’ج سے جہاد‘: طالبان کا خودکش بمبار جو علاج کرنے والا مسیحا بن گیا

اب شمالی برطانیہ میں میوند بنائی سے ملنے والے بہت کم لوگ جان سکتے ہیں کہ وہ کبھی خودکش بمبار بننے جا رہے تھے۔

میوند بنائی (دائیں طرف بیٹھے ہوئے)میدان شار، افغانستان میں طالبان کے ساتھی جنگجوؤں کے ساتھ (انڈپینڈنٹ کو مہیا کردی)

’اے سے احمد، جے سے جہاد، گ سے گن۔‘ ان لفظوں کے ساتھ میوند بانائی نے بچپن میں انگریزی حروف تہجی سیکھے۔ ایک اسلامی مدرسے میں، جو شمال مغربی پاکستان میں قائم پناہ گزین کیمپ کی بنجر زمین پر بکھرے ہوئے کچے مکانات کی شکل میں تھا، جہاں ان کا خاندان افغان خانہ جنگی سے بچ کر آیا تھا۔

تین دہائیاں گزرنے کے بعد وہ دنیا میوند کی موجودہ زندگی سے حد درجہ مختلف محسوس ہوتی ہے۔ اب 45 سالہ میوند شمالی برطانیہ میں این ایچ ایس کے ایک فزیوتھراپی کلینک میں کام کرتے ہیں، جہاں وہ ذیابیطس میں کمی لانے والے کوچ کے طور پر مریضوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔

 وہ فر فر انگریزی بولتے اور فزیوتھراپی لیڈرشپ میں ایم ایس سی مکمل کرنے کے قریب ہیں۔ وہ اپنے نرم مزاج اور پرسکون بھروسہ دینے والے انداز کی بدولت مریضوں میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔

کلینک کی آرام دہ راہداریوں میں ان سے ملنے والے بہت کم لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ کس دنیا سے نکل کر آئے ہیں یا یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہی ہاتھ جو اب دائمی درد کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں، کبھی اے کے47 تھامے ہوئے تھے، جس نے اس نوعمر لڑکے کو یہ احساس دیا تھا کہ ’دنیا میرے قدموں کے نیچے ہے۔‘

زندگی کسی اور رخ پر مڑتی تو میوند شاید آج افغانستان کے بے رحم پہاڑوں میں کہیں طالبان جنگجو کی حیثیت سے جی رہے ہوتے، یا زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ خودکش حملہ آور بن کر مر چکے ہوتے۔ اپنی شہادت کے سب سے بڑے ہدف کا پیچھا کرتے ہوئے۔

یہ کہ وہ دنیا کے دوسرے کنارے پر آکر بیماروں کا علاج کرنے لگے،  جو ہمت اور ثابت قدمی کی غیر معمولی داستان ہے۔

مغربی کابل کے ایک غریب محلے میں پشتون خاندان میں پیدا ہونے والے میوند کی ابتدائی یادیں سوویت قبضے کے سائے میں بنیں۔ تباہ شدہ عمارتیں، راکٹوں کی مسلسل گرج، اور مسلسل بمباری سے اٹھتا ہوا سیاہ، پھیلتا دھواں۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ’جب میں لڑکپن کو پہنچا تو کابل ایک بھوت نگری جیسا ہو چکا تھا۔ وہ کھنڈر بن گیا تھا۔ ہر طرف اجڑی ہوئی زندگیاں تھیں۔ ٹوٹے ہوئے لوگ، کنارے پر دھکیلے گئے انسان۔‘

پھر 1990 کی دہائی کی خانہ جنگی آ گئی۔

مسلسل مدد کرنے والے مغربی ممالک اور امریکہ کی پشت پناہی سے چلنے والے جنگجو گروپوں کے ایک ڈھیلے ڈھالےاتحاد، مجاہدین نے ایک دہائی کی جارحیت اور جبر کے بعد 1989 میں سوویت فوج کو تو نکال باہر کیا، مگر پھر اقتدار اور جنگی غنیمت کی خونریز کشمکش میں انہوں نے اپنی بندوقیں ایک دوسرے پر تان لیں۔

خانہ جنگی نے پورے کے پورے محلے نگل لیے، جیسے اس نے نسلیں نگل لی تھیں اور اسی راکھ سے طالبان اٹھ کھڑے ہوئے۔

طالبان، جس کا مطلب ’طالب علم‘ چند درجن مدرسے کے طلبہ پر مشتمل ایک بے ربط سی ملیشیا کے طور پر سامنے آئے، جن کی قیادت ایک پراسرار عالم، ملا محمد عمر کے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے مجاہدین دھڑوں اور مختلف جنگی سرداروں کے گھناؤنے جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور کہیں کہیں امن و امان کی جھلک بحال کی، جس پر انہیں عوامی حمایت ملی۔
وہ جنوبی افغانستان سے اٹھے اور چند ہی برسوں میں اسلامی قانون کی ایک منفرد جنوبی ایشیائی تعبیر کے تحت ملک کے بیشتر حصے پر حکمرانی کرنے لگے۔

مائیوند بانائی ان بہت کم لوگوں میں سے ہیں جو طالبان کی بھرتی کے نظام کے اندر کی دنیا بیان کر سکتے ہیں۔ ایک ایسا لڑکا جسے کبھی خودکش جنگجو بنانے کے لیے ذهن سازی کی گئی تھی، مگر جو کسی طرح اس سے نکل آیا۔

ان کی کہانی ان مدرسوں اور پناہ گزین کیمپوں کی دنیا کی ایک کھڑکی ہے جنہوں نے محرومی، پروپیگنڈے اور مذہبی قطعیت کے امتزاج سے افغان لڑکوں کی نسلیں تراشی ہیں۔

اور انہیں ڈر ہے کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ انگلینڈ میں اپنے آرام دہ بیٹھک کمرے میں بیٹھے وہ کہتے ہیں، ’میری کہانی ’میں‘ سے شروع ہوتی ہے، مگر یہ میرے بارے میں نہیں ہے۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ ’میرے جیسے سینکڑوں ہزاروں میوند اس وقت تیار کیے جا رہے ہیں۔

’آج کی تاریخ میں افغانستان میں تقریباً سات ملین بچے مدارس میں پڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ممکنہ طور پر اسلام پسند، جنگجو بن سکتے ہیں۔ وہ بھوکے ہو سکتے ہیں، صدموں کے مارے ہوئے، جنسی جبر کا شکار، ذہنی دباؤ میں، اور بالکل بے سہارا۔‘

مائیوند بانائی کی اپنی ابتدائی زندگی بھی ان کے نام سے متاثر تھی۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ اپنے نام ’مائیوند‘ پر پورا اتریں وہ نام جو 1880 کی اس جنگ کی یاد میں رکھا گیا تھا جس میں افغان لشکر نے قندھار کے قریب حملہ آور برطانوی اور ہندوستانی فوجیوں کو عبرت ناک شکست دی تھی۔

مائیوند بانائی کا کہنا تھا کہ ’لیکن میرے والد کی توقعات اور میری حقیقت میں بڑا فاصلہ تھا۔ میں حساس تھا، کتابوں میں گم رہنے والا، اور گلی میں مسلسل تضحیک، مار پیٹ اور تھوک کا نشانہ بنتا تھا۔ بچے مجھے ’افغانی گول‘ کہتے تھے، یعنی بیوقوف۔ یہ ہمیشہ مجھے تکلیف دیتا تھا۔ میں اپنے اصل نام کا حق دار بننا چاہتا تھا۔‘

مزاحمت کے ایک چھوٹے سے عمل میں،میوند بانائی ایک بجلی کے کھمبے پر اپنا نام کندہ کرنے کی کوشش کی۔ جب ان کے سکول کے پرنسپل نے انہیں روکا تو انہیں ذلیل ہونا پڑا۔ ’میری شلوار کا ازار بند ٹوٹ گیا، وہ نیچے گر گئی، اور اس نے مجھے زمین پر دبا دیا یہاں تک کہ دکاندار نے آ کر مجھے چھڑایا۔ اس صورت حال ایسی ثقافت میں شدید ذلت سمجھا جاتا ہے جہاں مردانگی سب کچھ ہو۔

 اس خوف سے کہ والد انہیں بزدل کہیں گے، وہ اگلے دن ایک پتھر لے کر واپس آئے۔ لڑنے کے لیے تیار۔

تقدیر نے کوئی اور ہی راستہ چن رکھا تھا۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ سوویت یونین کے سہارے کھڑی کمیونسٹ حکومت گر گئی ہے اور مجاہدین نے قبضہ کر لیا ہے اور ملک خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اس کے گاؤں میں افراتفری پھیل گئی۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتے: ’گلیاں خالی ہو گئیں، گولیاں چلنے لگیں، راکٹوں کی گرج سنائی دینے لگی۔ اسی ہڑبونگ میں میں گھر کی طرف دوڑا۔‘

یہی وہ وقت تھا جب ان کے خاندان نے کابل چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ بانائی کے والد اپنی معذور بہن کے ساتھ وہیں رک گئے، جبکہ باقی سب دیہات کی طرف نکل پڑے۔

افغان دیہات تو پہلے ہی دس برس سے میدانِ جنگ بنے ہوئے تھے، اور بھاگتے ہوئے اس لڑکے نے ہر طرف جنگ کے زخم دیکھے۔ جلی ہوئے ٹینک، چھوڑی گئی خندقیں، ایسے گاؤں جہاں ہر گھر کے پاس کسی نہ کسی نقصان کی کہانی تھی۔

ایک بستی کے قریب شہداء کا قبرستان تھا۔ جب بھی دیہاتی اس کے پاس سے گزرتے، قبروں پر ہاتھ مار کر کہتے کہ’مبارک ہو، اسلام کو فتح نصیب ہوئی ہے۔ ہم نے روسیوں کو شکست دے دی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ’میری عمر کے لڑکے کے لیے یہ بہت متاثر کن تھا۔ ان کا فخر، ان کا یقین یہ مجھے حیرت میں ڈال دیتا تھا۔‘

چند ماہ بعد کابل میں جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ اپنے والد اور بہن سے دوبارہ ملنے کی امید میں، ابتدائی کم عمری میں ہی،میوند بانائی اور ان کا بھائی پیدل چل کر گھر لوٹ آئے۔ وہ دو تین ہفتے ٹھہرے۔ پھر ایک رات میں ہی جنگ بندی ٹوٹ گئی اور وہ خانہ جنگی کے سب سے سفاک مرحلے میں پھنس گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ’میں نے انسانیت کی بہترین اور بدترین شکلیں دیکھیں۔ اس نے مجھے ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔‘

بالآخر خاندان نے دوبارہ ترک وطن کیا۔ اس مرتبہ پاکستان۔

وہ پشاور کے آس پاس ہی بننے والے ڈیڑھ سو سے زائد پناہ گزین کیمپوں میں سے ایک میں آ بسے۔ وسیع و عریض آبادیاں، جن کی زندگی غربت، سماجی قدامت پسندی، اور مدرسوں کے ایک پیچیدہ جال سے متعین تھی۔ ان کا شمشتو کیمپ وہی جگہ تھی جہاں اسامہ بن لادن نے القاعدہ کے لیے جنگجو بھرتی کیے تھے۔

مائیوند بانائی یاد کرتے ہیں کہ افغان جہاد کے آغاز میں مدرسوں کی تعداد تقریباً 700 تھی، اور سوویت انخلا تک یہ بڑھ کر تقریباً 35 ہزار ہو چکی تھی جن میں سے بہت سے پاکستانی خفیہ اداروں کی براہ راست اور مغربی طاقتوں کی بالواسطہ مدد سے چلتے تھے، جو سیاسی اسلام کو کمیونزم کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’مدرسے میں شہدا کو ہیرو بنایا جاتا تھا۔ خودکش حملہ آور ہمارے لیے مثالی تھے۔ اور مجھے یہ باور کرا دیا گیا تھا کہ پورا مغرب ظالم، وحشی اور مسلمانوں کے دکھوں کا سبب ہے۔‘

ابتدا میں انہیں مذہب میں سکون ملا، لیکن رفتہ رفتہ ان کا یقین سخت، سزا دینے والا اور یک رخی بنتا گیا، جس میں صرف جہاد، قربانی اور آخرت ہی باقی رہ گئی۔

1996 تک، جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تومیوند بانائی لڑنے کی شدید آرزو میں جل رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میری سب سے بڑی خواہش شہادت تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابھی وہ بالکل نوجوان ہی تھے کہ میدان شہر چلے گئے، جہاں ان کے کزن طالبان کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ انہوں نے بندوق تھامی اور شمالی اتحاد کے خلاف لڑنے کی تیاری کر لی، مگر ان کے والد نے تلاش کر کے انہیں ڈھونڈ نکالا، کزنوں سے جھگڑا کیا، اور انہیں گھسیٹ کر واپس لے آئے۔

لیکن جہاد کا کھنچاؤ بہت طاقتور تھا۔ وہ دوبارہ بھاگ نکلے، اس امید پر کہ دارالعلوم حقانیہ میں داخلہ مل جائے۔ وہ بدنام زمانہ’یونیورسٹی آف جہاد‘ جس نے بے شمار طالبان رہنماؤں کو جنم دیا۔ اس سال داخلے بند تھے، مگر انہوں نے اگلے سیشن کے لیے نام لکھوا دیا۔

تب تک وہ بندوق چلانا اور راکٹ لانچر استعمال کرنا سیکھ چکے تھے۔ کندھے پر لٹکی بندوق کے ساتھ چلتے اور ’خود کو بہت اہم محسوس کرتے‘ تھے۔

مگر قسمت نے کچھ اور طے کر رکھا تھا۔ طالبان میں باقاعدہ شامل ہونے کے سفر میں انہیں ایسے کئی واقعات کا سامنا ہوا جنہوں نے پہلی بار ان کے نظریے میں دراڑ ڈالی۔

طالبان کی چوکیوں پر انہیں بار بار روکا گیا۔ پہلی ٹولی نے انہیں نماز پڑھنے کو کہا۔

 جب بانائی نے جواب دیا کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں، تو ایک جنگجو نے دھمکی دی کہ دوبارہ بولے تو ’’30 گولیاں پیٹ میں اتار دوں گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس نے میری انا کو چوٹ پہنچائی۔ ’وہ عزت کی باتیں کرتے تھے، لیکن ہمیں ذلت دیتے تھے۔‘


کابل کے غازی اسٹیڈیم میں انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص کو اپنے بھائی کے قاتل کو خود گولی مارنے پر مجبور کیا گیا، اور دو مبینہ چوروں کے ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ’میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ یہ وہ اسلام نہیں تھا جس پر میرا یقین تھا۔‘

ایک اور دن، سفر کے دوران جب ان کی پگڑی اڑ گئی تو طالبان جنگجوؤں نے انہیں کافر کی نقالی کا الزام دیا۔ ’’کہنے لگے کہ میں نبی کی توہین کر رہا ہوں۔ اس بات کا کوئی مطلب نہیں بنتا تھا۔‘‘ ایسے ہر لمحے نے ان کے مثالی تصور کو گرتا دیا۔

حقانیہ کے اگلے سیشن کا انتظار کرتے ہوئے، ان کے والد نے انہیں زندگی میں ’کچھ کرنے‘ پر زور دیا۔

چپ رہنے کے لیے انہوں نے پشاور کے ایک سیکولر اسکول میں داخلہ لے لیا۔ ایک فیصلہ جس نے ان کی زندگی بدل دی۔

سکول ایک بالکل مختلف دنیا تھی۔ خوش حال گھرانوں کے لڑکے جو شیو کرتے، مغربی اور بھارتی فلمیں دیکھتے، اور کھل کر بات کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں، ’شروع میں میں انہیں ناپسند کرتا تھا۔ وہ سب کچھ تھے جس سے مجھے نفرت کرنا سکھایا گیا تھا۔‘

وقت کے ساتھ وہ ان کی صحبت سے لطف لینے لگے۔ سوالات جنم لینے لگے۔ وسیع تر سوچ نے مذہبی سخت گیری کو چیلنج کیا۔ ’آہستہ آہستہ، اس اسلام پر میرا یقین ختم ہوتا گیا۔‘

آج جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو انہیں مدرسے کا انتہا پسندانہ ڈھانچہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ ’جہادی نصاب‘، فری لانس مولوی، شہادت کے قصے، اور نہ رکنے والا پروپیگنڈا۔

ان کی ذہن سازی اتنی گہری تھی کہ انہوں نے ایک بار اپنے والد کا نیا خریدا ہوا ٹی وی توڑ ڈالا—یہ یقین کرتے ہوئے کہ یہ حرام ہے۔ ’ہمیں بتایا جاتا تھا کہ جس کے گھر ٹی وی ہوتا ہے وہ اپنی ماں بہن کا دلال ہے، کیوں کہ عورتیں فلمی اداکاروں کے بارے میں خیالات رکھیں گی۔‘

بانائی کے بچپن کے افغانستان میں عورتیں ہمیشہ ’سر سے پاؤں تک ڈھکی رہتی تھیں اور مرد ولی کے بغیر کہیں نہیں جا سکتی تھیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اب صورتِ حال عورتوں کے لیے اس سے بھی زیادہ تاریک اور خوفناک ہے اور یہ سب 21 ویں صدی میں ہو رہا ہے۔‘

ٹوٹ جانے کا اصل لمحہ 2001 میں آیا۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد پاکستان کی فوجی حکومت نے امریکہ کو افغانستان پر حملے کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے دی۔ کیمپ کے کچھ لڑکوں نے احتجاج کرتے ہوئے پولیس چوکی پر حملہ کر دیا۔ یہ افواہیں پھیل گئیں کہ پاکستانی خفیہ ادارہ اس واقعے میں ملوث لوگوں کو ڈھونڈ رہا ہے۔ بانائی اُس حملے میں شریک نہیں تھے، مگر نام جڑ جانے کے ڈر سے گرفتاری کا خطرہ تھا۔ ایک ایسا وقت جب انتہا پسندی کے معمولی شبے پر بھی لوگوں کو اٹھایا جا رہا تھا۔ وہ بھاگ نکلے۔

بھاگنے کی پہلی کوشش میں وہ لاہور کی جیل پہنچ گئے، کیونکہ وہ بغیر پاسپورٹ سفر کرتے پکڑے گئے تھے، اور تین ماہ وہاں رہے۔

رہائی کے بعد انہوں نے ٹریول ایجنٹوں سے رابطہ کیا جنہوں نے انہیں بغیر قانونی دستاویزات پشاور سے دبئی پہنچایا، وہاں جعلی پاکستانی پاسپورٹ دیا، پھر روس لے گئے جہاں انہیں ایک ماہ ایک کمرے میں رکھا، اور آخرکار برطانیہ پہنچا دیا۔

ماضی کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس لڑکے پر ’افسوس‘ ہوتا ہے۔ ’میں ناتجربہ کار، بے بس، غریب اور بہت بھولا تھا۔‘

2002 میں برطانیہ پہنچ کر بانائی نے خود ہی انگریزی سیکھی اور بہتر زندگی کی طرف قدم بڑھائے۔

میوند بانائی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب Delusions of Paradise: Escaping the Life of a Taliban Fighter اپریل 2025 میں آئیکن بکس نے شائع کی تھی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا