افغان طالبان کا بلخ سے فائبر آپٹک انٹرنیٹ پر پابندی کا آغاز

اس حکم نامے پر عمل درآمد شمالی افغانستان کے صوبہ بلخ کے صدر مقام مزار شریف سے شروع ہوا اور توقع ہے کہ دیگر شہروں میں بھی اس پر عمل درآمد ہونے والا ہے۔

ایک افغان ادارے کے ملازمین کو کمپیوٹر کے استعمال کی تربیت دی جا رہی ہے (UniSalam/X)

 

طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے ’برائی کے خاتمے‘ کے لیے نئے حکم نامے کو بنیاد بناتے ہوئے صوبہ بلخ میں حکام نے فائبر آپٹک انٹرنیٹ کی رسائی کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس حکم نامے پر عمل درآمد شمالی افغانستان کے صوبہ بلخ کے صدر مقام مزار شریف سے شروع ہوا اور توقع ہے کہ دیگر شہروں میں بھی اس پر عمل درآمد ہونے والا ہے۔

بلخ میں طالبان کے صوبائی دفتر کے ترجمان حاجی زید نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ’ملک کے اندر ایک متبادل حل‘ بنانے کا حکم دیا ہے۔

یہ حکم مزار شریف سمیت شمالی افغانستان کے بعض شہروں میں سرکاری ملازمین کو سرکاری افغان ٹیلی کام انٹرنیٹ تک رسائی سے روکے جانے کے پانچ دن بعد آیا ہے۔ باخبر ذرائع نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ اس اقدام سے ان سرکاری اداروں کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں جنہوں نے کئی سال قبل انتظامی امور کو ڈیجیٹائز کرنا شروع کیا تھا۔

جو ادارے متاثر ہوئے ہیں ان میں پاسپورٹ ایجنسی، سول رجسٹری، کسٹم، بندرگاہیں، سرکاری اور نجی بینک، میڈیا اور دیگر ادارے جو اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں، شامل ہیں۔

بلخ میں طالبان کے صوبائی دفتر کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ گروپ کے سربراہ کے حکم پر عوام کو انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لیے ملک کے اندر ایک ’متبادل حل‘ تیار کیا جائے گا، لیکن انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ حل مہنگا ہے اور اس پر جلد عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔

مزار شریف میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران درجنوں چھوٹی اور بڑی کمپنیوں نے پورے افغانستان میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ خدمات فراہم کرنے میں سرمایہ کاری کی ہے، اس منصوبے پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں، اور یہ کہ طالبان رہنما کا حکم ان سب کو ختم کر دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے کلائنٹس بشمول کاروباری و تعلیمی ادارے اور دیگر گروپس پیر سے انہیں تشویش کے ساتھ فون کر رہے ہیں اور انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں، فائبر آپٹک انٹرنیٹ کی توسیع کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اسے اپنے گھروں تک انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے خریدا ہے۔ فائبر آپٹک انٹرنیٹ، جو کہ ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس سے زیادہ تیز ہے، افغانستان کے تمام شہروں تک پہنچا دیا گیا ہے، اور متبادل حل بنانے میں مہینوں یا سال لگ سکتے ہیں۔

طالبان کے صوبائی ترجمان کے پیغام کے ایک حصے میں کہا گیا ہے کہ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے اس اقدام کی وجہ ’برے کاموں کو روکنا تھا۔‘ اس سے قبل طالبان کے کچھ ارکان نے میڈیا میں رات 10 سے صبح 8 بجے تک ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ نیٹ ورکس کو بند کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

اگرچہ طالبان رہنما کے پیغام کے بارے میں ابھی تک کوئی وضاحت فراہم نہیں کی گئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، جیسا کہ بلخ کے باخبر ذرائع نے بتایا کہ ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کو اس حوالے سے ایک سفارش موصول ہوئی ہے، لیکن کابل میں طالبان کے سینیئر حکام ابھی تک اس پر عمل درآمد کے حوالے سے کسی معاہدے پر نہیں پہنچے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یوسف وفا، بلخ کے طالبان گورنر، قندھار کی ایک طاقتور شخصیت اور ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے قریب سمجھے جاتے ہیں، صوبے میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے والے پہلے طالبان گورنر ہیں۔

افغانستان پر نظر رکھنے والے ایک افغان صحافی بلال سروری کا خیال ہے کہ طالبان رہنما کے اس حکم نامے کی طرح جانداروں کی تصاویر کی اشاعت اور تقسیم پر پابندی کے حکم نامے کو بھی گروپ کے رہنماؤں کے اندر اختلاف ہے۔

اپنی فیصلہ سازی کی طاقت کے باعث، یوسف وفا نے بلخ میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی کے حکم نامے پر عمل درآمد کیا، لیکن طالبان کے وزیر مواصلات اور ٹیکنالوجی اس حکم نامے سے اتفاق نہیں کرتے اور اسی وجہ سے اسے پورے افغانستان میں ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا۔

جانداروں کی تصاویر نشر کرنے پر پابندی کا حکم نامہ، جو اگست 2024 میں جاری کیا گیا تھا اب تک افغانستان کے 24 میں سے تقریباً 20 صوبوں میں لاگو ہو چکا ہے، لیکن طالبان سرکاری میڈیا اور نجی میڈیا پر نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہت سے طالبان اہلکار بھی اس حکم نامے کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی میٹنگز اور کانفرنسوں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرتے ہیں۔

تاہم افغان سوشل میڈیا صارفین نے طالبان رہنما کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اس حکم نامے کے نتائج جانداروں کی تصاویر کی اشاعت پر پابندی سے زیادہ تباہ کن ہو سکتے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ تک رسائی منقطع کرنے سے بہت سے کاروبار متاثر ہوں گے۔

طالبان حکومت کی طرف سے خواتین پر تعلیم اور ملازمت پر پابندی کے بعد، بہت سی لڑکیوں اور خواتین نے آن لائن تعلیم اور سائبر سپیس میں کام کرنے کا رخ کیا۔ تیز رفتار انٹرنیٹ کی کمی ان لڑکیوں اور خواتین کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتی ہے۔

ایرانی مصنفین پر پابندی

ادھر بی بی سی پشتو کی ایک خبر کے مطابق طالبان حکومت کی وزارت اعلیٰ تعلیم نے اس ماہ کے آغاز میں سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو دو ہدایات جاری کیں، جن میں تدریسی مواد، مضامین، اور تدریسی وسائل پر نئی پابندیاں عائد کی گئیں ہیں۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس نے دونوں ہدایات کی کاپیاں حاصل کی ہیں جن کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں 18 مضامین اور تدریسی مواد پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس حکم نامے کے مطابق ایرانی مصنفین کی تعلیم اور ایران میں شائع ہونے والی کتابوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے لکھے ہوئے کام ممنوع ہیں۔

طالبان کی حکومت میں اعلیٰ تعلیم کے نائب وزیر برائے تعلیم ضیا الرحمن آریوبی نے ڈائریکٹوریٹ آف یونیورسٹیز اور ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز کو لکھے ایک خط میں کہا ہے کہ گذشتہ دور حکومت کے کچھ تدریسی مواد اور مضامین جو ’شرعی اصولوں اور حکومت کی پالیسیوں‘ سے متصادم ہیں اور ان پر نظرثانی نہیں کی گئی۔ انہوں نے خط پر ’شیخ الحدیث‘ کے طور پر دستخط کیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ