سکردو کی پرسکون فضا میں پہلا ارتعاش اس وقت پیدا ہوا جب ایک رات اچانک دکانداروں نے قابض فٹ پاتھوں اور تجاوزات کو خود ہی گرانا شروع کیا۔ ابتدا میں کچھ مزاحمت دیکھنے میں آئی، مگر عوام کی اکثریت نے اس اقدام کو درست قرار دیا کیونکہ یہ مفاد عامہ کا کام تھا۔
اسی طرح سکردو حلقہ دو کے برگے نالے میں ہر سال برفانی پانی کا سیلاب آتا ہے جو کھیتوں، درختوں اور مکانات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نالے کی قدرتی گزرگاہ پر مکانات تعمیر کر کے راستہ تنگ کر دیا گیا ہے۔ ان جیسے معاملات کی نگرانی کا کام میونسپل کمیٹی اور ضلع کونسل کے ذمے تھا مگر 2009 سے آج 2025 تک بلدیاتی انتخابات نہ ہو سکے۔
اب سکردو ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک نیا ادارہ بنایا گیا ہے جس نے شہر کی ٹاؤن پلاننگ مکمل کر لی ہے مگر منظوری کے لیے بھیجی گئی فائلیں تاحال ارباب اختیار کی میزوں پر دھری ہیں۔
شہر میں دوسرا ارتعاش اس وقت پیدا ہوا جب ضلعی انتظامیہ نے ہدایت نامہ جاری کیا کہ نجی تعلیمی اور کاروباری ادارے اپنے ملازمین کو کم از کم 37 ہزار روپے ماہانہ اجرت دیں۔ یہ وہی فیصلہ تھا جس کا ذکر صوبائی بجٹ میں بھی ہو چکا تھا۔
یہ ہدایت نجی سکولوں کے مالکان کو سخت ناگوار گزری۔ کہا جاتا ہے کہ بیشتر نجی اداروں میں اساتذہ کو 15 سے 20 ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں، اور کہیں کہیں اس سے بھی کم۔
نجی تعلیمی ادارے تیزی سے منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں ناقص معیار تعلیم اور حکومتی عدم توجہی نے والدین کو مجبور کیا ہے کہ وہ محدود وسائل کے باوجود بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں داخل کرائیں۔ اگرچہ ان سکولوں کے نتائج نسبتاً بہتر ہیں، مگر ان کا سہرا ان اساتذہ کو جاتا ہے جو انتہائی کم تنخواہوں پر محنت کر رہے ہیں۔
اصولی طور پر نجی سکولوں کے مالکان کو ضلعی انتظامیہ یا محکمہ تعلیم سے رجوع کر کے اپنی شکایات پیش کرنی چاہئیں تھیں، مگر اس کے بجائے ایک مذہبی تنظیم کے توسط سے مزاحمت کی راہ اختیار کی گئی۔ دلیل یہ دی گئی کہ اگر اساتذہ کو جائز تنخواہیں دی گئیں تو ’قوم و ملت کا نقصان‘ ہوگا اور فیسیں بڑھانی پڑیں گی — گویا استحصال کو بھی قومی مفاد کا لبادہ پہنا دیا گیا۔
یہ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر کم تنخواہ پانے والے اساتذہ کا المیہ ہے کہ نہ حکومت ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کر پاتی ہے، نہ نجی اداروں میں ان کی آواز سنی جاتی ہے۔
یہ درست ہے کہ نجی سکولوں نے تعلیمی شرح میں اضافہ کیا اور روزگار کے مواقع بھی دیے، لیکن یہ سب انہی اساتذہ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جو قلیل اجرت پر اداروں کو کامیاب بنا رہے ہیں۔
یہ دلیل کہ اگر تنخواہیں بڑھائیں تو فیسیں بھی بڑھیں گی، ایک کمزور منطق ہے۔ والدین پہلے ہی داخلہ فیس، ماہانہ فیس، اور طرح طرح کے ’کلر ڈیز‘ کے نام پر اضافی رقم ادا کرتے ہیں۔ اگر مانیٹرنگ کرنے والے ادارے آمدن و اخراجات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ خسارہ نہیں بلکہ منافع ہو رہا ہے۔
ایک سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز کو نفع کے ترازو میں تولا جاتا ہے، تعلیم بھی اسی سوچ کی نذر ہو چکی ہے۔
بقول ایک دانشور: ’سرمایہ دار طبقے نے ایسا نظام قائم کیا ہے جو طبقاتی تقسیم کو مسلسل برقرار رکھتا ہے اور وسائل سے محروم اکثریت کو اجرت کے عوض محنت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔‘
پاکستان میں نظام تعلیم طبقاتی بنیادوں پر منقسم ہے۔ آئین کے مطابق بنیادی تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے مگر عملی طور پر مساوی اور معیاری تعلیم ہر کسی کو میسر نہیں۔
گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم کے پاس وسائل اور ڈھانچہ موجود ہے لیکن ناقص گورننس کے باعث نتائج مایوس کن ہیں۔ پرائیویٹ ادارے اس خلا کو پُر کرنے میں مصروف ہیں مگر وہ بھی منافع کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسر (ASER) پاکستان کی 2023 رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں 6 سے سولہ سال کے بچوں کی انرولمنٹ شرح بلند ہے، مگر 2021 کے بعد سے طلبہ کی بڑی تعداد سرکاری سکولوں سے پرائیویٹ سکولوں کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ یہ رجحان اس بات کی علامت ہے کہ عوام کا اعتماد سرکاری نظام پر کم ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریزی ذریعہ تعلیم کو ملازمت حاصل کرنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اشرافیہ نے تعلیمی ڈھانچے کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ متوسط اور نچلے طبقے کے لیے ترقی کے دروازے بند رہیں۔ اردو اور انگریزی تعلیم کے فرق نے معاشی مواقع کو بھی طبقاتی رنگ دے دیا ہے۔
نوآبادیاتی دور سے جاری یہی طاقت کا ڈھانچہ آج بھی برقرار ہے جہاں تعلیم کو برابری کے بجائے تفریق کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
اس لیے اگر تعلیم کا مقصد صرف منافع نہیں بلکہ انسان سازی ہے، تو اساتذہ کے استحصال، طبقاتی تفریق، اور تجارتی سوچ کے خلاف عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ جب تک تعلیم کو کاروبار سمجھا جاتا رہے گا، نہ اساتذہ کو عزت ملے گی نہ طلبا کو وہ تعلیم جس سے معاشرہ سنور سکے۔