پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ لڑائی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی گزرگاہیں مکمل طور پر بند ہے جس سے پاکستان افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق روزانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
طورخم، چمن، خرلاچی، اور انگور اڈہ پر سینکڑوں مال بردار گاڑیاں پھنس گئی ہیں جن میں سے بعض گاڑیوں پر ایسی اشیا بھی لدی ہوئی ہیں جو خراب ہو رہی ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ ہفتے ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے باعث حالات کشیدہ ہیں جن میں دونوں اطراف درجنوں افراد جان سے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔
نو اکتوبر کو کابل میں دھماکوں کے بعد افغان طالبان نے پاکستانی سرحدوں پر حملے کیے جن کا پاکستان نے مؤثر جواب دیا تھا۔ ان جھڑپوں میں دونوں طرف انسانی جانوں کے علاوہ انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا۔
ان جھڑپوں کے بعد سے سرحدی گزرگاہیں بند نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں اختتام ہفتہ مذاکرات ہوئے جس کے بعد پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اتوار کو ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ اسلام آباد اور کابل کے مابین سیزفائر کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
تاہم سرحدی راستے بدستور بند ہیں۔ پاکستان افغان جوائنٹ چیمبر اف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر ضیا الحق سرحدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دوحہ مذاکرات کے بعد امید ہے کہ سرحدوں پر تجارتی مسائل حل ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ہفتے سے سرحدیں بند ہیں اور مال بردار گاڑیاں کھڑی ہیں جس سے روزانہ کی بنیاد پر اندازے کے مطابق دونوں جانب کا ایک ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ضیاالحق سرحدی کے مطابق سرحدوں پر تجارت سے بڑی تعداد میں لوگ وابستہ ہیں اور اسی سے ان کی گھر کا چولہا جلتا ہے جس میں مزدور بھی شامل ہیں۔
سرحدی نے بتایا کہ ’بارڈر تجارت بند ہونے سے وہاں کام کرنے والے 10 سے 12 ہزار خاندان متاثر ہورہے ہیں جس میں کسٹم ایجنٹ، مزدور اور دیگر افراد شامل ہیں۔‘
جوائنٹ چیمبر اف کامرس کے مطابق دونوں جانب پھنسے مال بردار گاڑیاں گوشت، پھل، سبزیاں اور جوس جیسے سامان سے بھری ہیں اور اگر وہ سامان بروقت منزل تک نہ پہنچا تو وہ اشیا خراب ہوجائیں گی۔
ورلڈ بینک کی رواں سال ستمبر کے رپورٹ کے مطابق پہلے چھ ماہ میں افغانستان کی مجموعی درآمدات پچھلے سال کے چھ مہینوں کے مقابلے میں 50 کروڑ 10 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 54 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق افغانستان سے مجموعی برآمدات کا 41 فیصد سے زائد سامان پاکستان گیا جس میں سب سے زیادہ 73 فیصد سے زائد اشیا خردونوش تھیں جو پاکستان اور انڈیا کو سپلائی کی گئی ہیں۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ رواں سال جولائی میں افغانستان اور پاکستان کے مابین دو طرفہ تجارتی معاہدے کے بعد برآمدات میں اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔
تاہم مبصرین سمجھتے ہیں کہ اب سرحدوں کی بندش سے دو طرفہ تجارت کی حجم مین دوبارہ کمی آئی گی۔
پاکستان بارڈر ٹریڈ کونسل کے سربراہ سید جواد حسین کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے دونوں اطراف میں تین ہزار تک ٹرک پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے اعدادوشمار کے مطابق چار تجارتی گزرگاہوں سے سالانہ دو کروڑ 8 لاکھ ڈالر کی برآمدات اور پانچ کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی درآمدات کی جاتی ہے اور سالانہ آٹھ کروڑ 70 لاکھ ڈالر کسٹم ڈیوٹی کی مد میں جمع کی جاتی ہے۔
جواد حسین کاظمی نے بتایا کہ پاکستان سے چاول، ادویات، کپڑا، بلڈنگ میٹریل، سیمنٹ، طبی آلات اور ہاؤس ہولڈ سامان افغانستان سپلائی کیا جاتا ہے جبکہ افغانستان سے خشک میوہ جات، سافٹ سٹون، کوئلہ، پھل اور سبزیاں پاکستان درامد کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سرحدوں کی بندش سے صرف پاکستان اور افغانستان ہی نہیں بلکہ وسطی ایشائی ممالک کے ساتھ تجارت بھی متاثر ہوئی ہیں۔
جواد حسین کاظمی نے بتایا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان امن و امان کے مسئلے پر بات کرنی چاہیے اور ابھی جو دوحہ معاہدہ ہوا تو یہ
خوش آئند ہے۔ تاجر برادری پر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہے اور سرحدیں کو کھولنا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرحدیں کھولنے کے حوالے سے جواد حسین کاظمی نے بتایا کہ آج (پیر کو) ننگرہار چیمبر آف کامرس کے حکام کے ساتھ ان کا آن لائن اجلاس ہوا جس میں تجارتی مسائل پر گفتگو کریں گے۔
جواد حسین کاظمی نے بتایا کہ ایک تو پہلے ہی کنٹیبرز بارڈر کے دونوں جانب پھنسے ہیں اور سامان سے بھرے مزید کنٹینرز بھی بندرگاہوں پر موجود ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
شاہد حسین سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق نائب صدر اور چیمبر کے پاکستان و افغانستان کے سٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹریڈ پروموشن کے سربراہ ہیں اور ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شاہد حسین نے کہا ’تاجکستان کے لیے ہماری گوشت کی سپلائی بھی پیکنگ کے مرحلے میں تھی لیکن وہ بھی رک گئی کیونکہ راستے مین بندش کی وجہ سے گوشف خراب ہوجاتا ہے۔‘
افغان پاکستان تجارتی امور کے ماہر شاہد حسین کے مطابق ہماری سرحدیں بند ہونے سے وسطی ایشیا ممالک کو سپلائی بھی متاثر ہوتی ہے اور اس کہ وجہ یہ ہے کہ وہاں سپلائی افغانستان کے راستے کی جاتی ہے۔
ان کے بقول: ’اب افغانستان میں پھل سبزیاں وغیرہ سستی تو ہوں گی لیکن جس نے وہاں باغ لگا کر سرمایہ کاری کی ہے تو وہ اپنی فصلیں کو اونے پونے داموں فروخت کریں۔ ‘