صحافی سہراب برکت جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار ملزم کی عدالت نے درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے۔

لاہور کی مقامی عدالت نے ڈیجیٹل میڈیا پیلٹ فارم کے لیے کام کرنے والے صحافی سہراب برکت کو سائبر کرائم ایکٹ کے تحت درج دو مقدمات میں گرفتاری کے بعد جمعے کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ہے۔

اسلام آباد ایئرپورٹ سے ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار ملزم کی عدالت نے درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے۔

پاکستان میں سائبر کرائم ایکٹ کا قانون بننے کے بعد سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اور ڈیجیٹل میڈیا صحافیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔

اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور سائبر کرائم روکنے کے لیے موجودہ دور حکومت میں قائم نیشنل سائیبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کی جانب سے بھی کارروائیاں جاری ہیں۔

اس بارے میں بنائے گئے پیکا ایکٹ قوانین کے خلاف پاکستان کی صحافتی تنظیموں نے احتجاج بھی کیے تھے اور اب بھی ان کارروائیوں پر ان تنظیموں کے تحفظات برقرار ہیں۔

سہراب برکت کے وکیل سعد رسول نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سہراب برکت کے خلاف ایف آئی اے کے ذیلی شعبے این سی سی آئی اے نے لاہور میں پیکا ایکٹ کے تحت دو مختلف مقدمات درج کر رکھے ہیں۔ اسلام آباد ائیر پورٹ سے گرفتاری کے بعد قانون کے مطابق 24 گھنٹوں کی بجائے دو دن بعد عدالت پیش کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ان پر لگائے گئے الزامات بھی ایف آئی اے کی اپنی تفتیش کے مطابق بے بنیاد ہیں۔ ان کی ضمانت مقامی عدالت نے خارج کی ہے اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے، لیکن ہم جلد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کریں گے۔‘

ایف آئی اے حکام نے عدالت میں بتایا کہ ’سہراب برکت کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت ملکی اداروں کے خلاف جھوٹا پروپیگںڈہ پر مبنی مواد پھیلانے پر این سی سی آئی اے میں دو مقدمات درج ہیں۔ ایک 25 نومبر جبکہ دوسرا تین دسمبر کو درج کیا گیا تھا۔

’ان مقدمات میں ملزم کی گرفتاری بھی ڈالی گئی ہے۔ لہذا ان سے لیپ ٹاپ اور موبائل برآمدگی کے لیے جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے۔‘

معاملہ ہے کیا؟

سہراب برکت جو سیاست ڈاٹ پی کے نامی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے لیے بطور صحافی کام کرتے ہیں جس کے مالک عدیل حبیب کو بھی ان میں سے ایک مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے بارے میں تحریک انصاف کی حمایت کا تاثر پایا جایا جاتا ہے۔

سہراب برکت نامی صحافی کو 24 نومبر کی رات اسلام آباد ائیر پورٹ سے اس وقت ایف آئی اے نے گرفتار کیا جب وہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام برازیل میں کلائمیٹ چینج سے متعلق ایک سیمینار میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔

ان کے وکیل سعد رسول کے مطابق ’سہراب نے جب 14 نومبر کو برازیل روانہ ہونا تھا تو انہیں ایف آئی کی جانب سے پیغام ملا کہ وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔ لہذا ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں وہ سفر کر سکتے ہیں۔

’لیکن جب انہوں نے عدالتی حکم کے مطابق سفر کرنے کی کوشش کی تو گرفتار کر لیا گیا۔ جو نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ توہین عدالت بھی ہے جس کی درخواست ہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کر رہے ہیں۔‘

ایف ائی اے نے ملزم کو اسلام آباد سے گرفتاری کے بعد 26 نومبر کو لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ نعیم وٹو کی عدالت میں پیش کیا اور چار روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا۔

ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے خلاف ایک ایف آئی آر ملکی اداروں کے خلاف جھوٹی سٹوری ایڈٹ کرنے اور دوسری ایک سیاسی رہنما (صنم جاوید) کی سکیورٹی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ پر مبنی ویڈیو اپنے یوٹیوب چینل پر چلانے کی ہے جس میں اس پلیٹ فارم کا مالک عدیل حبیب بھی نامزد ہے۔

جمعے کو ملزم کے وکیل نے درخواست ضمانت دائر کی جو عدالت نے یہ قرار دے کر خارج کر دی کہ اس مقدمہ میں جو دفعات لگی ہیں اس کی درخواست ضمانت سیشن عدالت ہی سن سکتی ہے۔

تاہم ملزم کے وکیل کی درخواست پر عدالت نے ایف آئی اے کے تمام مقدمات کا ریکارڈ بھی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

صحافیوں کا ردعمل

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر رانا عظیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ معاملہ صرف سہراب برکت کا نہیں بلکہ پیکا ایکٹ پاس ہونے کے باوجود ہر صحافی کے سر پر تلوار لٹکا دی گئی ہے۔

’حکومت آزادی صحافت کے خلاف قانون بنا چکی ہے۔ جس کے بعد کئی صحافیوں کو گرفتار کیا گیا کئی ابھی تک انکوائریاں بھگت رہے ہیں۔ ہم نے اس قانون کے خلاف پہلے بھی احتجاج کیا اور اب بھی اس کو تسلیم نہیں کرتے۔‘

رانا عظیم کہتے ہیں کہ ’این سی سی آئی سائبر کرائم پر قابو پانے کے نام پر بنائی گئی لیکن کارروائیاں صحافیوں کے خلاف کی جا رہی ہیں۔

’کوئی صحافی خلاف قانون کام کرے تو کارروائی ہونی چاہیے لیکن خبر دینے یا معلومات فراہم کرنے پر بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ جو قابل مزمت اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان