پاکستانی معاشرہ امتیازی کارکردگی دکھانے والوں کے ساتھ جو رویہ اپناتا ہے، وہ محض حسد یا تعصب نہیں بلکہ ایک گہری معاشرتی، تاریخی اور نفسیاتی ذہنیت کا مظہر ہے۔ یہاں جب کوئی فرد غیرمعمولی کامیابی حاصل کرتا ہے تو بجائے اجتماعی فخر کے ایک تنگ نظر اور تحقیرانہ بیانیہ حاوی ہو جاتا ہے جو اس کی کامیابی کو شک یا طنز کے پیرائے میں متنازعہ بناتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ پاکستانی معاشرے کو قدآور اور نامور لوگوں سے مسئلہ ہے۔
اگرچہ اس رجحان کی ایک بڑی وضاحت یہ ہے کہ برصغیر کا بیشتر سماج زرعی بنیادوں پر قائم رہا، جہاں محدود وسائل کے باعث کسی ایک کی ترقی دوسرے کی محرومی سمجھی جاتی تھی، تاہم اس کی وجوہات محض کسان ذہنیت تک محدود نہیں۔
اس رویے کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی تاریخ، نوآبادیاتی ورثے، موجودہ ریاستی بیانیے اور طبقاتی نظام کے مختلف پرتوں کو پرکھنا ہوگا۔
برصغیر کی طویل تاریخ میں زرعی نظام زندگی کے مرکز میں رہا۔ زمین، پانی اور فصل کی تقسیم نے انسان کو ایک خاص قسم کی نفسیات میں ڈھالا جس میں اجتماعی ترقی کا تصور ناپید اور ذاتی مقابلہ شدید تھا۔ ایک کسان کے لیے اگر پڑوسی کی فصل بہتر ہو تو یہ خود اس کی اپنی ناکامی کے طور پر محسوس ہوتی تھی۔
اس طرزِ فکر نے رفتہ رفتہ سماجی رویوں کو اس طرح تشکیل دیا کہ کامیابی اجتماعی تحسین کے بجائے شریکا، انفرادی حسد اور رقابت کی علامت بن گئی۔ یہی ذہنیت آج بھی پاکستان کے شہری و دیہی دونوں طبقات میں پائی جاتی ہے، اور اس کا اظہار ہر اس شخص کے خلاف ہوتا ہے جو روایت سے ہٹ کر کامیابی حاصل کرتا ہے۔
لیکن یہ رویہ صرف زرعی ماضی کی میراث نہیں، بلکہ نوآبادیاتی ذہنیت کا بھی ایک تسلسل ہے۔ برطانوی راج نے برصغیر میں ایک طبقاتی نظام رائج کیا، جس میں علم، ترقی اور اختیارات مخصوص اشرافیہ تک محدود رکھے گئے۔ اعلیٰ تعلیم، عہدہ یا جدید فکری رجحانات کو پرائی چیز سمجھا جانے لگا۔ یہ سوچ آج بھی پاکستانی لاشعور میں موجود ہے۔
کوئی شخص اگر بیرون ملک تعلیم حاصل کرے یا عالمی اداروں سے جڑا ہو، تو عوام کا ایک بڑا طبقہ اسے فطری طور پر مغرب زدہ، ویسٹ کا ایجنٹ یا اشرافیہ کا نمائندہ سمجھتا ہے۔
ملالہ یوسفزئی کی مثال لیجیے۔ ایک لڑکی جس نے طالبان کے کے خلاف آواز بلند کی اور تعلیم کے حق کے لیے گولی کھائی، اس کی بین الاقوامی پذیرائی کو پاکستانی معاشرے نے مغرب کی سازش سے تعبیر کیا۔ اسے ایک سازشی منصوبے کا حصہ، وطن مخالف اور ’اسلامی اقدار سے منافی‘ کردار بنا کر پیش کیا گیا۔
اس ردعمل کی ایک وجہ تو نوآبادیاتی نفسیات سے جڑی ہے جہاں عالمی کامیابی، مقامی سطح پر شک کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور دوسرا ایک احساس کمتری بھی ہے کہ اس کم عمر لڑکی کو اتنا بڑا اعزاز کیوں مل گیا؟
یہی تنگ نظری اور بداعتمادی ہمیں عبدالستار ایدھی کے معاملے میں بھی ملتی ہے۔ ان کی زندگی سادگی، خدمت اور اخلاص کی مثال تھی، مگر ان پر بھی الزامات لگائے گئے کہ وہ اسلامی ایجنڈے پر عمل نہیں کر رہے اور یہ کہ وہ مغربی این جی اوز کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور ان کو خیرات جمع کرنے اور لاوارث بچے پالنے پر بھی طنز و تحقیر کا سامنا رہا۔
یہاں مسئلہ یہ تھا کہ وہ ریاست کے مجوزہ دائرے سے باہر ہو کر وہ خدمت انجام دے رہے تھے اور لوگ ان پر اندھا اعتماد کر کے اپنی خیرات ان کو دیتے تھے یہی بات تنگ نظر سوچ کے لیے باعث تکلیف تھی۔
اس طرزِ فکر کے پیچھے ایک اور گہرا نفسیاتی سبب اجتماعی ناکامی کا لاشعوری احساس بھی ہے۔ پاکستانی معاشرہ سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی محاذوں پر مسلسل ناکامیوں سے دوچار رہا ہے۔ جب ایک قوم اجتماعی طور پر آگے نہ بڑھ پائے، تو وہ کسی بھی انفرادی کامیابی سے خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگتی ہے۔
یہ احساس کہ ہم کچھ نہیں کر سکے، جب کسی اور کے کر دکھانے سے ٹکراتا ہے، تو اس سے بدگمانی، حسد اور رقابت جنم لیتی ہے۔
ڈاکٹرعبدالسلام کی مثال اس کا ایک واضح عکس ہے وہ سائنس دان جس نے نظریاتی فزکس میں نوبیل انعام جیتا، جسے دنیا کی بڑی یونیورسٹیز نے عزت دی، مگر اپنے ہی ملک میں ان کا نام تک نصاب میں شامل نہیں۔ کیونکہ ایک ایسے ملک میں جہاں سائنسی تحقیق حکومتی ترجیح نہ ہو، وہاں ایک سائنس دان کی عظمت پوری ریاست کے احساس محرومی کے لیے ایک آئینہ بن جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی سماج کی شدید طبقاتی تقسیم بھی کامیابی کے خلاف نفرت کو ہوا دیتی ہے۔ امیر اور غریب، شہری اور دیہی، اشرافیہ اور عوام کے درمیان جو معاشی اور سماجی خلیج حائل ہے، وہ کامیابی کو متنازعہ بنا دیتی ہے۔
دولت مند افراد کے بارے میں بھی مروجہ سوچ یہ ہے کہ انہوں نے ضرور کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت کمائی ہو گی۔ چاہے کوئی فرد کتنی ہی محنت سے آگے بڑھا ہو، اکثر عوامی تاثر یہ ہوتا ہے کہ اسے ضرور کسی رابطے، تعلق یا سازش کا فائدہ حاصل ہوا ہے۔
شرمین عبید چنائے، جنہوں نے خواتین پر تشدد جیسے اہم مسئلے پر بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کی، ان پر بھی یہی الزام لگا کہ وہ پاکستان کا منفی امیج دکھا رہی ہیں۔ کامیابی کو ذاتی استحقاق کے بجائے طبقاتی سازش سمجھنے کا یہ رجحان ہمارے معاشرے میں بری طرح سرایت کر چکا ہے۔
زرعی ماضی، نوآبادیاتی نفسیات، اجتماعی ناکامی کا احساس اور طبقاتی حسد مل کر ایسا ماحول بناتے ہیں جس میں کوئی شخص جتنی بڑی کامیابی حاصل کرے، وہ اتنا ہی زیادہ متنازعہ، تنقید اور شک کا نشانہ بنتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس صورت حال کا نقصان صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ قومی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ جب ایک معاشرہ اپنے ہی روشن چہروں کو داغدار کر دے، یا انہیں مشکوک بنا دے، تو وہ خود بھی ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
زندہ قومیں اپنے ہیروز کو نہ صرف سراہتی ہیں بلکہ ان کو آنے والی نسلوں کے لیے روشن مثال بناتی ہیں۔
پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے تو صرف اقتصادی یا سائنسی اصلاحات کافی نہیں ہوں گی۔ ہمیں اپنی اجتماعی نفسیات، تاریخی شعور اور سماجی رویوں کو بھی بدلنا ہوگا۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ کسی ایک فرد کی کامیابی، سب کے لیے مثال ہو سکتی ہے، خطرہ نہیں۔ ہمیں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر کے اپنے کامیاب کرداروں کو کھل کر سراہنا ہوگا۔
جب تک ہم اپنے ہی ہیروز کو شک سے دیکھتے رہیں گے، ہم خود بھی ایک نامکمل، غیر محفوظ اور منتشر قوم کے طور جانے جاتے رہیں گے۔ ہمیں کامیابی کو بانٹنے، تسلیم کرنے اور اس پر فخر کرنے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا۔ اس رجحان کا حل محض تنقید میں نہیں بلکہ شعوری تربیت، تنقیدی سوچ اور معاشرتی ڈھانچے کی اصلاح میں پوشیدہ ہے۔
جب تک ہم کامیابی کو ذاتی خطرہ نہیں بلکہ اجتماعی افتخار سمجھنے کا شعور پیدا نہیں کریں گے، تب تک ہم اپنے اصل سرمایہِ قومی کو نہ پہچان سکیں گے اور نہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
ہمیں نہ صرف اپنے ہیروز کو قبول کرنا اور سراہنا سیکھنا ہوگا بلکہ اپنی اجتماعی نفسیات کو بھی آئینے میں دیکھنے کا حوصلہ اور ظرف پیدا کرنا ہوگا۔
(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹیکس اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔)
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔