کھڑک سنگھ، کھڑکیاں کیوں کھڑکھڑاتا تھا؟

کوئی نہیں سوچتا کہ اس کے پیچھے داستان کیا ہے؟ کھڑک سنگھ کون تھا اور اس سے یہ جملہ کیسے منسوب ہو گیا؟ اس حوالے سے ایک کہانی غلط العام ہے اور دوسری کہانی کو بہت کم لوگ جانتے ہیں جو درحقیقت اصل کہانی ہے۔

مہاراجہ کھڑک سنگھ کی ایک پینٹنگ کی تصویر (پبلک ڈومین)

آپ نے ٹیلی ویژن پروگراموں میں ایک جملہ اکثر سنا ہو گا جس میں میزبان لوگوں سے کہتا ہے کہ وہ یہ جملہ بول دیں ’کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔‘ لوگ متواتر یہ جملہ نہیں بول پاتے اور ان کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے، جس پر  لوگ محظوظ ہوتے ہیں اور لگتا ہے کہ کہانی ختم ہو گئی۔

کوئی نہیں سوچتا کہ اس کے پیچھے داستان کیا ہے؟ کھڑک سنگھ کون تھا اور اس سے یہ جملہ کیسے منسوب ہو گیا؟ اس حوالے سے ایک کہانی غلط العام ہے اور دوسری کہانی کو بہت کم لوگ جانتے ہیں جو درحقیقت اصل کہانی ہے۔

غلط العام کہانی کیا کہتی ہے؟

اس کہانی میں بیان کیا جاتا ہے کہ مہاراجہ پٹیالہ کے ایک ماموں کھڑک سنگھ تھے، جو خود بھی بڑے جاگیردار تھے۔ انہوں نے سوچا کہ وہ پنچایت تو لگاتے ہیں مگر اب عدالتوں کا رواج ہے، پھر کیوں نہ وہ بھی جج بن جائیں۔

 ججوں کی تقرری انگریز سرکار کرتی تھی۔ وہ سرکار کے پاس پہنچے اور جج بننے کی خواہش ظاہر کی۔ سرکار نے پوچھا کہ آپ کی اہلیت کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ پنچایتوں میں فیصلے کرتے ہیں اس لیے وہ جج بننے کے اہل ہیں۔

انگریز افسر کو یہ منطق تو نہیں بھائی لیکن اس کے ذہن میں شاید یہ خیال آیا کہ مہاراجہ کا ماموں ہے، اس لیے اسے جج بنا دیتے ہیں، پھر مہاراجہ جانے اور مہاراجہ کا ماموں جانے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کھڑک سنگھ جج کی تقرری کا پروانہ لے کر  پٹیالہ آ گئے۔ ان کی عدالت میں پہلا مقدمہ ہی قتل کا پیش ہوا، جس میں مدعی ایک عورت تھی، جس کے شوہر کو چار افراد نے مل کر قتل کر دیا تھا۔ جج نے واقعے کی تفصیلات پوچھیں تو عورت نے بتایا کہ کیسے کھیتوں میں اس کے سامنے اس کے شوہر کو ان چاروں نے مل  کر قتل کیا تھا۔

جب عورت یہ بیان دے رہی تھی تو ایک شخص  درمیان میں بول پڑا کہ یہ عورت جھوٹ بول رہی ہے۔ کھڑک سنگھ نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ وہ ملزمان کا وکیل ہے۔

کھڑک سنگھ نے اسی وقت فیصلہ لکھا کہ ان چاروں کو ان کے وکیل سمیت پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ کہتے ہیں کہ انصاف کے اس انوکھے فیصلے کا اثر یہ ہوا کہ پٹیالہ میں کافی عرصے تک کوئی قتل نہیں ہوا۔

یہ واقعہ آپ میں سے اکثر افراد نے سن  رکھا ہو گا۔ یوٹیوب پر بہت سی ویڈیوز بھی موجود ہیں، مگر تاریخ  کی کسی کتاب میں نہ تو جسٹس کھڑک سنگھ کا ذکر ملتا ہے اور نہ ہی اس واقعے کی تصدیق ہوتی ہے۔

اگر جسٹس کھڑک سنگھ کا کردار اصلی بھی مان لیا جائے تب بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اس مشہور جملے کا کھڑک سنگھ کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ پنجایتی طرز کے انصاف کو زنجیرِ عدل سے تو تشبیہ دی جا سکتی ہے مگر کھڑکیوں کے کھڑکنے سے نہیں۔ پھر ماجرا کیا ہے اور اصل کہانی کیا ہے؟

وہ کہانی جس میں کھڑکیاں بھی ہیں اور کھڑک سنگھ بھی:

اس کہانی کے راوی لاہور کے ممتاز داستان گو اور محقق عبد المجید شیخ ہیں۔ ان کی کتاب ’قصے لاہور کے‘ شہر کی تاریخ کو اس دلچسپی سے بیان کرتی ہے کہ بندہ کہہ اٹھتا ہے کہ لاہور واقعی لاہور ہے، وہ لاہور جس کی نسبت رام اور سیتا کے بیٹے ’لاہو‘ سے بیان کی جاتی ہے اور جس لاہور کے بارے میں مشہور انگریزی شاعر ملٹن نے لکھا تھا: ’لاہور ان شہروں میں سے ہے جو جنت کی پہاڑی سے حضرت آدم کو نظر آئے تھے۔‘

عبد المجید شیخ لکھتے ہیں کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا 40 سالہ اقتدار ان کی وفات سے ختم ہوا تو دربار میں قیادت کا فقدان سامنے آیا کیونکہ مہاراجہ کی سلطنت کو سنبھالنے کا اہل کوئی نہیں تھا۔ جب مہاراجہ کے بڑے بیٹے کھڑک سنگھ کو اقتدار دیا گیا تو ڈوگرہ خاندان نے جو دربار کا سب سے طاقتور خاندان بن چکا تھا، کھڑک سنگھ کے بیٹے نونہال سنگھ کو باپ کے خلاف استعمال کر لیا۔

اس واقعے کی تفصیلات کنہیا لال نے اپنی مشہور کتاب ’تاریخِ پنجاب‘ میں دی ہیں، جس کے مطابق کھڑک سنگھ اپنے قابل اعتماد دوست سردار چیت سنگھ کو مدارالمہام بنانا چاہتے تھے، جبکہ نونہال سنگھ کی خواہش تھی کہ رنجیت سنگھ کے دور سے راجہ دھیان سنگھ مدارالمہام چلے آ رہے ہیں لہٰذا انہیں عہدے پر برقرار رکھا جائے۔

جب کھڑک سنگھ نہ مانا تو نونہال سنگھ نے سردار چیت سنگھ کو قتل کر دیا۔ کھڑک سنگھ کو بیٹے کے اس فعل پر بہت ملال ہوا اور وہ امورِ سلطنت سے الگ ہو گئے۔ یوں عملی طور پر عنانِ اقتدار نونہال سنگھ کے ہاتھ میں آ گیا۔

عبدالحمید شیخ کھڑک سنگھ سے منسوب کھڑکیوں والے محاورے کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’کھڑک سنگھ اللہ سے لو لگانے والا شخص تھا، جو بڑے معنی خیز جملے بولتا رہتا تھا، جو اکثر لوگ سمجھ نہیں پاتے تھے۔ پنجاب کا عملی طور پر حکمران نونہال سنگھ تھا۔ کھڑک سنگھ اقتدار سے بے نیاز ہو کر لاہور کے محلوں میں گھومتا رہتا تھا۔

’وہ علی الصبح لوگوں کے دروازوں کو کھٹکھٹاتا رہتا تھا کہ نیند سے اٹھ جائیں اور خدا کو یاد کریں۔ لاہور دربار کے سردار صاحبان نے کھڑک سنگھ کو پاگل قرار دے دیا تھا، تاہم وہ چاہتے تھے کہ کھڑک سنگھ اور ان کے بیٹے کی صلح ہو جائے۔ اس صلح کی کوششیں بھی ہوئیں مگر وہ ہر ایک کو کہتا کہ میں اور نونہال سنگھ اکھٹے مریں گے۔

’پھر  لوگوں نے وہ دن بھی دیکھا کہ جب کھڑک سنگھ کا محض 39 سال کی عمر میں انتقال ہوا تو نونہال سنگھ بھی اسی روز ایک حادثے میں چل بسا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ نونہال سنگھ اپنے باپ کے کریا کرم سے فارغ ہو کر لاہور قلعے میں اقتدار سنبھالنے آ رہا تھا تو قلعے کی ایک دیوار اس کے اوپر دھڑام سے گر گئی اور وہ فوت ہو گیا۔ نونہال سنگھ  کو تخت نصیب نہیں ہو سکا۔ یوں کھڑک سنگھ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ لوگ یہ نہیں جانتے کہ کھڑک سنگھ کون تھا مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس کے کھڑکنے سے کھڑکیاں کھڑکتی تھیں۔‘

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ