے ڈرتے ہیں جبکہ فوجی حکمرانوں کی ہمت کا یہ حال ہے کہ ابھی عہدوں پر موجود ہوتے ہیں اور کتابیں لکھ دیتے ہیں۔

اس سے ملک کا کافی نقصان ہوا اور ایوب خان نے اپنی ڈائری میں اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ کتاب چھپنے کے بعد مختلف ممالک نے کیا مسائل کھڑے کیے، مگر انہیں اس پر کوئی پشیمانی نہیں تھی۔ ایوب خان کی ڈائری ان کی ہدایت کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 2007 میں شائع کی۔

ایوب خان کی شخصیت میں مثبت بات یہ تھی کہ انہیں کتابیں پڑھنے کا بےانتہا شوق تھا اور ان پر اپنے مشاہدات بھی انہوں نے ڈائری میں لکھے۔ وہ اسلام میں میانہ روی کو پسند کرتے تھے۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے انہوں نے کئی مایہ ناز عالموں کو وسائل دیئے اور ادارے قائم کیے۔

آبادی میں تیزی سے اضافے پر انہیں بہت پریشانی تھی اور اس بارے میں انہوں نے متعدد بار اپنی ڈائری میں لکھا بھی اور اس پر حکومتی اقدامات بھی اٹھائے۔ آج ہمارے بہت سے مسائل کی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے جبکہ ہمارے وسائل بڑھنے کی بجائے کم ہوئے ہیں۔

ایوب خان نے اس آبادی کے لیے خوراک کی فراوانی یقینی بنانے کے مقصد سے زرعی پیداوار پر بھی بہت توجہ دی۔ اس سلسلے میں زرعی تحقیقی یونیورسٹیوں کا قیام، ڈیموں کی تعمیر، جدید زرعی آلات کی فراہمی ان کی توجہ کا مرکز رہے۔ لیکن آج یہ بات واضح ہے کہ یہ اقدامات اداروں کے طور پر فروغ نہ پا سکے اور فیلڈ مارشل کے دور اقتدار میں ہی بہت سے فیصلوں پر عمل نہ ہوسکا یا انہیں واپس لینا پڑا۔ انہوں نے خود بھی اپنی ڈائری میں اس کا اعتراف کیا ہے۔

یہی المیہ رہا کہ فوجی حکمرانوں کی جڑیں عوام میں نہ ہونے کی وجہ سے فیصلے واپس لینے پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود 24 جولائی 1969 کی ان کی ڈائری کی تحریر ترقی پزیر ممالک کے بارے میں بہت غور طلب ہے۔ اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔

 ایوب خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کے واحد حکمران ہیں جنہوں نے حکومت سے علیحدگی کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاری اور کئی لوگوں کے اصرار کے باوجود دوبارہ سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ جنرل مشرف اب تک دوبارہ صدر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ صدر زرداری ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے کے بعد ڈیموشن کی صورت اب بعد رکن قومی اسمبلی ہیں۔ نواز شریف کے بارے میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ چوتھی مرتبہ بھی وزیر اعظم کے طور پر آ سکتے ہیں۔

ایوب خان کی سب سے بڑی شخصی کمزوری ان کی خود پسندی اور خوشامد پسندی تھی۔ جو تعریف کی گئی وہ انہوں نے اپنی ڈائری میں رقم کر دی۔ کسی ایک بھی پیچیدہ معاملے میں انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ انہیں ماہرین سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیاستدان انہیں صرف وہ پسند تھے جو ان کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ باقی سارے سیاست دان خود غرض تھے اور ملکی مفاد کو نقصان پہنچا رہے تھے۔

میڈیا سے بھی انہیں ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ ان کی حکومت کے بارے میں مثبت بات نہیں کرتے۔ سب سے تکلیف دہ ان کی بنگالیوں کے بارے میں رائے تھی۔ وہ انہیں کم تر مسلمان اور  ہندو ذہنیت کا پروردہ سمجھتے تھے۔ اس بات کا انہوں نے متعدد بار ذکر کیا کہ اسلام سے زیادہ وہ بنگالی قومیت کو ترجیح دیتے ہیں اور پاکستان سے الگ ہو کر نہ صرف مذہب چھوڑ دیں گے بلکہ بھارت کا حصہ بن جائیں گے۔ یہ رائے صرف انہوں نے ڈائری میں نہیں لکھی بلکہ بہت سے لوگوں سے بھی اس کا برملا اظہار کیا۔

ان کی بنگالیوں کے بارے میں رائے ایسی تھی جیسی کوئی مغربی نو آبادیاتی قوت اپنے زیر اثر لوگوں کو جاہل اور گنوار سمجھتی ہو۔ فیلڈ مارشل کی رائے سے یہ صاف ظاہر ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کا ساتھ رہنا تقریباً ناممکن تھا اور اس علیحدگی کا بیج بونے میں فیلڈ مارشل نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ بنگالیوں کو ان کی رائے معلوم نہ ہو۔

اس ڈائری سے میری اس رائے کی توثیق بھی ہو گئی کہ اگر دونوں ملک محبت اور اخوت سے علیحدہ ہو جاتے تو بہتر تھا۔ کم از کم باہمی عزت اور تعلقات قائم رہتے۔ اس طرح یہ دونوں ملک تجارت، حفاظت اور سفارتی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے جس کا فائدہ مسلم اُمّہ کو بھی پہنچتا۔

خارجہ پالیسی میں ایوب خان کی ترجیحات جدید اسلحے کی فراہمی اور امداد رہی۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ہر ملک سے انہوں نے امداد کی درخواست کی، جن میں رومانیہ اور چیکوسلواکیہ تک شامل تھے، جو خود غریب ملک تھے۔ تجارت اور سرمائے کا حصول ان کی ترجیح نہیں تھی، جس کا کم از کم اپنی ڈائری میں انہوں نے ذکر نہیں کیا۔

امریکہ اور چین کے درمیان انہوں نے تعلقات کو متوازن طریقے سے چلانے کی کوشش کی۔ ایران اور ترکی سے تعلقات آگے بڑھانا ان کی ترجیح تھی۔ RCD کو آگے بڑھانے کی انہوں نے بہت کوشش کی لیکن ایران نے سست روی کا مظاہرہ کیا۔ افغانستان سے تعلقات میں بداعتمادی حاوی تھی اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیلڈ مارشل اپنے آپ کو قوم کا مسیحا سمجھتے تھے اور آخر وقت تک انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ لوگ ان کے خلاف ہو چکے ہیں۔ ڈائری پڑھتے وقت یہ احساس ہوتا تھا کہ جیسے یہ واقعات 1969 کے نہیں بلکہ 2020 کے ہیں۔ آٹا اور چینی کی قیمتیں بڑھنے پر عوام کا احتجاج، سیاست دانوں پر فوج کی بداعتمادی، امریکہ کی ڈو مور کی فرمائشیں اور ہمارے جدید اسلحے اور امداد کی درخواست، ایران اور افغانستان سے کمزور تعلقات، میڈیا پر پابندیاں اور ناراضی۔

پچاس سال میں ہم آگے نہیں بڑھے اور نہ ایسا لگتا ہے کہ آگے بڑھنے کی فکر ہے۔ آج بنگلہ دیش ہم سے کئی چیزوں میں آگے نکل چکا ہے۔ افغانستان جلد امن حاصل کر کے اپنی سمت درست کر لے گا مگر ہم ابھی تک دائروں کے سفر میں ہیں۔

فوجی جرنیلوں کو یہ بات سمجھانا انتہائی مشکل ہے کہ ان میں حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں ہے، یہ کام صرف سویلین ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ان میں قوت برداشت، مفاہمت اور عوام کی رائے کا احترام زیادہ ہوتا ہے۔

آج 80 فیصد سیاست دان اسمبلیوں میں وہ ہیں جو سیاسی انجینیئرنگ کی پیداوار ہیں اور ان کی عوام میں جڑیں انتہائی کمزور ہیں۔ ان کے زیادہ تر فیصلے عوام سے زیادہ مراعات پسند طبقے کے لیے ہیں۔ یہی سیاسی انجینیئرنگ ہے جو ہمارے ملک کے اندر انتشار اور معاشی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔

فوج اگر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اسے اس ملک کی سالمیت عزیز ہے تو اسے ایک نئی عوامی جمہوریہ کی تعمیر پر اعتماد کرنا ہوگا۔ عوام کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ استحصال اب تک اس ملک پر قابض ہے۔ جدوجہد آزادی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے۔ 14 اگست 1947 آزادی کا پہلا مرحلہ تھا، اب ہم دوسرے مرحلے میں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ