جسونت سنگھ، بی جے پی کے رہنما جو محمد علی جناح کے مداح تھے

بھارتی سیاست دان جسونت سنگھ کی زندگی پر ایک نظر، جنہیں محمد علی جناح کی تعریفیں کرنے پر بی جے پی سے نکال دیا گیا تھا۔

بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ اتوار کو 82 برس کی عمر میں فوت ہو گئے (اے ایف پی)

اتوار کی صبح جسونت سنگھ اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ بھارت میں ان کی سب سے بڑی کامیابی اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں بطور وزیر خارجہ بھارت اور امریکہ کے درمیان مضبوط سفارتی تعلقات کی راہ استوار کرنا سمجھا جاتا ہے۔

جسونت سنگھ بھارت کے نامور سیاست دان تھے اور بھارت میں موجودہ حکمران جماعت کے بانی ارکان میں سے تھے۔ 1980 سے لگا تار 2014 تک پارلیمنٹ آف انڈیا کا حصہ رہے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت 1998 تا 2004 میں دفاع، خارجہ و خزانہ جیسی اہم ترین وزارتوں پر بھی فائز رہے۔

آپ کا تعلق تو بی جے پی سے تھا لیکن موجودہ بی جے پی سے وہ کافی مختلف تھی۔ موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس وقت ایک سیاسی جماعت سے زیادہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم نظر آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کافی جارحانہ و بھارت کے سیکولرازم اور وقار کو زنگ آلود کرنے والی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ اقلیت ہوں یا دلت، کسان ہوں یا عام ریڑھی والا یا پھر جموں و کشمیر کی عوام کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ’گڈ بی جے پی و بیڈ بی جے پی‘ کا تذکرہ 2014 میں خود جسونت سنگھ نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔

جسونت سنگھ بڑے روشن خیال شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بھارت پاکستان مذاکرات کے بڑے حامی تھے۔ 1998 میں دونوں ممالک نے ایٹمی تجربات کیے اور وہ وقت دونوں دیشوں کے لیے کڑے امتحان کا تھا۔ ایٹمی تجربات کے بعد دونوں ممالک کے حکمرانوں کا گرمجوشی سے ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا روشن خیالی کی عمدہ مثال ہے۔ گرمجوشی بھی ایسی کہ تقسیم ہند کے بعد نہ پہلے دیکھی نہ اس کے بعد آج تک کبھی دیکھنے کو ملی۔

پاکستان میں اس وقت میاں نواز شریف کی حکومت تھی اور بھارت میں اٹل بہاری واجپائی کی۔ تقسیم ہند کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اس وقت کے پاکستان وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واہگہ بارڈر کے راستے لاہور گئے اور مینار پاکستان سے ’پاکستان ایک حقیقت ہے‘ کو مانا۔

 یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک کا سربراہ اکیلے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ اس کے آس پاس ایک ٹیم ہوتی ہے جو صحیح یا غلط فیصلے کرواتی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی، جن کو جموں و کشمیر میں بھی کافی سراہا جاتا ہے، ان آس پاس بھی جسونت سنگھ جیسے لوگ تھے جو اچھے مشورے دیتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح پاکستان میں بھی میاں نواز شریف کی قیادت میں میچور ٹیم تھی جو بھارت کیساتھ بات چیت کے حوالے سے سنجیدہ تھی۔ دونوں سر براہان نے لاہور میں ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کو ’لاہور ڈیکلریشن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ڈیکلریشن کو دونوں ممالک کے پارلیمان کی توثیق بھی حاصل ہے۔ پھر بدقسمتی سے کارگل والا واقعہ ہو گیا جس کا بقول میاں نواز شریف، خو پاکستان کی سویلین حکومت کو بھی علم نہ تھا۔ اس کے بعد مشرف کی طرف سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس وقت کی بھارت کی قیادت کی قوت برداشت دیکھیں کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت جس کے ساتھ مل جل کر چلنے کا عہد ہوا تھا، اس کو الٹنے کے بعد بھی اٹل واجپائی اور ان کی ٹیم جس میں جسونت سنگھ سر فہرست تھے، نے ڈکٹیٹر مشرف کے ساتھ بھی مذاکرات جاری رکھے۔

ورنہ ہم نے دیکھا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے سے کافی گریزاں ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ مودی حکومت نے پاکستان سے شروع شروع میں مذاکرات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 2014 میں اپنی تقریب حلف برداری کے موقعے پر نواز شریف کو دیگر سارک رہنماؤں کے ہمراہ مدعو بھی کیا تھا۔ 2016 میں تو وہ افغانستان سے واپسی پر میاں صاحب کی دعوت پر اچانک لاہور پہنچ گئے تھے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مودی حکومت بھی نواز حکومت کو زیادہ قابلِ اعتماد سمجھتی تھی۔ اب لگتا ایسے ہے کہ شاید وہ اسلام آباد کی بجائے جی ایچ کیو کو طاقت کا اصل سر چشمہ سمجھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا فون اٹھانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔

 جسونت سنگھ پڑھے لکھے سیاستدان تھے۔ ویسے تو انہوں نے اور بھی کتابیں لکھی ہیں لیکن 2009 میں جسونت سنگھ نے ’جناح: انڈیا، پارٹیشن، انڈیپینڈس‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس پر انہیں پارٹی سے بھی نکال دیا گیا۔ بعد ازاں پارٹی میں دوبارہ شامل کر لیا گیا لیکن 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا اور 2014 میں پھر ایک بار پارٹی سے بے دخل کر دیے گئے۔

اس کتاب میں انہوں نے پاکستان کی بجائے بھارت کو ترجیح دینے والے مسلمانوں کی زبوں حالی کا کھل کر ذکر کیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ محمد علی جناح کا پاکستان بنانے کا فیصلہ بالکل صحیح تھا۔ جموں و کشمیر کے حوالہ سے وہ لکھتے ہیں کہ اگر بھارت کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے دے تو بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین مضبوط اقتصادی روابط بحال ہو سکتے ہیں۔

اس کتاب میں بھارت مسلمانوں کی محرومیاں اجاگر کرنے اور بالخصوص محمد علی جناح کی تعریفیں کرنے پر ان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن جسونت سنگھ اپنی بات پر آخری دم تک ڈٹے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اٹل بہاری واجپائی 1999 میں جب دہلی لاہور بس سروس کے ذریعے لاہور گئے تو میں وزیر خارجہ تھا اور ان کے ساتھ تھا، اسی دوران میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ بھارت میں کسی سیاسی شخصیت کی طرف سے جناح پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ اس خلا کو پر کیا جائے۔‘

اس کتاب میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح شروع میں بہت بڑے سیکیولر تھے۔ لکھنؤ میں 1916 میں مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک میز پر لانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے لکھنؤ سمجھوتہ معرض وجود میں آیا۔ لکھنؤ پیکٹ کی وجہ سے گوپال کرشن گوکھلے نے انہیں ’ہندو مسلم سفیر‘ کا نام دیا تھا جس کو سروجنی نائیڈو نے بار بار دہرایا۔ جسونت سنگھ کی طرف سے اس وقت کی کانگریسی قیادت پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ 

آج کل بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے جیسا کہ سی اے اے و این آر سی اس پر یہ کتاب بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے۔ اقلیتوں کے تئیں جارحانہ پالیسیوں کے تناظر میں یہ بات کانگریسی رہنما ششی تھرور بھی کر چکے ہیں کہ ’اس حکومت نے جناح کے نظریے کو سچا ثابت کر دیا ہے۔‘ 

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارتی سیاست دانوں میں صرف ’ہاک‘ ہیں، انہیں جسونت سنگھ کی اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

 

(کالم نگار کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے اور آپ نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر