نئی امریکی سلامتی کی حکمت عملی پر روس خوش، پاکستان کا ذکر نہیں

ٹرمپ 2.0 کی عالمی نظریے کی اس دستاویز میں تاہم انڈیا کے سرسری ذکر کے علاوہ افغانستان یا پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

امریکہ کی نئی سلامتی حکمت عملی کا سرورق (وائٹ ہاؤس ویب سائٹ)

روس نے تین روز قبل امریکہ کی جانب سے جاری قومی سلامتی کی حکمت عملی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’بڑے پیمانے‘ پر ماسکو کے وژن کے مطابق قرار دیا ہے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ امریکی پالیسی میں تبدیلی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ دونوں ممالک یوکرین کے مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کریں۔

29 صفحات پر مبنی نئی پالیسی اب روس کو امریکہ کے لیے خطرہ نہیں سمجھتی اور دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’یوکرین میں دشمنی کے تیزی سے خاتمے کے لیے مذاکرات‘ واشنگٹن کے بنیادی مفادات میں سے ایک ہیں۔

رپورٹ میں غیر ملکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے، وسیع پیمانے پر بدعنوانی کے خاتمے اور یورپی یونین کی نام نہاد ’سنسر شپ‘ کی پالیسیوں کو دیگر ترجیحات کے طور پر مسترد کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

یہ حکمت عملی یہ بھی انتباہ کرتی ہے کہ یورپ کو ’تہذیب کے خاتمے‘ کے خطرے کا سامنا ہے۔

یورپی یونین کے بعض عہدیداروں اور تجزیہ کاروں نے صدر ٹرمپ کی حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے اسے بہت زیادہ روسی جیسا قرار دیا ہے۔ کچھ یورپی سیاست دانوں نے سوال کیا ہے کہ کیا امریکہ اب اتحادی سے دشمن بن گیا ہے۔

روایتی طور پر امریکہ کی سلامتی کی حکمت عملی کا محور روس، چین اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر رہا ہے جو اب لاطینی امریکہ اور کیریبین میں منتقل ہو چکا ہے۔

دمتری پیسکوف نے اتوار کو سرکاری خبر رساں ایجنسی TASS کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’ہم جو تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں... وہ بڑی حد تک ہمارے وژن سے مطابقت رکھتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم اسے ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں‘ تاہم واضح کیا کہ ماسکو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے دستاویز کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تجزیہ کاروں کے مطابق اس حکمت عملی میں روس کے خلاف نرم زبان استعمال کی گئی ہے، جس سے یورپی یونین کے حکام کو تشویش ہے کہ ماسکو کے خلاف ان کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے کیونکہ یوکرین میں جنگ کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

ایشیا

اس پالیسی میں ایشیا کو امریکہ کے لیے ایک ترجیحی میدان کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ یہ پالیسی چین کے بارے میں بہت تصفیل سے بات کرتی ہے، اور صدر ٹرمپ کے اس سے نمٹنے کے طریقوں کی وضاحت کرتی ہے۔

فارین پالیسی میگزین کے مطابق، جیسے ہی رپورٹ نومبر 2025 میں جاری ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی قومی سلامتی کی حکمت عملی کو ایک متوقع تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دستاویز، ٹرمپ کے "امریکہ پہلے" کے جذبات کو ایک خارجہ پالیسی کے نظریے میں تبدیل کرنے کی کوشش تھی، نے بلند پرواز مقاصد کو طریقوں اور وسائل کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا؛ مقاصد میں ترجیحات کا تعین نہیں کیا؛ اور اصل صدارتی ارادے کو واضح نہیں کیا۔ یہ تنقیدیں بالکل درست ہیں۔

ایک نارویجن  سفارت کار ایرک سُلہیم نےایکس  پر اس حکمت عملی کا خلاصہ پیش کیا: ’ اس ہفتے جاری کردہ نئی امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے اصل عنوانات ہیں۔ امریکہ کو غالب بناؤ، چین کا احترام کرو، یورپ کو کمزور کرو، بھارت کو نظر انداز کرو، مشرق وسطیٰ سے پیچھے ہٹو، افریقہ کی کوئی پرواہ نہ کرو۔ یہ یہ حکمت عملی پہلی بار امریکہ سرکاری طور پر تسلیم کرتا ہے کہ امریکہ اب دنیا کو نہیں چلا سکتا۔ عالمی غلبے سے امریکہ کا پیچھے ہٹنا خوش آئند ہے۔ باقی ہم سب کو اس موقع پر اٹھنا ہوگا اور نئے عالمی نظام کو تشکیل دینا ہوگا۔‘

ٹرمپ 2.0 کی عالمی نظریے کی اس دستاویز میں تاہم انڈیا کے سرسری ذکر کے علاوہ افغانستان یا پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

دستاویز میں یورپی یونین پر جنگ کے خاتمے کی امریکی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امریکہ کو روس کے ساتھ ’تزویراتی استحکام دوبارہ قائم کرنا‘ چاہیے جو ’یورپی معیشتوں کے استحکام کا باعث بنے گا۔‘

نئی رپورٹ میں ’مغربی شناخت‘ کے احیا کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یورپ ’20 سال یا اس سے کم عرصے میں ناقابل شناخت ہو جائے گا۔‘

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کچھ یورپی ممالک کے پاس اتنی مضبوط معیشتیں اور فوجیں ہوں گی کہ وہ قابل اعتماد اتحادی رہیں۔‘

جیسا کہ امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے خلاف ردعمل جاری ہے، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی امن منصوبے پر یورپی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے لیے لندن جا رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا