یہ فروری کی ایک سرد صبح ہے، کہرا جمع ہے لیکن گجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ کے اکھاڑوں میں نوجوان ڈنٹ پیل رہے ہیں۔
سخت سردیوں میں بھی ان نوجوان پہلوانوں کی روٹین یہی ہوتی ہے۔ صبح سویرے اکھاڑے پہنچنا، اکھاڑے کی زمین کو بیلچوں اور رولر کی مدد سے تیار کرنا اور پھر پہلوانی کی مشق کرنا۔
شیرانوالہ باغ کے اکھاڑوں نے پاکستان کے لیے کئی ممتاز پہلوان پیدا کیے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیرانوالہ باغ کی تاریخ کے حوالے سے یہاں کے ایک اکھاڑے ’جناح ہیلتھ کلب‘ کے ٹرینر محمد عمر پہلوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ باغ ماضی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملکیت ہوا کرتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مہاراجہ رنجیت سنگھ یہاں آ کر اپنی عدالتی کارروائی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سیر بھی کرتے تھے۔ اس باغ کے اندر ایک اکھاڑا بھی تھا جہاں پر وہ پہلوانوں کو تیار بھی کرتے تھے۔ اسی دور سے یہ اکھاڑا چل رہا ہے اور ابھی اس باغ کے اندر تقریباً پانچ اکھاڑے ہیں۔‘
مہاراجہ رنجیت سنگھ 1780 میں گجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ وہ سکھ سلطنت کے راجہ تھے، جنہوں نے 1801 سے 1839 تک حکمرانی کی۔
عمر پہلوان کا کہنا ہے: ’وہ دور ایسا تھا کہ ہر گھر میں پہلوانی کو پسند کیا جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں پہلوانوں کو راجہ، مہاراجہ صاحبان ملازم رکھتے تھے۔ اپنا اپنا پہلوان تیار کرتے تھے تاکہ اس وقت کے سب سے بڑے مقابلے ’رستم ہند‘ کے لیے اپنا پہلوان میدان میں اتار سکیں۔‘
عمر نے یہ بھی بتایا کہ اس دور میں مہاراجہ پٹیالہ، مہاراجہ کولا پور، مہاراجہ کشمیر، نواب آف بہاولپور اور بے شمار دیگر ریاستیں ایسی تھیں جنہوں نے اپنے پہلوان تیار کیے ہوئے تھے۔
آج بھی گجرانوالہ میں فن پہلوانی سے محبت کی روایت قائم ہے اور نوجوان کھلاڑی ان اکھاڑوں میں خود کو پاکستان سمیت بین الاقوامی سطح پر ہونے والے کھیلوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔