ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے خلاف گذشتہ ایک سال کے دوران حملوں اور جرائم میں 60 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ انکشاف فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ امپیونٹی رپورٹ 2025 میں کیا گیا، جو انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (آئی ایم ایس) کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔
یہ تجزیہ دو نومبر، 2025 کو منائے جانے والی ’صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے استثنا کے خاتمے کے عالمی دن‘ سے قبل سامنے آیا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کی صورت حال مزید بگڑ رہی ہے۔
ایک سال میں کل 142 کیسز دستاویزی شکل میں رپورٹ ہوئے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 60 فیصد سے زائد ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے خلاف نفرت انگیزی میں بہت اضافہ ہوا، جس کے باعث ملک کے تقریباً تمام علاقے صحافت کے لیے غیر محفوظ بن گئے ہیں۔‘
اس تازہ رپورٹ پر حکومت پاکستان کا ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا، تاہم حکومت کہتی رہی ہے کہ وہ آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہے اور کئی اقدامات اٹھا رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ موجودہ وفاقی حکومت کے پہلے سال کے دوران 30 صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے خلاف پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت 36 مقدمات درج کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2025 کے اوائل میں پارلیمان کے ذریعے اس قانون میں ترمیم کی گئی، جس سے صحافیوں کے خلاف سزا سے متعلق شقیں مزید سخت ہو گئیں، جس پر شدید تنقید سامنے آئی۔
ان 36 مقدمات میں سے (پیکا) کے تحت 22 جبکہ 14 مقدمات پاکستان پینل کوڈ کے تحت درج کیے گئے، ان میں بعض صحافیوں کو ایک سے زائد مقدمات کا سامنا رہا۔
پیکا کے تحت زیادہ تر مقدمات پنجاب میں درج کیے گئے جبکہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت تمام مقدمات بھی پنجاب میں درج ہوئے۔
’امپیونٹی رپورٹ 2025: پاکستانی صحافت کی دنیا میں جرم اور سزا‘ کے عنوان سے شائع یہ رپورٹ فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ اہم اشاعت ہے، جو صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے استثنا کے مسئلے اور اس کے تدارک کی کوششوں کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ اظہارِ رائے پر قدغن لگانے کے لیے قانونی فریم ورک کا استعمال اب وفاقی حکومت کا پسندیدہ ہتھیار بنتا جا رہا ہے، جو تنقیدی آوازوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
’پاکستان آزاد اور تنقیدی میڈیا کی آواز کو خاموش کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘
رپورٹ میں نومبر 2024 سے ستمبر 2025 کے درمیان صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے خلاف پیش آنے والے واقعات کو شامل کیا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پنجاب اور اسلام آباد صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک علاقے قرار پائے، جہاں ہر ایک میں 28 فیصد خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئیں، جبکہ ان کے بعد خیبر پختونخوا، سندھ، بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کا نمبر آتا ہے۔
گلگت بلتستان سے کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں الیکٹرانک میڈیا سے منسلک صحافی سب سے زیادہ نشانہ بنے۔
اس کے بعد پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے آتے ہیں جبکہ ایک ریڈیو صحافی بھی متاثر ہوا۔
