پاکستانی سیاست میں فکری اور اخلاقی بحران مسلسل گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں اصول، تدبر اور احتساب کی جگہ اب ایک ایسے رویے نے لے لی ہے جو ہر غلط کام کے جواز میں دلیل دیتا ہے کہ ’دوسروں نے بھی تو یہی کیا تھا‘۔
یہ رویہ جدید سیاسی لغت میں ’واٹ اباؤٹ ازم (Whataboutism) کہلاتا ہے، یعنی کسی تنقید کا براہِ راست جواب دینے کی بجائے مخالف کی کسی اور غلطی یا ناکامی کی طرف اشارہ کر دینا تاکہ اصل سوال پس منظر میں چلا جائے۔
یہ اصطلاح دراصل سرد جنگ کے دور میں سوویت پروپیگنڈا مشینری سے منسوب ہے۔
جب مغربی دنیا سوویت یونین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، سنسرشپ اور جبری مزدوری کے کیمپوں پر تنقید کرتی تو ماسکو کے ترجمان جواب میں کہتے ’But what about racism in America?‘ یعنی ’لیکن آپ کے ہاں نسل پرستی کا کیا؟‘
مطلب سوویت حکام اپنی پالیسیوں کے دفاع میں یہ جواز پیش کرتے تھے کہ مغرب بھی خود انہی مسائل میں مبتلا ہے۔
اس عمل کا مقصد تنقید کو غیر متعلق بنانا اور اپنی غلطیوں سے توجہ ہٹانا ہوتا تھا۔
یہی رویہ بعد میں عالمی سیاست، میڈیا اور عوامی مکالمے میں ایک فکری دفاعی ہتھیار کے طور پر پھیل گیا۔
اب اس کی جڑیں پاکستانی سیاست میں بھی گہری اور پیوست ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنی ناکامیوں، نااہلیوں، بدانتظامیوں یا غلط پالیسیوں کے دفاع میں ماضی کے ادوار کو ڈھال بنا لیتی ہیں۔
تنقید کا سامنا کرنے یا اصلاح کی گنجائش نکالنے کی بجائے وہ فوراً موازنہ کرتی ہیں کہ ان سے پہلے والوں نے بھی یہی کیا تھا۔
اگر کوئی حکومت میڈیا پر قدغن لگاتی ہے تو وہ دلیل دیتی ہے کہ مخالف حکومت نے بھی یہی کیا تھا۔
اگر کسی جماعت پر اقربا پروری یا مالی بدعنوانی کا الزام لگتا ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے ’پچھلے دور میں تو حالات اس سے بھی بدتر تھے۔‘
اس طرح ہر دور میں غلطی کا جواز پچھلے ادوار سے نکالا جاتا ہے اور یوں اصلاح و خود احتسابی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔
یہ روش صرف سیاسی قیادت تک محدود نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی سرایت کر گئی ہے۔ آج سیاسی جماعتوں کے کارکن اور حمایتی سوشل میڈیا پر اسی منطق کے تحت اپنے رہنماؤں کے دفاع میں مصروف ہیں۔
اگر کوئی شخص اپنے قائد یا جماعت کی غلط پالیسی پر تنقید کرے تو اس کے جواب میں فوراً کہا جاتا ہے ’دوسری جماعت نے تو اس سے بھی بڑا جرم کیا تھا۔‘
اس طرح بحث و تمحیص کی جگہ الزام تراشی اور دلیل کی جگہ طعن و تمسخر نے لے لی ہے۔
اس رویے نے سیاست کو اخلاقی میدان سے نکال کر محض طاقت کے اکھاڑے میں بدل دیا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی وابستگی کا مطلب اب اصولی اتفاق یا اختلاف نہیں بلکہ اندھی حمایت بن چکا ہے۔
ہر جماعت کے کارکن اپنے رہنماؤں کو مقدس تصور کرتے ہیں، ان سے سوال نہیں کرتے بلکہ ان کے ہر فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور عوامی بحثوں میں سرگرم رہتے ہیں۔
اس طرزِ عمل نے سیاسی شعور کو بری طرح مجروح کیا ہے۔’واٹ اباؤٹ ازم‘ کے اثر نے جمہوریت کے بنیادی خدوخال کو بھی مسخ کر دیا ہے۔
جمہوریت کی روح جواب دہی، شفافیت اور عوامی رائے میں پوشیدہ ہے۔ اگرعوام اپنی قیادت سے سوال ہی نہ کریں تو جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوتے بلکہ شخصیت پرستی پروان چڑھتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت محض ایک انتخابی عمل تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ فکری اور اخلاقی شعور جو جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے وہ سرے سے موجود ہی نہیں۔
سیاسی جماعتوں کی سطح پر بھی یہی صورت حال ہے۔ کوئی جماعت اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں، اس کا رویہ اصولی نہیں بلکہ موقع پرستانہ ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتیں اقتدار میں آ کر وہی اقدامات کرتی ہیں جن پر وہ کل تنقید کرتی تھیں اور جب اقتدار سے باہر ہوتی ہیں تو انہی پالیسیوں کو آمرانہ اور غیر جمہوری قرار دیتی ہیں۔
یہی دوہرا معیار پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ یہی ذہنیت میڈیا اور عوامی مباحثے کو بھی متاثر کر چکی ہے۔
سوشل میڈیا کے دور میں ’واٹ اباؤٹ ازم‘ نے جھوٹ، پروپیگنڈے اور نفرت انگیزی کو جنم دیا ہے۔
ہر جماعت اپنے مخالف کے خلاف مہمات چلاتی ہے، من گھڑت کہانیاں اور جعلی خبریں پھیلاتی ہے تاکہ اپنے رہنما کو مظلوم اور مخالف کو بدعنوان ثابت کیا جا سکے۔
یہ کلچر بامعنی قومی مکالمے کو مسخ کر چکا ہے۔ اب کوئی یہ نہیں دیکھتا بات سچ ہے یا جھوٹ، بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔
یہ رجحان اس بات کی علامت ہے کہ سیاست میں اخلاقیات کا زوال ارتقا میں نہیں بلکہ منطقی انجام تک پہنچ چکا ہے۔
’واٹ اباؤٹ ازم‘ اس سوچ کو جنم دیتا ہے کہ چونکہ سب ہی غلط ہیں، اس لیے کسی کی غلطی پر بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
نتیجتاً بدعنوانی، جھوٹ، دوہرے معیار اور نفرت کی سیاست کو معمول کی بات سمجھ لیا جاتا ہے۔
جب کسی معاشرے میں اجتماعی سطح پر یہ سوچ راسخ ہو جائے کہ ’سب ہی غلط ہیں‘ تو وہاں تبدیلی کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔
سیاست میں جب دلیل کی جگہ موازنہ اور اصلاح کی جگہ انتقام لے لیتا ہے تو جمہوریت محض ایک نعرہ اور کلامیہ بن جاتی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت اسی لیے مضبوط نہیں ہو سکی کہ یہاں عوام اپنی سیاسی جماعتوں سے جواب نہیں مانگتے۔
اگر کوئی حکومت ناکام ہو جائے تو لوگ اگلی حکومت سے بھی وہی توقع رکھتے ہیں، گویا نظام نہیں بلکہ چہرے بدلنے سے اصلاح آ جائے گی۔
مگر حقیقی جمہوریت تب ہی پنپتی ہے جب عوام اپنی پسندیدہ جماعتوں سے سوال کریں، ان کے وعدے یاد دلائیں اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کریں۔
سیاسی بلوغت کا تقاضا یہی ہے کہ عوام اپنی جماعتوں سے وہی سوال کریں جو وہ مخالف سیاسی جماعتوں سے کرتے ہیں۔
تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب ووٹر اپنے رہنماؤں کو آئین، قانون اور اخلاقیات کے سامنے جواب دہ بنائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر ہر جماعت کے کارکنان اپنی قیادت کی غلطیوں پر سوال اٹھانے کا حوصلہ پیدا کر لیں تو سیاست کا قبلہ درست ہو سکتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے کا عمل نہیں بلکہ یہ ایک اخلاقی عہد ہے۔
اس عہد کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہری اپنے رہنما سے سچ بولنے، تنقید کرنے اور جواب طلبی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
اگر ہم نے اس حق کو قربان کر دیا تو جمہوریت کا سارا ڈھانچہ محض ایک ڈھکوسلا بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان کو اب ایسے سیاسی کلچر کی ضرورت ہے جو ’واٹ اباؤٹ ازم‘ سے آزاد ہو، جہاں دلیل کی بنیاد معروضی ہو اور سیاست دانوں کے لیے عوامی تنقید اصلاح کا ذریعہ بنے۔
قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتی ہیں، نہ کہ انہیں دوسروں کی غلطیوں سے جوازیت بخشتی ہیں۔
جمہوریت اسی وقت مستحکم ہو گی جب سیاسی جماعتوں کے کارکن اور حامی جمہوریت کو ایک عمل نہیں بلکہ کلچر کے طور پر تسلیم کریں۔
وہ دن جب عوام اپنے رہنماؤں سے سوال کریں گے کہ ’ہم نے کہاں غلطی کی؟‘ وہ دن پاکستان میں سیاسی شعور کی بیداری کا آغاز ہوگا۔
اس وقت تک جمہوریت ایک کمزور پودا ہی رہے گی جو ہر بار طاقت اور مفاد کے طوفان میں جھکتا رہے گا۔
ہمیں ’واٹ اباؤٹ ازم‘ کے اس فکری زہر سے آزاد ہو کر اپنے گریبان میں جھانکنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔
جب ہم یہ حوالہ دینا چھوڑ دیں گے کہ ’انہوں نے بھی یہی کیا تھا‘ اور یہ پوچھنا شروع کریں گے کہ ’ہم نے ایسا کیوں کیا؟‘ تب ہی پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو گی، سیاست اخلاقی بنیادوں پر استوار ہو گی اور قوم کا مستقبل تابناک ہو گا۔
(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔)
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔