صحافیوں کے تحفظ اور حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے ایک بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے صحافیوں کے خلاف ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے جس کے تحت ان کے جبری ’اعترافات‘ کو آن لائن نشر کیا جاتا ہے۔
بدھ کو جاری اس بیان میں تنظیم کا کہنا ہے کہ ایک افغان نیوز ایجنسی کے صحافی مہدی انصاری کو ’طالبان مخالف پروپیگنڈا‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، انہیں زبردستی اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا جو بعد میں فیس بک پر نشر کیا گیا۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اس طریقہ کار کی مذمت کرتے ہوئے مہدی انصاری اور دیگر چھ صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
تنظیم کا اصرار ہے کہ مہدی انصاری کا واقعہ واحد نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ طالبان حکومت کے تحت صحافیوں کو دبانے کی ایک نئی روش کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا زبردستی اعتراف 2 اکتوبر 2025 کو ’وائس آف دی ہندوکش‘ نامی فیس بک پیج پر پوسٹ کیا گیا۔
آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ یہ پیج طالبان کی انٹیلی جنس ایجنسی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس (جی ڈی آئی) کے ساتھ وابستہ ہے۔ مہدی انصاری پر الزام تھا کہ انہوں نے حکومت کے خلاف ’زہریلا پروپیگنڈا‘تیار کیا۔ ان پر سابق افغان میڈیا کے ساتھ تعاون کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
آر ایس ایف کے بیان پر افغان طالبان کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
مہدی انصاری 5 اکتوبر 2024 کو کابل میں اپنے دفتر سے نکلنے کے بعد غائب ہو گئے تھے۔ ان کے خاندان نے جلد ہی تصدیق کی کہ انہیں جی ڈی آئی کے ایجنٹوں نے گرفتار کیا۔ 1 جنوری 2025 کو، جی ڈی آئی کے سینٹر میں قید کے دوران، انہیں ’اسلامی امارت کے خلاف پروپیگنڈا‘ تیار کرنے کے جرم میں ایک سال اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ بعد میں انہیں بگرام جیل منتقل کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آر ایس ایف کی جنوبی ایشیا کی ڈیسک کی سربراہ سیلیا مرسیئر نے کہا کہ مہدی انصاری کا زبردستی ’اعتراف‘طالبان کی انٹیلی جنس روسز کی طرف سے خوف پھیلانے کی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی آئی صحافیوں کو مجرم بنانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کی حراست کو جائز قرار دیا جا سکے۔ ’یہ عوامی توہین افغانستان میں صحافیوں پر دباؤ کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہیں۔‘
آر ایس ایف نے اس طریقہ کار کی مذمت کی اور مہدی انصاری اور دیگر سات دیگر صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جو اس وقت صوابدیدی طور پر حراست میں لیے گئے ہیں۔
مہدی انصاری کی طرح دیگر صحافیوں جیسے کہ توانا نیوز ایجنسی کے ڈائریکٹر اور افغانستان جرنلسٹس آرگنائزیشن اور میڈیا فیڈریشن کے سربراہ ابوزر سرم سارے پل اور جاپان کے این ٹی وی کے نامہ نگار شکیب نذری کو بھی زبردستی ’اعتراف‘ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انہیں 30 جولائی اور 21 اگست کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کردہ ویڈیوز میں دیکھا گیا۔ یہ تینوں طالبان کی جیلوں میں موجود ہیں، جن میں دیگر صحافی بھی شامل ہیں۔
انہیں محمد بشیر ہاتف کے ساتھ، جو افغانستان جرنلسٹس آرگنائزیشنز اینڈ میڈیا فیڈریشن کے عبوری ڈائریکٹر ہیں،24 جولائی 2025 کو جی ڈی آئی کے چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
کم از کم تین دیگر صحافیوں کے ساتھ یہ تینوں طالبان کی جیل میں ہیں۔ دیگر میں فری لانس صحافی حامد فرہادی بھی شامل ہیں، جنہیں اکتوبر 2024 میں ’امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف پروپیگنڈا‘ کرنے کے الزام میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں پچھلے مہینے ایک جلاوطن میڈیا آؤٹ لیٹ کے ساتھ تعاون کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سال کے آغاز سے دو دیگر صحافیوں کو قید کیا گیا ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صحافیوں پر پابندیاں بڑھ گئی ہیں۔ 29 ستمبر سے 1 اکتوبر 2025 تک، ملک کو انٹرنیٹ اور موبائل فون کی خدمات سے محروم کر دیا گیا۔ یہ اقدام طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے ’برائیوں‘ کے خلاف کارروائی کے نام پر کیا گیا۔
جب سے طالبان نے اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار سنبھالا ہے، 165 سے زائد صحافی گرفتار ہو چکے ہیں۔ افغانستان 2025 کے آر ایس ایف عالمی پریس کی آزادی کے انڈیکس میں 180 ممالک میں 175 نمبر پر ہے۔