غزہ کے لوگوں کو سردیوں سے نفرت ہو گئی ہے

کبھی غزہ میں سردیاں آرام دہ اور خوشگوار ہوا کرتی تھیں، لیکن اب سیلابی پانی اور ہڈیوں میں گھس جانے والی یخ بستہ ہوائیں یہاں کے باسیوں کے صبر اور استقامت کا امتحان لے رہی ہیں۔

25   نومبر 2025 کو غزہ سٹی میں اپنے گھر تباہ ہونے کے بعد بے گھر ہونے والے فلسطینی بارش کے باعث شدید سردی میں آگ جلا کر بیٹھے ہیں (اے ایف پی)

بچپن ہی سے مجھے سردیوں سے پیار تھا۔ جیسے ہی کالی گھٹائیں آسمان کو ڈھانپ لیتیں اور بارش کے قطرے زمین پر گرتے، ہمارا پورا خاندان دادا دادی کے گھر جمع ہو جاتا۔ میں اپنے دادا کے پہلو میں بیٹھ جاتا، وہ آگ جلاتے اور دادی چائے کی کیتلی گرم ہونے کے لیے رکھ دیتیں۔ ہمارے لیے سردیاں سکون کا موسم تھیں، ہمیں کبھی ٹھنڈ نہیں لگتی تھی۔

دن کے وقت میں اور میرے کزن گلیوں میں جگہ جگہ پھیلے پانی کے گڑھوں میں ننگے پاؤں بھاگتے، ’غمیمہ‘ (چھپن چھپائی) کھیلتے اور دیواروں اور درختوں کے پیچھے چھپتے، جبکہ بارش ہمیں سر سے پاؤں تک بھگو دیتی۔ مجھے یاد ہے کہ امی ہمیں ڈانٹتیں کہ بیمار ہونے سے پہلے اندر آ جاؤ۔ رات کو دادا ہمیں 1960 کی دہائی کے اپنے سفروں کی کہانیاں سناتے۔

جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا، میں سردیوں کا زیادہ وقت دوستوں کے ساتھ گزارنے لگا۔ ہم اپنے مستقبل کے خوابوں اور گریجویشن کے بعد کے منصوبوں پر بات کرتے۔ کبھی کبھار خالد، محمود اور میں محمد حمو (جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، خدا ان کی مغفرت کرے) کے گھر ملتے۔ ہم آگ جلاتے، لکڑیوں پر اپنی پسندیدہ چائے بناتے، تاش کھیلتے یا فلمیں اور ٹی وی سیریز دیکھتے۔

گھر پر اگر بارش کی آواز فضا میں گونجتی یا پڑھائی کا بوجھ محسوس ہوتا تو میں اپنے کمرے کی بالکونی میں نکل جاتا تاکہ بارش کا نظارہ کرتے ہوئے ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہو سکوں۔ اس بالکونی سے غروب آفتاب دیکھنا میری عادت تھی۔ سردیوں میں یہ منظر اس وقت اور بھی حیران کن اور دلکش ہو جاتا جب مسافر پرندے ساحل کے ساتھ ساتھ واپس لوٹتے اور آسمان پر مختصر مگر خوبصورت ڈایزائن سے بنا دیتے۔

غزہ پر اسرائیلی حملے نے سردیوں کے بارے میں میرے تمام اچھے جذبات کو ملیامیٹ کر دیا۔ میرے خاندان کو 13 اکتوبر 2023 کو بغیر بستر یا گرم کپڑوں کے انخلا کرنا پڑا۔

بالآخر ہم چند کمبل خریدنے کے قابل ہوئے، جن میں سے ہر ایک ہمیں تقریباً 35 ڈالر کا پڑا۔ میرے چھوٹے بھائی اور میرے پاس اوڑھنے کے لیے صرف ایک ہی کمبل تھا۔ چند ہفتوں بعد ہم ایک سکول کے صحن میں سو رہے تھے۔ سردیوں کی ہوائیں بے رحمی سے چل رہی تھیں۔ میں ٹھنڈ سے کانپتا ہوا اٹھا تو دیکھا کہ میرا کمبل بارش سے گیلا ہو چکا تھا۔ اس دن سے مجھے سردیوں سے نفرت ہو گئی ہے۔

ہزاروں خاندانوں نے ہمارے جیسے حالات کا سامنا کیا ہے۔ 19 سالہ اسماعیل عابد، جو اپنے 14 افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ کمبلوں کو سی کر بنائے گئے ایک چھوٹے سے عارضی خیمے میں رہتے تھے، کئی بار پانی میں بھیگے ہوئے نیند سے جاگے۔ یہ خاندان موسم کی شدت سے کچھ دیر بچنے کے لیے اپنے پڑوسی کے خیمے میں پناہ لیتا تھا۔

اسماعیل نے مجھے بتایا: ’جب تک ہمیں یو این آر ڈبلیو اے (UNRWA) سے خیمہ نہیں ملا، ہم ہر بارش میں ڈوب جاتے تھے۔‘ (انہوں نے یہ خیمہ ایک اور بے گھر خاندان کے ساتھ شیئر کیا)۔ ’اس نئے خیمے نے ہمیں بارش سے تو بچا لیا لیکن ہوا کی وجہ سے ہونے والی شدید ٹھنڈ اور اوپر سے ناکافی کمبل، یہ سب واقعی ناقابل برداشت تھا۔‘

ہمارے اپنے خیمے میں اتنے لوگ تھے کہ ہمارے پاس خود کو گرم کرنے کے لیے آگ جلانے کی جگہ نہیں تھی۔ سردیوں میں کھانا پکانا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ہمارے پاس کوکنگ گیس نہیں تھی کیونکہ اسرائیلی قبضے نے اسے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے سے روک رکھا تھا۔ جہاں ہم کھانا پکانے کے لیے آگ جلاتے تھے اس جگہ چھت نہیں تھی، اس لیے جب بھی بارش ہوتی، آگ بجھ جاتی۔

خیمے میں رہنے کا مطلب تھا کہ ہمیں روزانہ اشیائے خورد و نوش خریدنے کے لیے جانا پڑتا تھا، کیونکہ ہمارے پاس فریج تو کیا چوہوں اور لال بیگوں سے کھانا محفوظ رکھنے کی کوئی جگہ تک نہیں تھی۔ کبھی کبھی ہمیں بازار سے آٹا یا چاول جیسی ضروری اشیا لانے کے لیے بارش میں تقریباً دو گھنٹے پیدل چلنا پڑتا۔

شمالی غزہ میں میرے ایک دوست محمد ابو المہزہ سردیوں کے دوران کئی بار بے گھر ہوئے۔ دسمبر 2023 میں محمد کے خاندان کو مغربی غزہ کے الشاطی کیمپ سے نکل کر الشیخ رضوان محلے کی طرف بارش میں پیدل جانا پڑا۔

انہوں نے بتایا: ’اگلے دن مجھ سمیت میرا پورا خاندان بیمار پڑ گیا۔ ہم 10 دن سے زیادہ بیمار رہے کیونکہ ادویات بہت کم تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

23 سالہ اسامہ عدس ستمبر میں اپنے خاندان کے ساتھ شمال سے جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کر گئے تھے۔ وہ جنوب میں کسی کو نہیں جانتے تھے، اس لیے سمندر سے تقریباً 20 میٹر کے فاصلے پر خیمہ لگا لیا۔ ساحلی ہوائیں رات کو ہڈیوں میں گھس جاتی تھیں، اس لیے خاندان اس دن کا انتظار کرتا رہا جب وہ واپس شمال جا سکیں گے۔

جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اسامہ گھر واپس آئے تو دیکھا کہ چار منزلہ عمارت تباہ ہو چکی ہے۔ خاندان کی واپسی کی تیاری کرنے کے بجائے، انہیں فوری طور پر واپس جنوب کی طرف پیدل جانا پڑا اور اپنے والد سے کہا کہ خیمہ لگانے کے لیے کوئی بہتر جگہ تلاش کریں۔

یہ خاندان اب بھی کسی محفوظ پناہ گاہ کے بغیر دربدر ہے۔ دیر البلح کے مشرقی علاقے المشاعلہ میں ان کا نیا خیمہ انہیں بارش سے تو بہتر تحفظ دے سکتا ہے، لیکن ہوا سوراخوں سے اندر گھس آتی ہے۔ اسامہ نے مجھے بتایا: ’مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سردی میں کیسے زندہ رہوں گا۔ ابھی شدید بارشیں نہیں آئیں، لیکن اس کے باوجود خیمے کے اندر بارش کا پانی ٹپک رہا ہے۔‘

جب سے بارش کا پہلا قطرہ گرا ہے، میں نے اس موسم کے ختم ہونے کی دعا کی ہے۔ سردیاں کبھی گرم جوشی، قہقہوں اور خوبصورتی کا موسم ہوا کرتی تھیں، لیکن غزہ میں یہ خوف، جدوجہد اور برداشت کا وقت بن گئی ہیں۔

اب سردیاں ایک اور ہی داستان سناتی ہیں یعنی جڑ سے اکھڑی زندگیوں کی، ناممکن حالات میں بقا کی اور اس امید کی کہ ایک دن یہ موسم اپنے پرانے سکون کی طرف لوٹ آئے گا اور غزہ کے بچے دوبارہ بغیر کسی خوف کے بارش میں ننگے پاؤں بھاگیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر