پاکستان میں سیاست ہی زیرِ بحث موضوع کیوں؟

پاکستان کو درحقیقت ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جس میں سیاست کے ساتھ ساتھ شہری شعور اور اخلاقی اقدار بھی شامل ہوں، تاکہ سیاسی عمل معاشرتی ہم آہنگی اور جامع ترقی کا ذریعہ بن سکے۔

پاکستان کے قومی انتخابات کے ایک روز بعد نو فروری، 2024 کو لاہور میں ایک چائے خانے پر لوگ ٹیلی وژن پر براہِ راست انتخابی نتائج دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی معاشرے میں گفتگو کا دائرہ دیکھ لیجیے، چاہے یہ چائے خانوں کی محفلیں ہوں یا عدالتوں کے کمرے، پارلیمان کے ایوان ہوں، ٹی وی سکرینز ہوں یا سوشل میڈیا کی ٹائم لائنز، ہر جگہ ایک ہی موضوع اور مکالمہ چھایا ہوا ہے: سیاست۔ 

سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ کیا یہ محض اس قوم کی سیاست پسندی ہے یا اس کے پیچھے کوئی گہرا تاریخی اور ادارہ جاتی پس منظر ہے؟

علمِ سیاست کے نظریات اس رجحان کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ جرمن مفکر یورگن ہیبرماس نے ’پبلک سفیئر‘ کا تصور دیا تھا کہ جدید معاشروں میں اجتماعی مکالمہ وہیں جنم لیتا ہے جہاں شہری آزادی سے گفتگو کریں۔ 

پاکستان میں چونکہ اقتدار اور وسائل کی تقسیم ہمیشہ تنازعے کا شکار رہی ہے، اس لیے عوامی مکالمے کا سب سے بڑا موضوع بھی یہی رہا۔

شانتال مف اور ارنسٹو لکلاؤ نے ’اگنوسٹک پلورلزم‘ کے تحت کہا کہ جمہوری سیاست میں اختلاف معمول ہے، لیکن جب ادارے کمزور ہوں تو اختلاف شدت اختیار کر کے معاشرے کو صف بندی اور تصادم کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یہی کیفیت پاکستان میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔

پاکستان کی ریاستی تاریخ کا اس رجحان کو سمجھنے میں کلیدی کردار ہے۔ آزادی کے فوراً بعد بڑے پیمانے کی ہجرت، نوآبادیاتی ادارہ جاتی وراثت اور سلامتی کے مسائل نے ملک کو ایک سیکورٹی سٹیٹ کی سوچ کی طرف دھکیلا۔

 1956، 1962 اور 1973 کی آئین سازی کے بیچ سیاسی اتھل پتھل، فوجی مداخلتیں (1958، 1977 اور 1999) اور ہائبرڈ سیاسی نظام نے تسلسل کو بار بار توڑا۔ 

ایسے ماحول میں عوامی مکالمے کا بنیادی سوال ہمیشہ یہی رہا کہ اقتدار کس کے پاس ہے؟ اور یہی سوال سیاست کو ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا موضوع بنا دیتا ہے۔

ادارہ جاتی کمزوری نے بھی سیاست کے غلبے کو بڑھایا۔ سیموئل ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ترقی کا دارومدار ادارہ جاتی استحکام پر ہے۔ پاکستان میں پارلیمان، مقامی حکومتیں، جماعتیں اور بیوروکریسی کبھی بھی قوت کے توازن کے تماظر میں کام نہ کرسکیں۔ 

سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ناپید، قیادتیں شخصی اور پالیسی سازی غیر شفاف رہی۔ جب مسائل حل کرنے کے باضابطہ فورمز ہی کمزور ہوں تو ہر مسئلہ طاقت کی کھینچا تانی میں الجھ جاتا ہے۔

کمزور معاشی ڈھانچے نے بھی سیاست کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنا دیا۔ ڈیرن ایس موگلو اور جیمز رابنسن نے ’ایکسٹریکٹو انسٹی ٹیوشنز‘ کی اصطلاح دی، یعنی ایسے ادارے جہاں وسائل چھوٹے طبقے کے قابو میں ہوں۔ 

پاکستان میں کارٹیلائزیشن، ریئل سٹیٹ معیشت، محدود ٹیکس نیٹ اور درآمدی کھپت نے مزید صورتحال گھمبیر کی۔ 

سبسڈی، نوکریاں اور ترقیاتی سکیمیں براہِ راست سیاسی وفاداری سے وابستہ گئیں۔ یوں عوام کے لیے سیاست محض نظریہ نہیں رہی بلکہ بقا اور روزگار کا مسئلہ بن گئی۔

میڈیا نے اس رجحان کو مزید پختہ کیا۔ ریٹنگز اور سوشل میڈیا الگورتھمز تنازعوں اور تصادم کو فروغ دیتے ہیں کیونکہ یہی زیادہ وائرل ہوتا ہے۔ سیاست چونکہ ڈرامائی اور متصادم ہے، اس لیے میڈیا نے اختلافات دکھانے کو ترجیح بنا لیا۔

 تعلیم یا موسمیاتی تبدیلی جیسے پیچیدہ مسائل بھی کون جیتا اور کون ہارا کے بیانیے کی لپیٹ میں آ گئے۔

قانون اور عدالتیں اس کھیل میں برابر کی حصہ دار بن گئیں۔ سیاسی تنازعات بار بار عدالتوں میں پہنچے اور آئینی تشریحات نے براہِ راست سیاست پر اثر ڈالا۔ 

یوں قانون بھی انصاف سے زیادہ سیاست کا حصہ بن گیا۔ عوامی مباحث فیصلوں کے اثرات پر نہیں بلکہ اس پر مرکوز ہو گئے کہ فیصلہ کس کے حق میں آیا۔

شناخت سے جڑی سیاست نے اس ماحول کو اور بھی جلا بخشی۔ مذہبی تعبیرات، صوبائی خودمختاری اور ثقافتی تنوع جیسے سنجیدہ مسائل چونکہ براہِ راست شناخت سے جڑے ہیں، اس لیے ان پر غیر سیاسی مکالمہ ممکن نہیں رہا۔ 

انٹونیو گرامچی نے ہیجیمنی کے تصور میں بتایا کہ جو گروہ فکری و ثقافتی برتری حاصل کر لے، وہ بیانیے پر قابض ہوتا ہے۔ پاکستان میں کبھی مذہبی قومیت، کبھی قومی سلامتی اور کبھی احتساب کے نعروں نے یہی کردار ادا کیا۔

جامعات اور تھنک ٹینکس بھی موثر کردار ادا نہ کرسکے۔ پالیسی ریسرچ محدود رہی، اعداد و شمار غیر شفاف اور تحقیق کا اثر عوامی مباحث میں کمزور حتی کہ نہ ہونے کے برابر رہا۔ 

سوشل میڈیا نے اظہار رائے کی جمہوریت تو بڑھائی مگر فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن نے سطحی شور کو تقویت دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معیشت، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل بھی سیاسی نعرے بازی کی گرد میں دب گئے۔

اس کے ساتھ ہی ایک بڑا انحطاط نمایاں ہے۔ قومی بیانیے میں فعال شہریت، اخلاقی اقدار اور سماجی ترقی جیسے بنیادی پہلو یکسر غائب ہیں۔ 

یہ وہ عناصر ہیں جو کسی بھی معاشرے کو توازن اور سمت دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں سیاست کے شور میں یہ پہلو نظرانداز ہو گئے ہیں۔ 

شہری ذمہ داری، اجتماعی اخلاقیات اور سماجی بہبود پر گفتگو ناپید ہے جو معاشرے کی اصل اساس ہے۔

مہنگائی، زرِمبادلہ کا بحران، توانائی کی قلت اور آئی ایم ایف پر انحصار نے عوامی زندگی کو براہِ راست حکومتی پالیسیوں سے جوڑ دیا ہے۔ 

جب بجلی، آٹا اور پٹرول کی قیمتیں حکومتی فیصلوں پر منحصر ہوں تو سیاست ہر گھر کی روزمرہ گفتگو کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہی حال کھیل، فنون اور تعلیمی پالیسیوں کا بھی ہے، جو آخرکار سیاسی منشا کے تابع نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان میں سیاست کے علاوہ موضوع موجود نہیں۔ کرکٹ، موسیقی، ڈرامہ اور ٹیکنالوجی بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔

فرق یہ ہے کہ سیاست ان سب پر ایک میٹا موضوع کی طرح چھائی رہتی ہے۔ ہر مسئلے کا حل یا ناکامی آخرکار سیاست کے پیرائے میں ہوتی ہے۔

سیاست کا موضوعِ بحث ہونا بذاتِ خود نقصان دہ نہیں۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب یہ صرف بحران، نفرت اور صفر جمع صفر کھیل میں بدل جائے۔ 

اس رویے کو بدلنے کے لیے جامع اصلاحات ناگزیر ہیں۔ مقامی حکومتوں کو اختیار دیا جائے تاکہ مسائل نچلی سطح پر حل ہوں۔ 

جماعتوں میں اندرونی جمہوریت اور شفاف فیصلہ سازی لائی جائے۔ اداروں کے درمیان حدودِ اختیار واضح ہوں۔ 

اعداد و شمار اور معلومات شفاف ہوں تاکہ قیاس آرائی کی بجائے حقائق پر گفتگو ہو۔ میڈیا کو ریٹنگ کے ساتھ ساتھ عوامی مفاد کو بھی میٹرک بنانا ہو گا۔

پاکستان میں سیاست ہی اس لیے زیرِ موضوع ہے کہ قومی نوعیت کے اجتماعی فیصلے سیاست کے بطن سے جنم لیتے ہیں، لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست کے ساتھ ساتھ فعال شہریت، اخلاقی اقدار اور سماجی ترقی پر بھی بامعنی مکالمہ ہو۔ 

اگر سیاسی ترقی اخلاقی اور سماجی ترقی کے بغیر آگے بڑھے گی تو اس کا نتیجہ مزید تقسیم اور انتشار کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ 

پاکستان کو درحقیقت ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جس میں سیاست کے ساتھ ساتھ شہری شعور اور اخلاقی اقدار بھی شامل ہوں، تاکہ سیاسی عمل معاشرتی ہم آہنگی اور جامع ترقی کا ذریعہ بن سکے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ