ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کی ایک اہلکار نے ممالک سے التجا کی ہے کہ وہ دسیوں ہزار غزہ کے باشندوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیں جنہیں طبی انخلا کی اشد ضرورت ہے، اور متنبہ کیا ہے کہ سینکڑوں پہلے ہی انتظار میں مر چکے ہیں۔
ایم ایس ایف کے لیے غزہ سے طبی ضرورتوں کے تحت لوگوں کا انخلا مربوط کرنے والی اہلکار ہانی اسلیم نے کہا کہ ’ضرورت واقعی بہت زیادہ ہے۔‘
اسلم نے منگل کو ایک انٹرویو میں اے ایف پی کو بتایا کہ اب تک مختلف ممالک کی طرف سے جو تعداد حاصل کی گئی ہے وہ ’سمندر میں صرف ایک قطرہ‘ ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ میں اب تک آٹھ ہزار سے زیادہ مریضوں کو غزہ سے باہر نکالا جا چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 16500 سے زیادہ مریضوں کو ابھی بھی فلسطینی سرزمین سے باہر علاج کی ضرورت ہے۔
شدید بیمار اور زخمی غزہ کے بچوں کے ساتھ علاج کے لیے سوئٹزرلینڈ جانے کے بعد جنیوا میں ایم ایس ایف کے ہیڈ کوارٹر میں بات کرتے ہوئے، اسلیم نے کہا کہ یہ تعداد صرف طبی انخلا کے لیے رجسٹرڈ مریضوں کی بنیاد پر تھی جبکہ حقیقی تعداد بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا اندازہ ہے کہ یہ تعداد اس سے تین سے چار گنا زیادہ ہے۔‘
آج تک 30 سے زیادہ ممالک فلسطینی مریضوں کو قبول کر چکے ہیں، لیکن مصر اور متحدہ عرب امارات سمیت صرف چند ایک نے بڑی تعداد میں مریضوں کو قبول کیا ہے۔
یورپ میں اٹلی 200 سے زیادہ مریض لے چکا ہے، جبکہ فرانس اور جرمنی جیسے بڑے ممالک نے ابھی تک کوئی مریض نہیں لیا ہے۔
نومبر میں سوئٹزرلینڈ نے غزہ کے 20 بچوں کو لیا جو دو گوروپوں میں پہنچے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو ماہ سے 16 سال کی عمر کے 13 بچوں میں جن کے ساتھ اسلیم گذشتہ ہفتے گئی تھیں میں چار بچے جن میں پیدائشی طور پر دل کی شدید بیماری تھی، ساتھ ہی کینسر کے مریض اور پیچیدہ آرتھوپیڈک سرجری کی ضرورت والے بچے بھی شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر بچے سوئٹزرلینڈ پہنچنے کے بعد سیدھے سرجری کے لیے گئے تھے تاکہ ’ناقابل واپسی نقصان‘ سے بچا جا سکے۔
اسلیم نے افسوس کا اظہار کیا کہ جیسے جیسے غزہ کے حالات مزید مایوس کن ہوتے جا رہے ہیں، طبی انخلا کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔
ابتدائی طور پر اوسطاً ہر ماہ تقریباً 1500 مریض چلے جاتے تھے، لیکن مئی 2024 میں اسرائیل کی جانب سے رفح کراسنگ کو مصر میں بند کرنے کے بعد، ماہانہ اوسط کم ہو کر 70 کے قریب رہ گئی ہے۔
10 اکتوبر کو نافذ ہونے والی امریکی ثالثی سے جنگ بندی عمل میں تیزی لاتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
اسلیم نے نشاندہی کی کہ حالیہ مہینوں میں اسرائیلی حکام کی جانب سے انکار کی شرح اوسطاً 90 فیصد سے گھٹ کر صرف پانچ فیصد رہ گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اب بھی بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ’کسی بھی مریض کو علاج تک رسائی کے لیے غزہ چھوڑنے سے نہیں روکا جانا چاہیے۔‘